معروف صحافی سہیل انجم کو صحافت کا ایوارڈ 

دہلی اردو اکیڈمی کی جانب سے تفویض کیا گیا
نئی دہلی۔ ۶ نومبر
دہلی اردو اکیڈمی کی جانب سے دہلی سکریٹریٹ کے آڈیٹوریم میں منعقدہ ایک پروقار تقریب میں معروف صحافی سہیل انجم کو سال ۳۱۰۲ کا ایوارڈ برائے صحافت تفویض کیا گیا۔ ایوارڈ میں پچاس ہزار روپے، ایک ٹرافی، ایک توصیفی سند ایک ایک شال شامل ہیں۔ یہ ایوارڈ دہلی کے لفٹننٹ گورنر نجیب جنگ کے ہاتھوں دیا جانا تھا مگر دہلی کی سیاسی صورت حال کے پیش نظر وہ تشریف نہیں لاسکے۔ لہٰذا دہلی کے چیف سکریٹری ڈی ایم سپولیا کے ہاتھوں ایوارڈ دیا گیا۔ اس موقع پر دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چیئرمین پروفیسر خالد محمود اور سکریٹری انیس اعظمی کے علاوہ دہلی کی متعدد معروف علمی، ادبی و صحافتی شخصیات نے شرکت کی۔
 سہیل انجم یکم جولائی ۸۵۹۱ کو اتر پردیش کے ضلع بستی موجودہ سنت کبیر نگر کے موضع لوہرسن بازار (کرنجوت بازار) کے ایک علمی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ڈاکٹر مولانا حامد الانصاری انجم اپنے عہد کے ایک موقر عالم دین، سحر البیان خطیب، شاعر اور صحافی تھے۔سہیل انجم کی صحافت کا آغاز ۵۸۹۱ میں ممبئی کے اردو ہفت روزہ ”بلٹز“ کے لیے بستی ضلع سے نمائندگی کے ذریعے ہوا۔ اس کے بعد فروری ۷۸۹۱ میں آپ مستقل طور پر دہلی آگئے اور ہفت روزہ ”اخبار نو“ میں باضابطہ کام کرنے لگے۔ اس کے بعد آپ نے جون ۵۹۹۱ تک ہمارا قدم، اپنا ہفت روزہ، جریدہ ٹائمز، نئی دنیا اور انٹرنیشنل ملی ٹائمز میں اسسٹنٹ ایڈیٹر، ایڈیٹر انچارج اور نمائندہ خصوصی کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں آپ ۵۹۹۱ میں روزنامہ ”قومی آواز“ دہلی سے بحیثیت سب ایڈیٹر منسلک ہوئے اور مارچ ۸۰۰۲ میں اس کے بند ہونے تک اس میں خدمات انجام دیتے رہے۔ اسی دوران آپ نے جدہ، سعودی عرب کے روزنامہ ”اردو نیوز“ کے لیے ۵۹۹۱ سے ۰۰۰۲ تک جزوقتی رپورٹنگ کی۔ اس پوری مدت میں آپ کا کالم ہر پندرہ روز پر پابندی کے ساتھ اس میں شائع ہوتا رہا۔ قومی آواز میں ملازمت کے دوران ہی ۲۰۰۲ میں آپ کو ریڈیو وائس آف امریکہ واشنگٹن کے لیے عارضی طور پر رپورٹنگ کرنے کا موقع ملا۔ قومی آواز بند ہونے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور آپ اس کے لیے تاحال رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ اب تک آپ کی پندرہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں سات کتابیں صحافت اور میڈیا کے موضوع پر ہیں۔ جن میں سے تین کتابیں مختلف یونیورسٹیوں کے شعبہ صحافت میں معاون کتب کے طور پر شامل ہیں۔ آپ کی تین کتابیں عنقریب شائع ہونے والی ہیں جن میں سے دو صحافت کے موضوع پر ہیں۔ آپ نے متعدد کتابوں کا انگریزی اور ہندی سے اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ مختلف اداروں اور اکیڈمیوں کی جانب سے آپ کی صحافتی خدمات کے پیش نظر آپ کو ایوارڈز دیے جا چکے ہیں۔ آپ کی کئی کتابوں کو بھی مختلف اکیڈمیوں سے انعامات مل چکے ہیں۔ اس دوران ملک بھر کے بڑے اور معیاری اخباروں اور رسالوں میں آپ کے کالم اور مضامین تواتر کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں۔ اس تقریب میں چیف سکریٹری نے اپنی تقریر کے دوران نہایت دردمندانہ انداز میں کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ اتنی پیاری زبان اگر کسی نقصان کی شکار ہوتی ہے تو اس کی وجہ صرف ہماری کاہلی ہوگی اور آج ہم یہاں بیٹھ کر یہ اندازہ بھی نہیں لگاسکتے کہ اردو زبان کے نقصان سے اس ملک، اس کی تہذیب، اس کے کلچر اور اس کی روایت کا کتنا بڑا خسارہ ہوگا۔ دہلی حکومت کے محکمہ فن ، ثقافت و السنہ کے سکریٹری ایس۔ ایس یادو نے یہ تسلیم کیا کہ میں نے اردو کبھی نہیں پڑھی لیکن میں گواہی دیتا ہوں کہ اس زبان سے زیادہ شیریں ، پرلطف اور عالیشان زبان ہندوستان کی دھرتی پر دوسری کوئی نہیں۔ پروفیسر خالدمحمود نے کہا کہ پوری اردو دنیا کو ہر سال اس ایوارڈ فنکشن کا انتظار رہتا ہے اور اکادمی کے معیاری انتخاب یا پھر ان کی کوتاہیوں پر بھی اردو کے لوگ نہایت بے باکی سے اپنی رائے کااظہار کرتے ہیں اور ہر برس اکادمی ان اردو دوستوں کے مثبت اور منفی رایوں کا استقبال کرتی ہے۔ انھوں نے تمام ایوارڈ یافتگان کو مبارکباد پیش کی اور جلسے میں شریک ملک اور بیرونِ ملک سے آئے اردو دوستوں کا خیرمقدم کیا اور شکریہ اداکیا۔ نظامت انیس
اپنا تبصرہ لکھیں