مغربی ممالک کی اسلحہ کی عدم فراہمی کی دھمکیاں اور اعلانات، ترک صدر ایک مرتبہ پھر میدان میں آگئے، واضح پیغام دیدیا

مغربی ممالک کی اسلحہ کی عدم فراہمی کی دھمکیاں اور اعلانات، ترک صدر ایک مرتبہ پھر میدان میں آگئے، واضح پیغام دیدیا

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے واضح کردیا ہے کہ مغربی طاقتوں کی جانب سے اسلحے کی فراہمی میں رکاوٹ یا پابندیوں کی دھمکیوں سے شام میں کرد انتہاپسندوں کے خلاف جاری آپریشن نہیں رکے گا۔خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق طیب اردوان نے ٹی وی پر نشر خطاب میں کہا کہ‘آپریشن شروع کرنے کے بعد ہمیں معاشی پابندیوں اور اسلحے کی فروخت میں رکاوٹوں کی دھمکیوں کا سامنا ہے’۔ترک صدر نے کہا کہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ترکی کو ان دھمکیوں سے فیصلے واپس لینے پر مجبور کرسکتے ہیں تو وہ بڑی غلطی کررہے ہیں۔خیال رہے کہ فرانس اور جرمنی نے گزشتہ روز کہا تھا کہ شام میں کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹ (وائی پی جی) کے خلاف آپریشن پر وہ ترکی کو اسلحے کی فروخت معطل کررہے ہیں۔شام میں سرگرم وائی پی جی کو ترکی اپنی سرزمین میں دہشت گرد باغی قرار دے چکا ہے لیکن مغربی طاقتیں ان گروپوں کو داعش کے خلاف میدان میں اہم فورس کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ترک صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ انہوں نے جرمن چانسلر انجیلا مرکل سے فون پر بات کی تھی اور اسلحے کی فروخت میں رکاوٹوں کے حوالے سے معاملے کو اٹھایا تھا۔انجیلا مرکل سے گفتگو کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ‘ان سے اس کی وضاحت کرنے کے لیے کہا تھا، کیا ہم نیٹو میں حقیقی اتحادی ہیں یا دہشت گرد گروپ وائی پی جی کو ہمیں مطلع کیے بغیر نیٹو میں تسلیم کیا گیا ہے’۔انہوں نے ترکی اور وائی پی جی کے درمیان کسی طرح کی مصالحت کو بھی مسترد کردیا۔ان کا کہنا تھا کہ آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ کوئی ریاست ایک دہشت گرد گروپ کے ساتھ ایک ہی ٹیبل پر بیٹھی ہو۔طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ترک فوج اور شام میں اس کی پراکسیز نے سرحدی علاقے راس العین کا قبضہ حاصل کرلیا ہیجبکہ تل ابیض کا دو اطراف سے گھیرا کیا جارہا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں