مصحف

قسط نمبر 55 ۔

انتخاب راحیلہ ساجد
تحریر عمیر احمد

وہ تب بهی کهڑکی کے سامنے بیٹهی تهی جب ہمایوں کی گاڑی اندر آئی- اور تب بهی جب رات ہر سو چها گئی-
اس کی اس گهر میں آخری رات….. اور وہ اسے سکون سے گزارنا چاہتی تهی- تب اس نے بلقیس کو بلوایا جس نے اسے بستر پہ لیٹنے میں مدد دی- پهر وہ آنکهوں پہ بازو رکهے’ کب گہری نیند میں چلی گئی اسے پتا ہی نہیں چلا-
اس کے ذہن میں اندهیرا تها ‘ گهپ اندهیرا جب اس نے وہ آواز سنی- تاریکی کو چیرتی ہوئی’ مدهر سی آواز- اپنی جانب کهینچتی آواز-
محمل نے ایک جهٹکے سے آنکهیں کهولیں-
کمرے میں نائٹ بلب جل رہا تها- کهڑکی کے آگے پردے ہٹے تهے- وہ رات کے وقت شیشے کے پٹ کهول کر رکهتی تهی تاکہ جالی سے ہوا اندر آئے- وہئں باہر سےکوئی آواز آ رہی تهی-
اس نے بیڈ سائیڈ ٹیبل پہ ہاتھ مارا’ اور بٹن دبایا- ٹیبل لیمپ فورا” جل اٹها- روشنی سامنے دیوار گیر گهڑی پہ پڑی- رات کا ایک بج رہا تها- وہ مدهم سی دکھ بهری آواز ابهی تک آ رہی تهی-
اس نے رک کر سننا چاہا- لفظ کچھ کچھ سنائی دینے لگے تهے-
” اللهم جعل فی قلبی نورا” ”
( اے اللہ میرے دل میں نور ڈال دے)
محمل نے بے اختیار سائیڈ ٹیبل پہ رکهی بیل پہ ہاتھ مارا-
” و فی بصری نورا” –
( اور میری بصیرت میں نور ہو) بلقیس تیزی سے دروازہ کهول کر اندر آئی تهی- محمل کی وجہ سے وہ کچن میں ہی سوتی تهی- ” جی بی بی؟”
” مجهے بٹها دو’ بلقیس!” اس نے بهرائی ہوئی آواز میں وہیل چئیر کی طرف اشارہ کیا- بلقیس سر ہلا کر آگے بڑهی’ تب ہی کهڑکی کے پار سے آواز آئی-
” و فی سمعی نورا”-
( اور میری سماعت میں نور ہو)
بلقیس چونک کر کهڑکی کو دیکهنے لگی’ پهر سر جهٹک کر اس کی طرف آئی-
” وعن یمینی نورا” وعن یساری نورا” –
( اور میرے دائیں جانب اور بائیں جانب نور ہو)
بہت احتیاط سے بلقیس نے اسے وہیل چئیر پہ بٹهایا-
” اب تم جاؤ-” اس نے اشارہ کیا- بلقیس سر ہلاتی متذبذب سی واپس پلٹی-
” وفوقی نورا” وہ تحتی نورا”-
( اور میرے اوپر اور نیچے نور ہو)
مدهم چاندنی کی چاشنی میں ڈوبی آواز ہر شے پہ چها رہی تهی- محمل نے وہیل چئیرکا رخ باہر کی جانب موڑا-
” وامامی نورا” و خلفی نورا” -( اور میرے آگے پیچهے نور ہو) آوازمیں اب آنسو گرنے لگے تهے-
وہ وہیل چئیر کو بمشکل گهسیٹسی باہر لائی-
” واجعل لی نورا”-
( اور میرےلیے نور بنا دے)
چاندنی میں ڈوبا برآمدہ سنسان پڑا تها- مترنم غم زدہ آواز لان سے آ رہی تهی-
” وفی لسانی نورا” وعصبی نورا”-( اور میری زبان اور اعصاب میں نور ہو)
اس نے سوز میں پڑهتے ذرا سی ہچکی لی-
محمل آہستہ آہستہ برآمدے کی آرام دہ ڈهلان سے نیچے وہیل چئیر کو اتارنے لگی- یہ ڈهلان فرشتے نے ہی اس کے لیے لگوائی تهی-
” وہ لحمی نورا” ودمی نورا”-
( اور میرے گوشت اور لہو میں نور ہو)
لان کے آخری سرے پہ دیوار سے ٹیک لگائے ایک لڑکی بیٹهی تهی- اس کا سر نڈهال سا دیوار سے ٹکا تها- آنکهیں بند تهیں جن سے قطرہ قطری آنسو ٹوٹ کر رخسار پہ گر رہے تهے- لمبے بهورے بال شانوں پہ پڑے تهے-
” وشعری نورا” وبشری نورا”-( اور میرے بال و کهال میں نور ہو)
محمل وہیل چئیر کو گهاس پہ آگے بڑهانے لگی- گهاس کے تنکے پہیوں کے نیچے چرمرانے لگے تهے-
” واجعل لی نفسی نورا” واعظم لی نورا”-( اور میرے نفس مین نور ہو اور میرے لیے نور کو بڑها دے)
وہ اسی طرح آنسو بہاتی بند آنکهوں سے بےخبر سی پڑهتی جا رہی تهی-
محمل وہیل چئیر اس کے بالکل سامنے لے آئی-
اللهم اعطنی نورا”
( اے اللہ مجهے نور عطا کر دے)
چاندنی میں اس کے انسو موتیوں کی طرح چمک رہے تهے-
فرشتے!” اس نے ہولے سے پکارا-
فرشتے کی انکهوں میں جنبش ہویی- اس نے پلکیں جدا کیں اور محمل کو دیکها- وہ شاید بہت روئی تهئ- اس کی آنکهیں متورم تهیں-
” کیوں رو رہی ہو؟” اس کے اپنے آنسو گرنے لگے تهے- یہ وہ لڑکی تهی جس نے اسے قرآن سنایا تها’ قرآن پڑهایا تها- اس کی جان ان لوگوں سے چهڑائی تهی، سات سال اس کی خدمت کی تهی-بہت احسان تهے اس کے محمل پہ- اور آج اس نے اسے رلا دیا-
” مجهے رونا ہی تو چاہئیے-” وہ سر اٹها کر چاند کو دیکهنے لگی- ” میں نے بہت زیادتی کی ہے ‘ محمل ‘ بہت زیادتی-”
وہ خاموشی سے اس کو سنے گئی- شاید ابهی فرشتے نے بہت کچھ کہنا تها ‘ جو وہ پہلے نہ کہہ سکی-
” میں نے سات سال توجیہات جوڑیں’ دلیلیں اکٹهی کیں’ اور تم نے سات آیتوں میں انہیں ریت کا ڈهیر بنا دیا- میں نے خود کو بہت سمجهایا تها- بہت یقین دلایا تها کہ یہی صحیح ہے’ مگر آج میرا یقین ٹوٹ گیا ہے- محمل میں خود غرض ہو گئی تهی’ کتے کی طرح خود غرض’ جو ہڈی نہ ڈالنے پہ بهی زبان نکالتا ہے-”
اس کی اوپر چاند کو تکتی آنکهوں سے قطرے گر رہے تهے-
” کبهی تم نے میری چاندی کی وہ انگوٹهی دیکهی ہےمحمل؟ تم نے کبهی نہیں پوچها کہ وہ مجهے کس نے دی تهی؟ جانتی ہو وہ مجهے میری خالہ نے دی تهی- وہ انہوں نے اپنی بہو کے لیے رکهی تهی اور اپنی وفات سے قبل وہ بہت بیمار تهیں’ انہوں نے وہ مجهے پہنا دی- میری امی انکا مطلب سمجهتی تهیں’ مگر خاموش رہیں-
وہ وقت آنے پہ ہمایوں سے بات کرنا چاہتی تهیں’ مگر وقت نہیں آیا- آ ہی نہیں سکا- امی فوت ہوئیں تو میں چپ چاپ مسجد چلی گئی- میں برسوں انتظار کرتی رہی کہ ہمایوں کبهی تو اس انگوٹهی کے بارے میں پوچهے گا، مگر اس نے نہیں پوچها- پهر میں نے صبر کر لیا’ مگر انتظار تو مجهے تها نا- میں نے بچپن سے اپنے نام کے ساتھ اس کا نام سنا تها- مجهے اس پہ اپنا ہی حق لگتا تها- اور جب ایک روز ہمایوں نے مجهے کہا کہ مجهے شادی کے بارے میں سوچنا چاہئے تو میں نے اس کو خالہ کی خواہش کے بارے میں بتانے کا سوچا-
اس رات میں بہت دیر رک مسجد کی چهت پہ بیٹهی رہی تهی اور جب میں فیصلہ نہ کر پائی تو دعائے نور پڑهنے لگی-
تمہیں پتا ہے’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کا ایک حصہ سجدے میں پڑها کرتے تهے؟ اور یہ دعا قرآن سمجهنے میں مدد دیتی ہے- میں جب بهی فیصلہ نہ کر پاتی اس دعا کو پڑهتی- اس رات کو بهی میں پڑھ کر ہٹی ہی تهی کہ تم ہماری چهت پہ آئیں اور پهر تم ہماری زندگی میں بهی آ گئیں-
میں نے آج تک تمہارے لیے جو بهی کیا تها وہ اللہ کے لیے کیا تها- مجهے یاد بهی نہیں کہ میں نے کیا کیا تها- پهر جب میں نے ہمایوں کو تمہارے لیے مسکراتے دیکها اور اس کے لیے تمہاری آنکهوں کو چمکتے دیکها تو میں نے سوچا کہ تمہیں آگاہ کر دوں اور تمہیں یاد تو ہے جب ہسپتال میں تم ہمایوں کو دیکهنے آئی تهیں’ تو میں تمہیں بتانے ہی والی تهی- مگر تم نے سنا نہیں- تب میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں پیچهے ہٹ جاؤنگی- قربانی دے دونگی- تب میرا جینا اور میرا مرنا اور میری نماز اور میری قربانی صرف اللہ کے لیے تهی- میں نے ہر چیز بہت خلوص دل سے کی- خود تمہاری شادی کروائی، اور اپنے تئیں میں مطمئین تهی’ لیکن-
جب تمہارا ایکسیڈینٹ ہوا اور میں پاکستان واپس آئی تو مجهے پہلی دفعہ لگا کہ شاید تم زندہ نہ رہ سکو’ اور ہمایوں میرا نصیب……
اور اس سے آگے سوچنے سے بهی میں ڈرنے لگی تهی- سو واپس چلی گئی- مگر ہمایوں جب بهی کال کرتا اور تمہاری مایوس کن حالت کی خبر دیتا تو مجهے لگتا شاید یہی تقدیر ہے- شاید تم ہمیں چهوڑ جاو’۔ تب ہمایوں میرے پاس واپس آ جائے- مجهے لگا میری قربانی قبول ہو گئی ہے- اسی کا انعام مجهے دیا جانے لگا ہے- مجهے بهول گیا کہ وہ قربانی تو اللہ کے لیے تهی، اللہ کو پانے کے لیے تهی’ دینا کے لیے یا ہمایوں کے لیے تو نہیں تهی- مگر تمہاری طرف سے ہم اتنے مایوس ہو گئے تهے کہ آہستہ آہستہ مجهے سب بهولتا گیا- میں ہر نماز میں ہر روز تلاوت کے بعد ہمایوں کو مانگنے لگی-میں آہستہ آہستہ زمین کی طرف جهکنے لگی تو میرے ساتھ شیطان لگ گیا-”
اس کی اٹهی لمبی گردن پہ آنکهوں سے نکلتے آنسو پهسل رہے تهے- اس کی نگاہیں ابهی بهی اوپر چاند پہ ٹکی تهیں- شاید وہ ابهی محمل کو دیکها نہیں چاہتی تهی-
” جب میں دوبارہ واپس آئی تو اپنی ” زمین” کی طرف جهکی ہوئی آئی- اس امید پہ تمہاری خدمت کرنے آئی کہ شاید یہی دیکھ کر ہمایوں کا دل میری طرف کهنچ جائے- میری اس انتهک خدمت میں ریا شامل ہو گئی- مجهے اس وقت سے ڈر نہیں لگا کہ جب میں حشر کے بڑے دن اپنے رب کے سامنے اپنے اعمال نامے میں ان بڑی نیکیوں پہ کاٹا لگے دیکهوں گی کہ یہ تو ریا کے باعث ضائع ہو گئیں – قبول ہی نہیں کی گئیں- مجهے ڈر نہیں لگا- میں ریاکاری میں گرتی گئی، مگر یقین کرو’ قرآن مجھ سے نہیں چهوٹا- مین تب بهی اسے روز پڑهتی تهی، مگر میرا جینا، مرنا، نماز اور قربانی ہماہوں کے لیے ہو گئی-”
یکدم بادل زور سے گرجے اور اگلے ہی لمحے بارش کے ٹپ ٹپ قطرے گرنے لگے’ مگر وہ دونوں بےخبر بیٹهی تهیں-
” پهر ایک دن معیز چلا آیا- اسے آرزو نے بهیجا تها- وہ ان گزرے سالوں میں کئی دفعہ ہمایوں سے رابطے کی کوشش کر چکی تهی-مگر اس نے جب توجہ نہ دی تو اس نے معیز کو بهیجا-اس کے پاس تصویریں تهیں اور وہ کاغذ- ہمایوں نے مجھ سے پوچها تو کاغذ کی بابت میں نے سچ بولا’ مگر جب اس نے تصویریں میرے سامنے پهینکیں تو میں خاموش ہو گئی- مجهے یقین تها کہ وہ جعلی ہیں- مگر ٹیکنیکلی….. میں نہیں جانتی تهی کہ وہ سچ ہیں یا نہیں-
میرے پاس کوئی ثبوت نہ تها، مگر میرا دل …. بار بار کوئی میرے اندر آیت دہرا رہا تها کہ-
“کیوں نہیں تم نے کہا کہ یہ کهلم کهلا بہتان ہے-”
وہ آیت بهی ایک ایسی محترم ہستی کے لیے نازل ہوئی تهی’ جس کے اوپر لگے بہتان کی حقیقت سے مومنین بےخبر تهے- پهر بهی اللہ نے ان کو سرزنش کی کہ یہ جانتے ہوئے بهی کہ وہ کردار کی کتنی سچی ہے’ تم نے اس کی حمایت نہیں کی-؟
میں ہمایوں کے سامنے سر جهکائے کهڑی تهی- وہ میرے اوپر چلا رہا تها- اور مسلسل کوئی میرے اندر کہہ رہا تها کہ کہو” ہذا افک مبین” ( یہ بہتان ہے کهلم کهلا) میں نے سر اٹهایا’ ایک نظر ہمایوں کو دیکها’ وہ ہمایوں جس سے میں نے بہت محبت کی تهی اور پهر میں نے کہہ دیا کہ میں اس بارے میں لاعلم ہوں-
تب ایک دم میرے اندر باہر خوشی چها گئی- وہ آواز آنا بند ہو گئی- تب ہمایوں نے معلوم نہیں کہاں سے وہ ٹیپ نکالی اور مجهے سنوائی- اس میں کسی انگوٹهی کا ذکر تها- اس نے معیز کی کہی بات دہرائی کہ کیا اس روز فواد تمہیں پروپوز کرنے کا جهانسہ دے کر باہر لے کر گیا تها؟ تب پهر سے کسی نےمیرے اندر کہا-
” اللہ خیانت کار کی چال کی رہنمائی نہیں کرتا-”
مگر اب وہ آواز کمزور پڑ چکی تهی- مجهے امانت کے ساری سبق بهول گئے- میں نے اسے وہ بتا دیا جو تم نے مجهے بتایا تها- تب وہ مجھ پہ بہت چیخا – اس نے کہا میں نے اپنی بہن کو بچانے کے لیے اس کے سر تهوپ دیا تها- اس نے بہت مشکل سے دل بڑا کر کے اس بات کو نظر انداز کیا تها کہ تم کس طرح پہلی دفعہ اس کے گهر لائی گئی تهیں- مگر یہ بات کہ تمہارا اور فواد کا کوئی افئیر تها- اس کے لیے ناقابل برداشت تهی- میرے ایک فقرے نے ہر چیز پہ تصدیق کی مہر لگا دی-
وہ مجھ پہ کبهی ایسے نہیں برسا تها جیسے اس رات برسا تها- میں ساری رات روتی رہی- نامعلوم غم کس بات کا زیادہ تها- خیانت کا’ یا ہمایوں کے رویے کا- میں نے واپس جانے کا فیصلہ کیا- مگر ہمایوں نے اگلی صبح مجھ سے ایکسکیوز کر لیا- میں چپ چاپ سنتی رہی-تب آخری دفعہ میرے دل سے آواز آئی کہ اس کو بتا دو کہ تم نے جهوٹ بولا تها-

جاری ہے…….!

اپنا تبصرہ لکھیں