ملالہ یوسف زئی امن کا نوبل انعام

ملالہ یوسف زئی امن کا نوبل انعام

ناروے کی ڈائری مسرت افتخار

ناروے کے تین حکومتی ارکان نے ملالہ یوسف زئی کا نام امن کے نوبل انعام کی نامزدگی کی تجویز امن کمیٹی کو بھجوا دیا ہے۔یہ تجویز آربائیدر پارٹی حکمران پارٹی کے فریڈی ،گھورم شرملی اور مانگنے توائت نے بھجوائی ہے۔انہوں نے لکھا ہے کہ ملالہ کو لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں کرنے والی جدو جہد کی وجہ سے سال دو ہزار تیرہ کا ایوارڈ دیا جائے گا۔ملالہ کے لیے امن نوبل پرائز کی حکومتی پارٹی کی جانب سے نامزدگی کی خبر پوری دنیا میں آگ کی طرح پھیل گئی۔مگر ناروے میں مقیم پاکستانیوں کی خوشی کا کاوئی ٹھکانہ  نہ تھا۔ناروے میں مقیم پاکستانیوں نے مٹھائیاں بانٹیں۔نجی اور سرکاری محفلوں ریستورانوں میں ایک دوسرے کو گلے مل کر مبارکباد پیش کی۔بین الاقوامی سطح پر عزت کا اتنا بڑا نعام کسی معجزاتی خوشی سے کم نہیں ہے۔تمام قوم و ملک میں ایسی خوشی کی خبر ملی ہے جو کہ سب کے لیے قومی خوشی بن گئی ہے۔چونکہ امن نوبل کمیٹی کا انتخاب ناروے کی پارلیمان کی جانب سے ملالہ کے لیے نوبل انعام کی نامزدگی ایک اہم قدم ہے جو کمیٹی کے فیصلے پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ملالہ یوسف زئی دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں بلند ہونے والی ایک ایسی آواز بن گئی ہے جس نے لڑکیوں کے حصول علم کے لیے حوصلہ اور عزم بخشا ہے۔پاکستان نے بھی ملالہ کو قومی امن انعام سے نوازا ہے اورپاکستان کی قومی اسمبلی نے دسمبر دوہزار بارہ کو ملالہ کو دختران پاکستان کا خطاب دینے کی قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا تھا۔ملالہ کو آئر لینڈ کی بھی تمام بچوں کی تعلیم کے حق کی آواز بلند کرنے پر2012 کا  بین الاقوامی ایوارڈ برائے امن دیا ہے۔ملالہ کا نام حق تعلیم حوصلہ ،ہمت اور جدو جہد کا ایک نشان بن گیا ہے۔بچیوں کی تعلیم کے فروغ کے حق کے لیے ملالہ ایک سمبل بن گئی ہے۔ملالہ کی خوشقسمتی پہ جتنا رشک کیا جائے کم ہے۔ملالہ ایک ایسا نصیب لے کر آئی جو دنیا  کی کسی بھی ایسی کنم عمر بچی کو نصیب نہیں ہوا۔ملالہ کو امن کے نوبل پرائز کے لیے نامزد کرکے ناروے نے تمام دنیا میں انسانیت کے جذبے کو ممتاز کرنے میں اہم کرد ار ادا کیا ہے۔طالبان کا ملالہ کو اسکول واپسی پر گولی مار دینا ایک ایسا حملہ تھا جس نے پاکستان کو ہی نہیں پوری دنیا کو ہلا کے رکھ دیا۔ملالہ کا قصور یہ بتایا گیا کہ وہ تعلیم کیوں حاصل کر رہی ہے۔ملالہ پر حملہ ہر انسان کو اپنی بیٹی پر حملہ لگا۔پورا پاکستان ملالہ کے تکلیف اور دکھ پر یکجا ہو گیا۔قوم کا ایسا جذبہ اور دکھ بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ جب سب لوگ ذاتی سیاسی اختلافات کو بھلا کر ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح ہو جاتے ہیں یہ جذبہ اور احساس حب الوطنی یا تو جنگوں میں دیکھنے میں آتا ہے یا پھر انڈیا پاکستان کے کرکٹ میچ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔یہی یکجا ہونے کا احساس ملالہ کے زخمی ہونے پر پوری قوم میں دیکھنے کو ملا۔ملالہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلاء تھی تو پورا پاکستان متحد ہو گیا تھا۔حکومت نے اس طرح ذمہ داری سنبھالی جو حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ڈاکٹروں نے دن رات ملالہ کے بستر کے گرد اسکے علاج میں لگا دیے۔یہ احسا س ذمہ داری اور حکومتی محبت و احساس پاکستان کی ایک بیٹی کو اس وقت ملا جب کہ اسکولوں کو بموں سے اڑایا جا رہا تھا۔خود کش بموں کے دھماکوں نے پاکستان کا کو ئی نہ کوئی علاقہ متاثر ہوتا رہتا ہے۔قوم کے بیٹے جو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں وہاں پر بھی حکومت کی احساس ذمہ داری کا جذبہ اچھا لگا۔ایسے موقعہ پر ایک بچی کو بچانے کی داکٹروں کی کوششیں بھی اچھی لگیں۔اسی طرح ایسے موقع پر پوری قوم کا متحد ہو جانا بھی اچھا لگا۔اور جب پوری پاکستانی قوم ایک مقصد کے لیے اکٹھی ہو گی تو بین  الاقوامی برادری نے بھی پاکستان کی بیٹی کے ساتھ محبت اور حوصلہ افزائی کا مظاہرہ کیا۔یہ تو وہ پاکستان ہے جو ہر پاکستانی چاہتا ہے ۔ملالہ کو علاج کے لیے انگلینڈ بھیج دیا گیا۔جہاں وہ کوئین الزبتھ ہسپتال میں زیر علاج رہی۔اور ابھی ملالہ کی ایک اور سرجری ہونی ہے۔اللہ تعالیٰ ملالہ کو لمبی عمر اور صحت و تندرستی دے۔ملالہ دو ہزار آٹھ میں جب طالبان نے خیبر پختونخوا کے  علاقہ سوات  میں لڑکیوںکی تعلیم پہ پابندی لگا دی تو ملالہ کا بھی اسکول جانا بند ہو گیا۔اور بی بی سی کی اردو سروس کے متعلقہ لوگ ان حالات میں وہاں پر حالات و تعلیمی بندش کا جایزہ لینے گئے۔ملالہ کے والد یوسف زئی سوات مینگورہ میں ایک اسکول چلاتے تھے۔ان کے ساتھ جب ملاقات ہوئی تو آپس میں طے پایا کہ ملالہ ہفتہ وار ایک  ڈائری لکھے گی کہ اسکول نہ جانے پر طالبات کیا محسوس کرتی ہیںاور سوچتی ہیں۔اور یہ بچیوں کے احساس پہ مبنی ڈائری بہت پاپولر ہوئی ۔یہ  ڈائری ایک معصوم بچی کا احساس و فکر  تھا جو لوگوں کو بھا گیا۔2009   میں ایک روز وہ اسکول جانے کے لیے تیار ہونے لگی تو اسے یاد آیا کہ آج پرنسپل نے کہا تھا کہ آج یونیفارم کی جگہ رنگین کپڑے پہن کر آئیں۔ملالہ نے اپنی پسند کا گلابی جوڑا چنا اور پہن کر اسکول چلی گئی۔وہاں دوسری لڑکیوں نے بھی رنگ برنگے کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ سب بہت خوش تھیں۔اور پھر جب اسمبلی مین سب ایک جگہ جمع ہوئیں تو انہیں کہا گیا کہ آج کے بعد کوئی اسکول میں رنگین کپڑے پہن کر نہیں آئے گا کیونکہ طالبان اس پر اعتراض کریں گے۔نیویارک ٹائمز نے ملالہ پر ایک دستاویزی فلم بنائی۔ملالہ تعلیم حاصل کرنے کا ایک ایسا رول ماڈل بن گئی ہے جس نے دنیا بھر میں اور خاص طور پر پاکستانی لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حوصلہ اور جذبہ عطاء کیا ہے۔ یہی حوصلہ اور جذبہ ملالہ کو امن کے نوبل پرائز  برائے سال 2013   کے لیے نامزد کرا گیا ہے۔بشکریہ مسرت افتخار نمائیندہء جنگ اوسلو  2 فروری  2013

2 تبصرے ”ملالہ یوسف زئی امن کا نوبل انعام

  1. Assalam u Alaikum

    Umeed hai Iman o Sehat ki behtareen Halat mein Hoon gi.

    Gee Ye baat to khush aaind hai ke kisi bhi Pakistani ko Aman ke Nobel Inam ke liey Namzad kia gaya Hai. Allah karey ke us bachi ko sehat e Kamila ata ho aur wo ye inam bhi paey.

    Hamari Aik aur Beti ne bhi aman ke liey awaz uthai, police se dandey khaey, Aziatein bardasht kein aur aik alamat bangain la-Pata afrad ki bahali ke liey. us ne Pakistan ke us idarey ko latara jis ka nam lena kisi ko gawara na tha. Magar us Khatoon ne Haq ki awaz ko har aiwan mein pohnchaya. Us Chattan Sift Khatoon ka Nam Hai Amina Masood Janjua. Kash ke Amina Masood ka naaam bhi Nobel inam ke liey pesh kia jata….
    Is tarah ki ba himmat khawateen ki kawishon ko bhi ujagar karein.

    Wassalam
    Raja Muhammad Attique Afsar

  2. AOA, Attique sahab,
    Mussarrat api ka article pasand karnai ka shukriya.Aap nai jin khatoon ka zikr kiya hai on k barai mai kuch likhain ta k onki koshishain bhi sab k samnai aeyn yai bhi ek inam hi hai.
    Jhan tak aman noble prize ka moamla hai to oss ka criteria bohot zyada hai oss ki janch k liyai poori commeti ghor karti hai or Norwegian hmari tarah nahi sochtai.yai log imandari sachai or diyanat ka bai misal namona hain.Is liyai jin khatoon ka ap nai zikr kiya hai Malaal ki tarah onki namzadgi kafi moshkil to ho sakti hai laikin aisai logon ki khood hamai qadr karni chahiyai.yehi hobolwatni hai.
    Shukriya
    shazia

اپنا تبصرہ لکھیں