مصحف

·
تحریر عمیر احمد
انتخاب راحیلہ ساجد
قسط نمبر 56 ۔مگر میں چپ رہی- میں نے خواہشات کی پیروی میں چلنا شروع کر دیا – اور میں بهٹک گئی- وہ کراچی چلا گیا اور میں کئی دن تک تمہیں دیکهنے ہسپتال نہیں جا سکی، پهر میں مسجد بهی نہیں جا سکی- جس دن میں نے خیانت کی، محمل !اس دن سے آج تک کے ساڑهے تین سال ہونے کو آئے ہیں ‘ میں قرآن نہیں کهول پائی- ہاں نمازیں میری آج بهی ویسی ہی لمبی ہیں’ میں سجدوں میں گر کر ہمایوں کو اب بهی مانگتی ہوں’ مگر قرآن پڑهنے کا وقت نہیں ملا-”
بارش تڑا تڑ برس رہی تهی- فرشتے کے بهورے بال بهیگ چکے تهے- موٹی موٹی گیلی لٹیں’ چہرے کے اطراف میں چپک گئی تهیں- وہ ابهی تک اوپر چاند کو دیکھ رہی تهی-
” وہ کراچی سے آیا تو بدل گیا تها- پهر ایک روز اس نے مجهے پروپوز کیا- اچانک بالکل اچانک سے ،اور مجهے لگا کہ میری ساری قربانیاں مستجاب ہو گئی ہیں- پهر مڑ کر پیچهے دیکهنے کا موقع ہی نہ ملا- وہ تم سے بدظن ہو چکا تها- مگر میں نے اسے مجبور کیا کہ وہ تمہارا علاج کروانا نہ چهوڑے-”
موسلا دهار بارش میں بار بار بجلی چمکتی تو پل بهر کو سارا لان روشن ہو جاتا-
” فواد نے کئی دفعہ فون کر کے تمہارا پوچهنا چاہا، میں نے اسے کبهی کچھ نہیں بتایا بس اس کی بات سن کر کچھ کہے بنا ہی بند کر دیتی- وہ بہت بدل گیا ہے- مجهے لگتا تها اگر اک دفعہ اسے اس سارے کهیل کا علم ہو گیا تو وہ ہمایوں کے پاس آ کر اسے سب بتا دے گا- مشکل ہی تها کہ ہمایوں اس کا یقین کرے’ مگر اس ڈر سے میں نے اسے کبهی کچھ پتا نہیں لگنے دیا-”
” مجهے ہمایوں نہیں چاہئے فرشتے!” وہ روتے ہوئے بولی تهی- مجهے اپنی بہن چاہیئے-!”
” مجهے بهی ہمایوں نہیں چاہئے- مجهے بهی اپنی بہن چاپئے!” اس نے بهیگی آنکهوں کا رخ پہلی دفعہ محمل کے چہرے کی طرف کیا- محمل نے اس کے گهٹنوں پہ رکهے ہاتھ پکڑ لیے- ان میں آج چاندی کی انگوٹهی نہیں تهی-
بارش زور سے ان دونوں پہ برس رہی تهی-
” میں نے فواد کو فون کر دیا ہے- وہ پہنچنے والا ہو گا- وہ خاصا سمجهدار بندہ ہے ایسے ثبوت لائے گا کہ ہمایوں اسے جهٹلا نہ سکے گا- وہ ابهی آ کر ہمایوں کو سب کچھ بتا دے گا- ابهی کل دوپہر میں خاصا وقت ہے- تمہاری عدت ختم نہیں ہوئی- میں جانتی ہوں کہ وہ حقیقت جان کر نہیں رہ سکے گا- اور تمہیں واپس اپنائے گا- آؤ- اندر چلتے ہیں-” فرشتے نے اپنے ہاتھ اس کے ہاتهوں سے نکالے، اٹهی اور پهر وہیل چئیر کی پشت تهام لی-
” بس مجھ پہ ایک احسان کرنا- ہمایوں کومت بتانا کہ میں نے خیانت کی- میں اس کی نظروں سے گرنا نہین چاہتی- بظاہر میں نے جهوٹ نہیں بولا مگر مجهے تمہارا راز نہیں کهولنا چاہیئے تها- میں اس سے کہہ دونگی کہ مجهے غلط فہمی ہوئی تهی’ فواد کے سامنے تمہاری تائید ہی کرونگی- مگر تم….تم میری عزت رکھ لینا’ وہ جانتا ہے کہ فرشتے جهوٹ نہیں بولتی، خیانت نہیں کرتی، اس نے ان تصویرون پہ نہیں مجھ پہ یقین کر کے تمہیں طلاق دی تهی- تم میری عزت رکھ لینا-
وہ اس کی وہیل چئیر دهکیلتی آہستہ آہستہ بےخود سی کہہ رہی تهی- محمل نے سر جهکا لیا- وہ فرشتے کو نہیں بتا سکی کہ آج پهر وہ زمین کی طرف جهک رہی ہے’ مگر اسے پتا نہیں ہے-
” تم ہمایوں کو واپس لے لو محمل’ وہ تمہارا ہے اسے تمہارا ہی رہنا چاہیئے-” وہ اسے اس کے کمرے میں چهوڑ کر پلٹ گئی-
کمرے میں اسی طرح نیم اندهیراتها- کهڑکی کے پردے ہٹے تهے– ٹیبل لیمپ ابهی تک جل رہا تها- وہ خود کو گهسیٹتی آگے بڑهی اور لیمپ کا بٹن بجها دیا- ایک دم کمرے میں اندهیرا پهیل گیا- بس کهڑکی کے پار بارش کے قطرے گرتے دکهائی دے رہے تهے-
وہ وہیں کهڑ کی کے سامنے بیٹهی برستی بارش کو دیکهے گئی-
” انسان جس سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے’ اللہ اسے اسی کے ہاتهوں توڑتا ہے، انسان کو اس ٹوٹے ہوئے برتن کی طرح ہونا چاہئے جس سے لوگوں کی محبت آئے اور باہر نکل جائے-”
اللہ نے اسے ان ہی لوگوں کے ہاتهوں توڑا تها جن سے وہ سب سے زیادہ محبت کرتی تهی- ہمایوں فرشتے اور تیمور-!
تب ہی گاڑی کا ہارن سنائی دیا-وہ خاموشی سے دیکهتی رہی-
وہ گاڑی بار بار ہارن بجا رہی تهی- تب اس نے برستی بارش میں ہمایوں کو گیٹ کی طرف جاتے دیکها-
اس نے گیٹ کهولا تو ایک گاڑی زن سے اندر داخل ہوئی- ڈراوئیونگ سیٹ کا دروازہ کهول کر وہ تیزی سے باہر نکلا تها- وہ فواد ہی تها- وہ پہچان گئی تهی-
وہ ویسا ہی تها بس آنکهوں پہ فریم لیس گلاسز تهے اور بالوں کو کٹ ذیادہ چهوٹا تها-
کیا ہمایوں اس کی بات سن لے گا؟ کبهی بهی نییں!
تب ہی فواد نے لپک کر فرنٹ سیٹ کا دروازہ کهولا اور کسی کو بازو سے کهینچ کر باہر نکالا- محمل دهک سے رہ گئی- وہ معیز تها-
پتلا لمبا نوجوان جس کی مسیں بهیگ رہی تهیں- فواد اس کو پکڑ کر ہمایوں کے سامنے لایا جو قدرے چونکا ہوا کهڑا تها-
برستی بارش کا شور بہت زیادہ تها – ان کی باتوں کی آواز سنائی نہیں دے رہی تهی- وہ تینوں بارش میں بهیگتے کهڑے تهے- فواد زور زور سے کچھ کہہ رہا تها- ہمایوں سینے پہ ہاتھ باندهے صرف خاموشی سے سن رہا تها- اسکی محمل کی طرف پشت تهی- وہ اس کے چہرے کے تاثرات نہیں دیکھ سکتی تهی-
اور تب اس نے معیز کو ہات جوڑتے دیکها- شاید اس کے چہرے پہ بارش کے قطرے تهے-یا شاید وہ رو رہا تها- روتے ہوئے وہ کچھ کہتے ہوئے ہمایوں سے معافی مانگ رہا تها- اور تب اس نے فرشتے کو باہر آتے دیکها- وہ بهی کچھ کہہ رہی تهی-
محمل نے ہاتھ بڑها کر پردہ برابر کر دیا- وہ اس منظر کو اب مزید نہیں دیکهنا چاہتی تهی-
کتنی ہی دیر بعد اس نے فرشتے کی آواز سنی’ وہ فواد اور معیز کو ادهر لا رہی تهی-
اس کے کمرے کا دروازہ کهلا محمل کی اس طرف پشت تهی-
” محمل….” فواد کی بهرائی ہوئی آواز اسے سنائی دی- معیز نے ہمایوں کو سب کچھ بتا دیا ہے- اگر مجهے پہلے پتا ہوتا تو ….. محمل ہمیں معاف کر دو- ہم نے تمہارے ساتھ بہت زیادتی کی-”
” آپا! ہمیں معاف کردو-” وہ معیز تها- رو رہا تها- ” اماں اور آرزو آپا نے مجهے یہ سب کرنے کو کہا تها- آپا! اماں بہت بیمار ہیں وہ اب پہلے جیسی نہیں ہیں- وہ سارا دن چیختی چلاتی ہیں….. آپا…. ہمیں-” وہ کہہ رہا تها اور کوئی دهیمے سے اس کے اندر بولا تها-
“پس تم یتیم کے ساتھ سختی نہ کرنا-”
” آپا! آرزو آپا نے خودکشی کر لی ہے- آج ہمایوں بهائی نے انکو ریجیکٹ کر دیا تها – اماں سنبهل نہیں پارہیں- ہمیں بددعا مت دینا آپا-”
” جاو معیز! میں نے تمہیں معاف کیا- سب کچھ معاف کیا-”
وہ کهڑکی کی طرف دیکهتے ہویے بولی تهی-
آپا دعا کرو آرزو آپا بچ جائیں- ان کے لیے بد دعا مت کرنا-”
” میں دعا کرونگی’ تم جاؤ معیز’ ان کا خیال رکهنا- مجهے تم سے کوئی شکوہ نہیں ہے’ بلکہ تم نے تو مجهے انسانوں کی محبت اور وفا کی حقیقت دکهائی ہے- تمہارا شکریہ معیز’ تم جاؤ-”
اور وہ ویسے ہی الٹے قدموں پلٹ گیا-
” کیا تم ہمیں معاف کر سکتی ہو محمل؟” وہ شکست خوردہ ٹوٹا ہوا شخص آغافواد ہی تها-
میں نے معاف کیا- سب معاف کیا- وہ اب بهی پیچهے نہیں مڑی تهی-
” آغاجان کو آدهے جسم کا فالج ہو گیا ہے- وہ تمہیں بہت یاد کرتے ہی – ممی ان کے غم کی وجہ سے نہ زندوں میں ہیں نہ مردوں میں- سدرہ کے شوہر کی ڈیتھ ہو گئی ہے اور اس کے وہ خاندانی سسرال والے اس کو میکے نہیں آنے دیتے- وہ اور اس کے یتیم بچے اپنے گهر میں اس سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں جو تم نے اور مسرت چچی نے گزاری تهی- مہرین کو…..”
” مجهے کچھ مت بتائیں فواد بهائی- پلیز- میں نے معاف کیا سب معاف کیا- مجهے یہ سب بتا کر اور دکھ نہ دیں- ابهی مجهے اکیلا چهوڑ دیں- اس کے نرم لہجے میں منت تهی-
تهیک ہے. اور یہ تمہارا حصہ ہے، ان تمام سالوں کے منافع سمیت- فرشتے کا حصہ میں اسے ادا کر چکا ہوں- ہو سکے تو ہمارے لیے دعا کرنا- وہ ایک فائل اور ایک مہر بند لفافہ اس کے بیڈ کی پائینتی پہ رکھ کر واپس مڑ گیا تها-
محمل نے گردن پهیر کر دیکها- وہ سر جهکائے نادم و شکستہ حال جا رہا تها-
وہ ہمیشہ سوچتی تهی کہ آغا فواد کا کیا انجام ہوا-
مگر یہ دنیا انجام ک جگہ تهوڑی ہے…. یہ تو امتحان کی جگہ ہے’ اپنے گناه نظر آنا بهی ایک امتحان ہے اصل فیصلہ تو روزحساب ہی ہو گا-
اس کے بیڈ کی پائینتی پر چند کاغذ رکهے تهے- وہ کاغذ جو کبهی اس کی زندگی کا محور تهے-مگر آج اس نے ان پہ دوسری نظر بهی نہیں ڈالی تهی-ان کی کاغذوں کے لیے اس نے فواد کے ساتھ جانا قبول کیا تها- آج فواد نے اسے خود لا دیے تهے- مگر کتنی بهاری قیمت تهی اس غلطی کی جو اسے چکانی پڑی تهی-
کچی عمر کے کچے سودے-
بارش دهیمی ہو چکی تهی- کهڑکی کی جالیاں گیلی ہو چکی تهیں- ان سے مٹی کی سوندهی خوشبو اندر آ رہی تهی- بہت دیر تک وہ وہیں بیٹهی خوشبو سونگهتی رہی- اسے لاشعوری طور پہ اس کا انتظار تها- وہ جانتی تهی کہ اب وہ اس کے کمرے میں ضرور آئے گا –
کافی لمحے بیت گئے تو اس نے چوکهٹ پہ آہٹ سنی’ وہ آہستہ سے مڑی-
ہمایوں تهکا ہارا سا دروازے پہ کهڑا تها- یہ وہ دروازہ تها جو اس نے محمل کی موجودگی میں کبهی پار نہیں کیا تها- _یہ وہ چوکهٹ تهی جس پہ وہ سوالی بن کے کبهی نہیں آیا تها مگر آج وہ آیا تها-
اس کے تهکے تهکےٹوٹے توٹے قدم آہستہ اہستہ اندر داخل ہو رہے تهے-
” محمل!” ٹوٹی ہوئی آواز میں اس نے پکارا تها- اور پهر وہ پورے قد سے گهٹنوں کے بل اس کے قدموں میں آن گرا تها-
” مجهے معاف کر دو محمل!” اس کی آنکهیں سرخ تهیں- اور چہرے پہ صدیوں کی تهکن تهی-
” مجهے معاف کر دو’ میں بہت دور چلا گیا تها-
اس نے تاسف سے ہمایوں کو دیکها- پہلے بهی وہ سب اس سے اس کا سب کچھ چهین کر لے گئے تهے- آج بهی وہ ہی مانگ رہے تهے’ مانگنے ہی آئے تهے-
ہر ایک کو اپنے ضمیر کے بوجھ سے نجات چاہیئے تهی- محمل ابراہیم تو کہیں نہیں تهی!”
“میں نے صرف فرشتے کی بات پر…..اور آج وہ کہہ رہی ہے کہ تم نے اس سے صرف ایک مسئلہ پوچها تها اس نے خود غلط اخذ کیا- میں نے صرف فرشتے کی وجہ سے-”
” کیا آپ نے پہلے زندگی کے سارے فیصلے فرشتے کے دماغ سے کیے تهے ایس پی صاحب؟” وہ سپاٹ لہجے میں بولی تهی- ” آپ چهوٹے بچے تهے جو یہ نہیں جانتے تهےکہ میرے رشتے دار میرے کهلے دشمن ہیں؟ آپ ان پڑھ جاہل تهے جو یہ نہیں سمجهتے تهے کہ ایسی تصویریں تو ہر گلی محلے میں بن جاتی ہیں-”
” محمل یقین کرو میں-”
” ایک منٹ ایس پی صاحب! میں نے کئی مہینے صرف آپ کی سنی ہے- آج آپ میری سنیں گے- آپ کہتے ہیں کہ آپ نے فرشتے کے کہے پہ یقین کر لیا؟ آج میں آپ سےپوچهتی ہوں کہ آپ نے فرشتے سے پوچها ہی کیوں؟ آپ میری طرف سے اتنے بدگمان تهے کہ آپ کو دوسروں سے پوچهنا پڑا؟ کیوں نہیں’ آپ نے وہ تصویریں معیز کے منہ پہ دے ماریں؟ کیا آپ بہت قابل آفیسر نہیں تهے؟ کیا آپ کو کهرا اور کهوٹا الگ کرنا نہیں آتا؟ کیا آپ آرزو کی خصلت کو نہیں جانتے تهے؟ یا شاید آپ کی دلچسپی ایک بیمار بیہوش عورت میں ختم ہو چکی تهی- شاید آپ کو میری خدمت سے دور بهاگنے کا ایک موقع چاہئے تها- آپ آزاد ہونا چاہتے تهے- اگر ایسا نہ ہوتا تو آپ مجهے صفائی کا ایک موقع تو دیتے؟ ایک بار تو پوچهتے کہ کیا تم نے ایسا کیا ہے؟ مگر آپ خود بهی مجھ سے تهک گئے تهے- آپ نے ایک لمحے کے لیے نہیں سوچا ہمایوں کہ اگر میری جگہ آپ یوں بیمار ہوتے اور میں آپ کے ساتھ یہی کرتی تو آپ کی کیا حالت ہوتی-؟”
بولتے بولتے اس کا سانس پهول گیا تها- تب ہی کهلے دروازے سے تیمور بهاگتا ہوا اندر آیا- شور سن کر وہ نینید سے جاگا تها- وہ بهاگ کر اس کے پاس آیا اور اس کے گهٹنوں سے لپٹ گیا- مگر ہمایوں اور محمل اس کو نہیں دیکھ رہے تهے-
” محمل’ مجهے معاف کر دو میں رجوع کرنا چاہتا ہوں- میرے ساتھ چلو-” ہمایوں نے اس کا ہاتھ تهامنے کے لیے ہاتھ بڑهایا- مگر محمل ایک دم پیچهے کو ہوئی-
” لیکن میں اب ایسا نہیں چاہتی’ ٹوٹے دهاگے کو دوبارہ جوڑا جائےتو اس میں ایک گرہ رہ جاتی ہے- ہمارے درمیان بهی وہ گرہ رہ گئی ہے- سو اس دهاگے کو ٹوٹا رہنے دیں-”
” محمل!” وہ بےیقین تها- معافی کے لیے جڑے اس کے ہاتھ نیچے گر گئے- محمل نے گہری سانس لی-
” میں نے آپ کو معاف کر دیا ہے ہمایوں! دل سے معاف کر دیا ہے- مگر اب رجوع کرنا میرے بس کی بات نہیں ہے- آپ فرشتے سے شادی کر لیں- آپ دونوں ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں- درمیان میں ‘ میں آگئی تهی-” مگر محمل….تم….” وہ کچھ کہنا چاہ رہا تها- مگر آج وہ نہیں سن رہی تهی-
” مجهے کسی سہارے کی ضرورت نہیں رہی ہے ہمایوں-” میرا بیٹا میرے پاس ہے’ فواد نے مجهے میرا حصہ بهی لا دیا ہے- میں لوگوں کی محتاج نہیں رہی’ آپ فرشتے سے شادی کر لیں- وہ آپ کا انتظار کر رہی ہے-”
اس نے دروازے کی طرف اشارہ کیا ہمایوں نے گردن موڑ کر دیکها-
فرشتے وہاں کهڑی رو رہی تهی- ہمایوں کو گردن موڑتے دیکھ کر’ منہ پہ ہاتھ رکهے باہر کو بهاگی تهی-
” آپ اس کا اور امتحان نہ لیں- اس سے شادی کر لیں- میں اور تیمور ایک دوسرے کو بہت ہیں’ ہمارا تیسرا اللہ ہے’ آپ ہمیں جانے دیں’ اب ہمارا ساتھ ممکن نہیں ہے-”
وہ بهیگی آنکهوں سے دیکھ رہا تها-
” میں نے تمہاری قدر نہیں کی محمل! وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے اٹها’ اور شکستہ قدموں سے باہر کی جانب بڑھ گیا-”
دروازہ بند کر جايے گا-”
اس کے الفاظ پہ ذرا دیر کو رکا مگر پلٹا نہیں’ اب شاید وہ پلٹنے کی ہمت خود میں نہیں پاتا تها-
بہت آہستہ سے وہ باہر نکلا اور دروازہ بند کیا-
وہ محمل کی زندگی سے جا چکا تها-
دو آنسو اس کی پلکوں سے ٹوٹے اور گردن پہ لڑهک گئے-
فرشتے کہتی تهی کہ اس نے سنا نہیں جب وہ برسوں پہلے اسے اسپتال میں کچھ بتانا چاہتی تهی- حالانکہ وہ منظر تو اسے آج بهی یاد تها- وہ جو نرس کے پکارنے پہ اٹهی تهی’ فرشتے کی ادهوری بات سن کر ہی اٹهی تهی- وہ ہمیشہ سے جانتی تهی کہ فرشتے ہمایوں کو پسند کرتی ہے- مگر جب فرشتے نے خود اپنے رویے سے یقین دلایا تو وہ بهی بظاہر خود کو مطمئن کرنے لگی- کہ بهلا فرشتے ایسے جذبات کیوں رکهے گی’ مگر وہ اندر سے ہمیشہ جانتی تهی- اگر آرزو کو درمیان میں نہ دیکها ہوتا تو وہ کبهی اس غلط فہمی کا شکار نہ ہوتی- کہ ہمایوں کس سے شادی کر رہا ہے-

جاری ہے…….!

اپنا تبصرہ لکھیں