مصحف

ناول نگار عمیر احمد
انتخاب راحیلہ ساجد
قسط نمبر 53 ۔

” آپ بہت روتی ہیں ماما- ہر وقت روتی ہی رہتی ہیں-” وہ خفا تها-
” مجهے لگتا ہے آپ دنیا کے سارے لوگوں سے زیادہ روتی ہونگی-”
” نہیں تو اور تمہیں پتا ہے دنیا کے سارے لوگوں سے زیادہ آنسو کس انسان نے بہائے تهے؟”
” کس نے؟” وہ حیرت بهرے اشتیاق سے اس کے قریب ہوا-
” ہمارے باپ آدم علیہ السلام نے جب ان سے اس درخت کو چهونے کی غلطی ہوئی تهی-” وہ نرمی سے اس کے بهورے بالوں کو سہلاتی بتا رہی تهی’ اسے تیمور کو اپنی وجہ سے پریشان نہیں کرنا تها- اس کا ذہن بٹانے میں کسی حد تک کامیاب ہو گئی تهی-
” اچها!” وہ حیران ہوا- ” اور ان کے بعد؟”
” ان کے بعد داؤد علیہ السلام نے، جب ان سے ایک فیصلے میں ذرا کمی رہ گئی تهی-”
” اور ان کے بعد؟”
” ان کے بعد؟” اس نے گہری سانس لی- ” پتا نہیں بیٹا یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے-”
” آپ بهی بہت روتی ہیں ماما- مگر آپ کو پتا ہے آپ جیسی مدر کسی کی نہیں ہیں- میرے کسی فرینڈ کی بهی نہیں- کوئی ٹیچر بهی نہیں-”
” میرے جیسی کیسی؟” اسے حیرت ہوئی-
” آپ جیسی Noble اورHonourable- آپ کو پتا ہے آپ میرے لیے پوری دنیا میں سب سے زیادہ آنرایبل اور نوبل ہیں-”
” جبکہ میں ایسی نہیں ہوں-” تمہیں پتا ہے، نوبل کون تهے؟”
محمل نے ایک گہری سانس لی-
” یوسف علیہ السلام جو پیغمبر بیٹے کے پوتے اور پیغمبر کے پڑپوتے تهے-”
” وہ کیوں ماما؟”
وہ کیوں؟” اس نے زیر لب اس کا سوال دہرایا- بےاختیار آنکهوں میں اداسی چها گئی- ” کیونکہ شاید وہ بہت صبر کرنے والے تهے-” اور الفاظ لبوں پہ ٹوٹ گئے- اسے سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کہے- ہر بات سمجهانے والی نہیں ہوتی-
” بتائیں نا ماما-” وہ بےچین ہوا- ” میں جب بهی آپ سے حضرت یوسف علیہ السلام کی اسٹوری سنتا ہوں- آپ یوں ہی اداس ہو جاتی ہیں-”
” پهر کبهی بتاؤنگی، تمہارا اسکول کب کهل رہا ہے؟” اس نے بات پلٹ دی-
” منڈے کو-”
” اور تمہارا ہوم ورک ڈن ہے؟”
” یہ باتیں چهوڑیں، مجهے پتا ہے آپ اپ سیٹ ہیں- کل آپ اور ڈیڈی ہمیشہ کے لیے الگ ہو جائیں گے، ہے نا؟” وہ ہتهیلیوں پہ چہرہ گرائے اداسی سے بولا-
” ہاں! ہو تو جائیں گے، تم میرے ساتھ چلو گے یا ڈیڈی کے پاس رہو گے؟” اس نے خود کو بےپرواہ ظاہر کرنا چاہا-
” میں آپ کے ساتھ جاؤنگا، اس چڑیل کے ساتھ نہیں رہونگا- مجهے پتا ہے ڈیڈی فورا” شادی کر لیں گے-” اسے شاید آرزو بہت بری لگتی تهی- وہ محمل کو اس پہ ترجیح دے رہا تها- اسے یاد آیا، ہمایوں نے کہا تها کہ وہ اس سے بہتر ہے-
” وہ مجھ سے بہتر ہے تیمور؟” وی ہمایوں کی اس زہریلی بات کو یاد کر کے پهر سے دکهی ہو گئی-
” کون؟” تیمور کی سفید بلی بهاگتی ہوئی اس کے قدموں میں آ بیٹهی تهی- وہ جهک کر اسے اٹهانے لگا-
” آرزو-” بیت دفعہ سوچا تها کہ بچے سے یہ معاملہ ڈسکس نہیں کرے گی، مگر رہ نہیں سکی-
” آرزو آنٹی-” تیمور بلی کو بازوؤں میں اٹها کر سیدها ہوا- ” وہ جو آپ کی کزن ہیں، جو ادهر آتی ہیں؟”
” ہاں، وہی-”
” وہ آپ سے اچهی تو نہیں ہے، نہیں بالکل نہیں-” وہ سوچ کر نفی میں سر ہلانے لگا-
” پهر تمہارے ڈیڈی کیوں اس سے شادی کرنا چاہتے ہیں؟ کیا تم اسے ماں کے روپ میں قبول کر سکو گے؟” کتنا خود کو سمجهایا تها کہ بچے کو درمیان میں انوالو نہیں کرے گی اس روز کی بات ابهی تک اندر کہیں چبھ رہی تهی، لیکن پهر کہہ کر خود پچهتائی-
” چهوڑو، جانے دو، یہ بلی ادهر دکهاؤ-”
مگر تیمور الجها الجها سا اسے دیکھ رہا تها- بلی ابهی تک اس کے بازوؤں میں تهی-
” ڈیڈی، آرزو آنٹی سے شادی کر رہے ہیں؟” اس کی آواز میں بےپناہ حیرت تهی-
” تمہیں نہیں پتا؟”
” آپ کو یہ کس نے کہا ہے؟” وہ کنفیوزڈ بهی تها اور حیرت زدہ بهی-
” تمہارے ڈیڈی نے بتایا تها اور ابهی تم خود بهی کہہ رہے تهے کہ وہ اس سے شادی کر لیں گے-”
تیمور اسی طرح الجهی آنکهوں سے اسے دیکھ رہا تها- موٹی بلی اس کے ننهے ننهے ہاتهوں سے پهسلنے کو بےتاب کسمسا رہی تهی-
” آرزو آنٹی سے ؟ نہیں ماما، ڈیڈی تو ان سے شادی نہیں کر رہے-”
” مگر تم نے-” لیکن تیمور کی بات ابهی مکمل نہیں ہوئی تهی-
” وه تو فرشتے سے شادی کر رہے ہیں-” آپ کو نہیں پتا؟”
اسے لگا کسی نے ڈهیروں پتهر اس کے اوپر لڑهکا دیے ہوں-
” تیمور!” وہ درشتی سے چلائی تهی- ” تم ایسی بات سوچ بهی کیسے سکتے ہو؟”
بلی سہم کر تیمور کے بازوؤں سے کودی-
” آپ کو نہیں پتا ماما؟” وہ اس سے بهی زیادہ حیران تها-
” تم نے ایسی بات کی بهی کیسے؟ مائی گاڈ، وہ میری بہن ہے، تم نے اتنی غلط بات کیوں کی اس کے بارے میں-”
غصہ اس کے اندر سے ابلا تها- وہ گمان بهی نہی. کر سکتی تهی کہ تیمور ایسا کر سکتا ہے-
” ماما! آپ بےشک ڈیڈی سے پوچھ لیں- فرشتے سے پوچھ لیں- وہ دونوں شادی کر رہے ہیں-”
” شٹ اپ’ جسٹ شٹ اپ، تم اس لڑکی کے بارے میں ایسی بات کر رہے ہو جو میری بہن ہے-”
” جی ماما اسی لیے تو ڈیڈی نے آپ کو ڈائیورس دی ہے- بی کاز شی از یور سسٹر- اور مسلم ایک ٹائم پہ دو سسٹرز سے شادی نہین کر سکتے-”
محمل کا دماغ بهک سے اڑ گیا- وہ شل سی بیٹهی رہ گئی-
” آئی تهاٹ آپ کو پتا ہے، میں نے آپ کو کہا تھا کہ ڈیڈی اس چڑیل سے شادی کر رہے ہیں-”
اور تیمور فرشتے کو بهی چڑیل کہتا تها، وہ کیوں بهول گئی؟ اس کا دماغ زور زور سے چکرانے لگا تها-
نہیں تیمور وہ میری بہن ہے-” اس کی زبان لڑکهڑائی-
” وہ اسی لیے تو ادهر ہمارے ساتھ رہتی ہيں تا کہ جب آپ چلی جائیں تو وہ ڈیڈی سے شادی کر لیں-”
” مگر تیمور وہ میری بہن ہے- اس کی آواز ٹوٹنے لگی-”
” آپ نے نہیں دیکها جب وہ ڈیڈی کے ساتھ شام کو باہر جاتی ہيں؟ ایک دفعہ وہ مجهے بهی لے گئے تهے، وہ سمجهتے ہیں میں بچہ ہوں مجهے کچھ پتا نہیں چلتا-”
” مگر تیمور وہ تو میری بہن ہے-” وہ بکهری، شکست خوردہ سی، گهٹی گهٹی آواز میں چلائی تهی- اسے لگ رہا تها کوئی دهیرے دهیرے اس کی جان نکال رہا ہے- تیمور کیا کہہ رہا تها اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تها-
” مجهے اسی لیے وہ اچهی نہیں لگتی، وچ نمبر ون، اس کی وجہ سے ڈیڈی آپکو سیپریٹ کر رہے ہیں- آپ نے نہیں دیکها- خب وہ شام میں ڈیڈی کے ساتھ باہر جاتی ہیں؟”
” نہیں، تم غلط کہہ رہے ہو؟شام کو تو وہ مسجد جاتی ہے’ وہ ادهر پڑهاتی ہے-”
اسے یاد آیا شام کو فرشتے مسجد جاتی تهی- یقینا” تیمور کو غلط فہمی ہوئی ہو گی-‘ اس نے غلط سمجها ہو گا-
” مسجد؟” اس نے حیرت سے پلکیں جهپکائیں- ‘ یہ ساتھ والی مسجد ؟ مام، آپ کدهر رہتی ہیں؟ فرشتے تو کبهی مسجد نہیں گئی-”
” وہ….. وہ ادهر قرآن پڑهاتی ہے، تمہیں نہیں پتا، تیمور وہ…..”
وہ تو کبهی قرآن نہیں پڑهتی، میں نے آپ کو بتایا تو تها-”
” نہیں! وہ مجهے سے اور تم سے زیادہ قرآن پڑهتی ہے- اس نے، اس نے ہی تو مجهے قرآن سکهایا تها- تم غلط کہہ رہے ہو، وہ ایسے نہیں کر سکتی-” وہ نفی میں سر ہلاتے اسے جهٹلا رہی تهی-
” آپ نے کبهی اس کو قرآن پڑهتے دیکها؟ مسجد جاتے دیکها؟”
” وہ….. ” وہ جو فرشتے کے دفاع میں تیمور کو جهٹلانے کے کیے کچھ کہنے لگی تهی،،ایک دم رک گئی-
اس نے ہسپتال سے آ کر کبهی فرشتے کو مسجد جاتے نہیں دیکها تها، کبهی قرآن پڑهتے نہیں دیکها تها- ہاں نمازیں وہ ساری پڑهتی تهی؛
” کم آن ماما، آپ بلقیس بوا سے پوچه لیں، وہ مسجد نہین جاتی کیا آپ کو اس نے خود کہا کہ وہ مسجد جاتی ہے؟” تیمور کے سوال کا جواب اس کے پاس نہیں تها-
” ہسپتال کی وجہ سے صبح کی کلاسز لینا ممکن نہ تها-” فرشتے نے تو اس کے استفسار پہ مبہم سا جواب دیا تها- باقی سب اس نے خود فرض کر لیا تها-
تو کیا تیمور سچ کہہ رہا تها؟ نہیں ، ہرگز نہیں، فرشتے اس کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی تهی- وہ تو اس کی بہت پیاری، بہت خیال رکهنے والی بہن تهی- وہ بهلا کیسے؟”
” وہ مسجد نہیں جاتی، وہ ڈیڈی کے ساتھ جاتی ہے، پہلے ڈیڈی گاڑی پہ نکلتے ہیں، پهر وہ باہر نکلتی ہے، اور کالونی کے اینڈ پہ ڈیڈی اس کو پک کر لیتے ہیں- تاکہ بلقیس بوا کو پتا نہ چلے- میں نے ٹیرس سے بہت دفعہ دیکها ہے- صبح بهی وہ ڈیڈی کے ساتھ ہی گئی تهی-
وہ پتهر بنی سن رہی تهی-
” جب آپ ہسپتال مئں تهیں تب بهی وہ یوں ہی کرتے تهے- پر میں کوئی بچہ تهوڑی ہوں مجهے سب سمجھ آتا ہے-”
یہ سب کب ہوا؟ کیسے ہوا؟ وہ متحیر بےیقین سی سکتے کے عالم میں بیٹهی تهی- تیمور آگے بهی بہت کچھ کہہ رہا تها مگر وہ سن نہیں رہی تهی؛ تمام آوازیں بند ہو گئیں تهیں- سب چہرے مٹ گئے تهے- ہر طرف اندهیرا تها سناٹا تها- چند لمحے وہ اداسی سے اسے دیکهتا رہا پهر جهک کر گهاس پہ بیٹهی سفید موٹی بلی اٹهائی اور واپس پلٹ گیا-
” کیا یہ ہی واحد وجہ ہے؟”
” کیا تمہیں بالکل امید نہیں ہے کہ وہ رجوع کرے گا؟”
” کیا تم خود کو اتنا سٹرونگ فیل کرتی ہو کہ حالات کا مقابلہ کر لو گی؟” اس کے ذہن میں فرشتے کی باتیں گونج رہی تهیں-
ہر شام ہمایوں گهر سے چلا جاتا- کسی دوست کے پاس، ہر شام فرشتے بهی گهر سے چلی جاتی- اس نے کبهی نہيں بتایا کہ وہ کدهر جاتی ہے- اس نے کبهی نہیں بتایا کہ وہ محمل کی عدت ختم ہونے کے بعد کدهر جائے گی-؟ اور وہ ابهی تک ادهر کیوں رہ رہی تهی؟ کیا صرف محمل کی کئیر کے لیے؟ وہ کئیر تو کوئی نرس بهی کر سکتی تهی- پهر وہ کیوں ان کے گهر میں تهی-؟
اس نے کبهی فرشتے کو قرآن پڑهتے نہیں دیکها تها- جس روز وہ مسجد گئی فرشتے ادهر نہیں تهی- وہ شام تک وہیں رہی مگر وہ ادهر نہیں آئی- وہ غلط فہمی کا شکار رہی اور فرشتے نے اس کی غلط فہمی نہیں دور کی-
اور آرزو؟ اس کا کیا قصہ تها؟ وہ گواہ تهی کہ ہمایوں اس سے شادی کر رہا تها- اس نے خود آرزو سے یہ ہی کہا تها مگر جب محمل نے پوچها تها تب اس نے کہا تها کہ بتانا ضروری نییں سمجهتا-” اس نے کبهی نہیں کہاکہ وہ آرزو سے شادی کر رہا یے- فرشتے نے کبهی اس کے اور آرزو کے غیر واضح تعلق پہ فکر مندی نہیں ظاہر کی- وہ سب کسی سوچی سمجهی پالیسی کا حصہ تها- وہ دونوں جانتے تهے اور ایک اسی کو بےخبر رکها تها- ” وہ تم سے بہتر ہے-” یہ ہی کہا تها ہمایوں نے، اور وہ یقینا” فرشتے کی بات کر رہا تها-
لیکن وہ ایسا کیسے کر سکتی یے؟ وہ اس کے گهر میں خیانت کیسے کر سکتی ہے؟ وہ تو قرآن کی طالبہ تهی وہ تو سچی تهی- وہ تو امانت دار تهی- پهر وہ کیوں بدل گئی؟ وہ جو لمحوں کی خیانت کا خیال رکهتی تهی رشتوں میں خیانت کیسے کر گئی؟
سوچ سوچ کر اسکا دماغ پهٹا جا رہا تها- دل ڈوبا جا رہا تها- آج اسے لگا تها کہ سب دهوکے باز نکلے تهے، سب خودغرض نکلے تهے- ہر شخص اپنی زمین کی طرف جهکا تها- اس کا کوئی نہیں تها، کوئی بهی نہیں، وہ کتنی ہی دیر ہاتهوں میں سر گرائے بیٹهی رہی- بہت سے لمحے سرکے تو اسے یاد آیا کہ جہاں سب بدل گئے تهے واہیں کوئی نہیں بهی بدلا تها- جہاں سب نے دهوکا دیا وہاں کسی نے اس کا خیال بهی رکها تها- جہاں سب ساتھ چهوڑ گئے- وہاں کسی نتےسہارا بهی دیا تها-
” اوہ!” اس نے آہستہ سے سراٹهایا- اور پهر دهیرے دهیرے وہیل چئیر کے پہيوں کو اندر کی جانب موڑا-
اس کے کمرے کے شیلف کے اوپر اس کا سفید جلد والا مصحف قران رکها تها- اس نے سرعت سے اسے اٹهایا- اس وقت اسے اس کی بےحد ضرورت تهی-
مصحف کے نیچے اس کا پرانا رجسٹر رکها تها- آس نے قرآن اٹهایا تو رجسٹر پهسل کر نیچے جا گرا- محمل نے ایک ہاتھ سے قرآن پکڑے، جهک کر زجسٹر اٹهایا- وہ درمیان سے کهل گیا تها- اسے بند کر کے واپس رکهتے ہوئے وہ ٹھر سی گئی- کهلے صفحے پہ سورہ بقرہ کی اس آیت کی تفسیر لکهی تهی جس پہ وہ ہمیشہ الجهتی تهی- حطتہ اور حنطتہ- یہ صفحہ بہت دفعہ کهولنے کے باعث اب رجسٹر کهولتے ہی یہ کهل جاتا تها-
کهلا ہوا رجسٹر اس کے دائیں ہاتھ میں تها آور قرآن بائیں میں- دونوں اس کے بالکل سامنے تهے- رجسٹر کی سطر حنطتہ کا مطلب ہوتا ہےگن کے آگے صفحہ ختم تها- وہ بےاختیار اس سطر کو قرآن کے سفید کور کے قریب لائی جہاں مٹا مٹا سا میم لکها تها-
اس نے گن اور میم کا ملایا- دونوں کے درمیان ایک ‘ ایک ننها سا نقطہ تها- اس نے نقطوں کو جوڑا ‘ ادهورا لفظ مکمل ہو گیا-
” گندم-”
وہ ننهے دال کے دو حصے تهے-

جاری ہے…….!

ے۔

اپنا تبصرہ لکھیں