مصحف

تحریر عمیر احمد
انتخاب راحیلہ ساجد
قسط نمبر 52 ۔

بڑے عرصے سے لائبریری کی صفائی نہیں ہوئی تهی- وہ کتنے ہفتوں سے سوچ رہی تهی کہ کسی دن کروا لے- بالآخر آج ہمت کر ہی لی-
بلقیس کو تو کہنے کی دیر تهی- فورا لگ گئی- وہ دروازے کی چوکهٹ پہ وہیل چئیر پہ بیٹهی ہدایات دے رہی تهی-
یہ والی بکس اندر رکھ دو- اس طرف والی سامنے کر دو- میز سے یہ سب ہٹا لو اور اس والے شیلف میں رکھ دو-” جهاڑ پونچھ سے گرد اڑ رہی تهی- سالوں سے کسی نے کتابوں کی صفائی نہیں کی تهی-
” بی بی ان کو تو کیڑا لگ گیا ہے-” وہ ہریشان سی کچھ کتابوں کے کنارے دکها رہی تهی- تاریخ کی پرانی کتابیں-
” ان کو الگ کر دو- اور وہ دراز خالی کرو، یہ اس میں رکھ دیں گے-”
” اچها جی!” بلقیس اب اسٹڈی ٹیبل کی درازوں سے کتابیں نکال رہی تهی-
” ان کو اس آخری شیلف پہ سیٹ نہ کر دوں ؟” اس نے دراز سے نکلنے والے کتابوں کے ڈهیر کی طرف اشارہ کیا-
” ہاں کر دو-” اسے بهلا کیا اعتراض تها- بکقیس پهرتی اور انہماک سے کتابیں صاف کر کے اوپر لگا نے لگی-
” یہ لفافہ اٹها کر دو، شاید ہمایوں کے کام کا ہو-”
کتابیں سیٹ کرتی بلقیس رکی اور خاکی لفافہ اٹها کر اسے تهمایا-
کوئی نام پتا نہیں لکها تها- اوپر اکهڑی ہوئی سی ٹیپ لگی تهی جیسے کهول کر پهر لگا دی گئی ہو-
” پتا نہیں کس کا ہے؟” بنا کسی تجسس کے محمل نے ٹیپ اتاری اور لفافہ گود میں الٹ دیا- ایک عدالتی کاغذ اور ساتھ ایک سفید خط کا کور گود میں گرا- اس نے عدالتی زرد کاغذ اٹهایا-
اس کی تہیں کهولیں اور چہرے کے سامنے کیا-
اسٹامپ پیپر کی تحریر کے نیچے بہت واضح سے دستخط تهے-
” محمل ابراہیم-”
” فرشتے ابراہیم-”
وہ بری طرح سے چونکی اور تیزی سے اوپر تحریر پہ نگاہیں دوڑائیں-
یہ وہی کاغذ تها جو فواد نے اس سے اور فرشتے سے سائن کروایا تها- وسیم سے نکاح نہ کروانے کی شرط پہ اس کی گردن پہ پستول رکھ کے-
مگر یہ ادهر ہمایوں کی لائبریری میں کیا کر رہا تها؟ وہ تو اس معاملے سے قطعی لاعلم تها- یہ موضوع کبهی زیربحث آیا ہی نہیں- بس ایک دفعہ آغاجان کے گهر سے واپسی پہ ہمایوں نے اسے اپنا حصہ لینے کوکہا تهامگر وہ ٹال گئی تهی- اگر وہ براہ راست پو چهتا تو وہ بتا دیتی- پهر فرشتے نے بهی نہیں بتایا کہ یہ کاغذ اس کے ہاتھ کیسے لگا اور کیا وہ اسی کی وجہ سے اس سے بدظن تها-؟ مگر یہ اتنی بڑی وجہ تو نہیں تهی- اور یہ کاغذ ہمایوں کے ہاتھ لگا بهی کیسے، یہ تو فواد کے پاس تها-
اس نے دوسرا سفید لفافہ اٹهایا وہ بےدردی اے چاک کیا گیا تها- اس.نے اس.کے کهلےمنہ میں جهانکا- اندر کچھ فوٹوگراف تهے شاید-
محمل نے لفافہ گود میں الٹ دیا- چند تصویریں اس کے گهٹنے پر سے پهسلتی فرش پہ جا گریں اس نے ہاتھ جهکا کر تصویروں کو اٹهایا اور سیدها کیا-
وہ فواد اور محمل کی تصاویر تهیں- فواد…. اور… محمل-
وہ ساکت سی ان تصویروں کو دیکھ رہی تهی- ان میں وہ کچھ تها جو کبهی وقوع پذیر نہیں ہوا تها- گاڑی کی فرنٹ سیٹ پہ بیٹها فواد اور اس کے کندهے پہ سر رکهے محمل- ریسٹورنٹ میں ڈنر کرتے فواد اور محمل– ہاتھ میں ہاتھ ڈالے واک کرتی فواد اور محمل—-اک ساتھ کسی کی شادی کی تقریب میں رقص کرتے- قابل اعتراض تصاویر— قابل اعتراض مناظر… وہ سب کبهی نہیں ہوا تها-
اس نے پهر سے تصویر کو الٹ پلٹ کر کے دیکها-
اس کا لباس اور چہرہ….. ہر تصویر میں ذرا الگ تها- کوئی بچہ بهی بتا سکتا تها کہ وہ فوٹو شاپ یا اس قسم کی کس ٹرک کا کمال ہے- پہلی نظر میں واقعی پتا نہیں لگتا تها- مگر بغور دیکهنے پہ صاف ظاہر ہو جاتا تها کہ وہ سب نقلی ہے ہمایوں خود ایک پولیس آفیسر تها وہ ان بچوں والی باتوں میں نہیں آ سکتا تها- اس کے ذہن میں جهماکا سا. ہوا-
پزل کے سارے ٹکڑے ایک ساتھ جڑنے لگے-
آرزو نے کہا تها کہ وہ ہمایوں کو اس سے چهین لے گی – محمل کو سجا سنورا اور ہنستا بستا دیکھ کر شاید وہ شدید حسد کی آگ میں جلنے لگی تهی- اس سے اس کی خوشیاں برداشت نہیں ہو رہی تهیں- پهر اسد چچا کی ناگہانی وفات کے بعد یقینا” وہ لوگ مالی کرائسز کا شکار ہوئے ہونگے- ایسے میں محمل کی طویل بےہوشی نے آرزو کو امید دلائی ہو گی- اور شاید یہ اب ایک سوچا سمجها پلان تها-
یہ جعلی تصاویر بنا کر محمل اور فرشتے کا دستخط شدہ کاغذ ہمایوں کو دکها کر اس نے ہمایوں کا بهڑکایا ہو گا- مگر کیا ہمایوں چهوٹا بچہ تها جو ان کی باتوں میں آ جاتا؟ کیا ایک منجها ہوا پولیس آفیسر اس قسم کے بچگانہ کهیل کا شکار بن سکتا تها؟ کیا بس اتنی سی بات پہ ہمایوں اتنا بدظن ہو گیا تها ؟ اپنی بیوی سے دوری اور آرزو سے بڑهتا ہوا التفات…… پزل کا کوئی ٹکڑا اپنی جگہ سے غائب تها- پوری تصویر نہیں بن رہی تهی-
اس.نے بےاختیار ہو کر سر دونوں ہاتهوں میں تهام لیا، دماغ چکرا کر رہ گیا تها-
” بی بی تسی ٹهیک ہو؟” بلقیس نے اس کا شانہ ہلایا تو وہ چونکی-
” ہاں، مجهے باہر لے جاؤ-” اس نے جلدی سے تصویریں لفافے میں ڈالیں مبادا بلقیس انہیں دیکھ نہ لے- پزل کا کوئی ٹکڑا واقعی غائب تها-
شام کے سائے گہرے ہو رہے تهے- جب بیرونی گیٹ پہ ہارن کی آواز سنائی دی- وہ جو دانستہ لاؤنج میں بیٹهی تهی- فوراٗ الرٹ ہو گئی-
ہمایوں کی گاڑی زن سے اندر داخل ہونے کی آواز …. پهر لاک کی کهٹ کهٹ، وہ سر جهکائے بیٹهی تمام آوازیں سنتی گئی، یہاں تک کہ دروازے کے اس طرف بهاری بوٹوں کی چاپ قریب آ گئی- اس نے بے چینی سے سر اٹهایا-
وہ اندر داخل ہو رہا تها- یونیفارم میں ملبوس کیپ ہاتھ میں لیے- وہ چند قدم چل کر قریب ایا- اسے وہں بیٹهے دیکھ کر لمحے بهر کا رکا-
” السلام علیکم- مجهے آپ سے بات کرنی ہے،-” اس نے اہستہ سے کہا-
” بولو-” وہ اکهڑے تیوروں سے سامنے آ کهڑا ہوا-
” آپ بیٹھ جائیں-”
” میں ٹهیک ہوں ، بولو-”
محمل نے گہری سانس لی اور الفاظ مجتمع کرنے لگی-
” مجهے صرف ایک بات کا جواب چاہیئے ہمایوں، بس ایک بار مجهے بتا دیں آپ میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟” آنسوؤں کا گولا اس کے حلق میں پهنسنے لگا تها-
” کیا کر رہا ہوں؟”
” آپ کو لگتا ہے، آپ کچھ نہیں کر رہے؟”
” علیحدگی چاہتا ہوں، یہ کیا کوئی جرم ہے؟” وہ سنجیدہ اور بےنیاز تها-
” مگر… آپ اتنے کیوں بدل گئے ہیں؟ آپ پہلے تو ایسے نہیں تهے؟ ” نہ چاہتے ہوئے بهی وہ شکوہ کر بیٹهی-
” پہلے میں کاٹھ کا الو تها جس کی آنکهوں پہ پٹی بندهی تهی- ہوش آب آیا ہے’ دیر ہو گئی، مگر خیر. ”
” ہو سکتا ہے اب آپ کی آنکهوں پہ کسی نے پٹی باندھ دی ہو؟- آپ مجهے صفائی کا ایک موقع تو دیں-” اس نے سوچا تها وہ اس کی منت نہیں کرے گی، مگر اب وہ کر رہی تهی- یہ وہ شخص تها جس سے اسے محبت تهی، وہ اسے نہیں چهوڑنا چاہتی تهی-
” صفائی کا موقع انہیں دیا جاتا ہے، جن پہ شک ہو- مگر جن پہ یقین ہو ان پہ صرف حد جاری کی جاتی ہے-” وہ بہت چبا چبا کر بولا تها-
یہ آپ کی اپنی بنائی گئی حدود ہیں اےایس پی صاحب! لوگوں کو ان کے اوپر نہ پرکهیں- کهوٹے کهرے کو الگ کرنے کا پیمانہ دل میں ہوتا ہے، ہاتهوں میں نہیں، کہیں آپ کو پچهتانا نہ پڑ جائے-”
” کهوٹے کهرے کی پہچان مجهے بہت دیر سے ہوئی ہے محمل بی بی- جلدی ہوتی تو اتنا نقصان نہ اٹهاتا-”
ان تین ماہ میں اس نے پہلی دفعہ محمل کا نام لیا تها- محمل اداسی سے مسکرا دی-
” اگر میں کهوٹی ہوں تو جس کے پیچهے مجهے چهوڑ رہے ہیں اس کے کهرے پن کو بهی ماپ لیجئے گا- کہیں پهر دهوکا نہ ہو جائے-”
” وہ تم سے بہتر ہے-” چند لمحے خاموش رہ کر وہ سرد لہجے میں بولا اور ایک گہری چبهتی ہوئی نگاه اس پہ ڈال کر سیڑهیوں کی طرف بڑھ گیا-
وہ نم آنکهوں سے اسے زینے چڑهتے دیکهتی رہی-
آج ہمایوں نے اپنی بے وفائی پہ مہر لگا دی تهی-

وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے برش لیے مغموم ، گم صم سی بیٹهی تهی، جب فرشتے نے کهلے دروازے سے اندر جهانکا-
” میری چهوٹی بہن کیا کر رہی ہے؟” اس نے چوکهٹ سے ٹیک لگا کر مسکراتے ہوئے پوچها-
” کچھ خاص نہیں-” محمل نے مسکرا کر گردن موڑی- اس کے کهلے بال شانوں پہ گرے تهے-
” تو کچھ خاص کرتے ہیں-” وہ اندر چلی آئی- فیروزی شلوار قمیض پہ سلیقے سے دوپٹہ لیے وہ ہمیشہ کی طرح بہت ترو تازہ لگ رہی تهی-
” تمہارے بال ہی بنا دوں لاؤ-” !اس نے پیار سے کہتے ہوئے برش محمل کے ہاتھ سے لیا اور اس کے کهلے بالوں کو دونوں ہاتهوں میں سمیٹا-
” بس اب تم بہت جلد ٹهیک ہو جاؤ گی-” وہ اب پیار سے اس کے بالوں میں برش کر رہی تهی- وہ محمل کی وہیل چئیر کے پیچهے کهڑی تهی، محمل کو آئینے میں اسا عکس دکهائی دے رہا تها-
” تم نے آگے کا کیا سوچا؟”
پتا نہیں، جب عدت ختم ہو جائے گی تو چلی جاؤنگی-” وہ بےزار ہوئی-
” لیکن کدهر؟” فرشتے نے اس کے بالوں کو سلجهايا، سمیٹ کر اونچا کیا-
” اللہ کی دنیا بہت وسیع ہے، پہلے آغاجان کو ڈهونڈونگی اگر وہ نہ ملے تو مسجد چلی جاؤنگی- مجهے امید ہے مجهے ہاسٹل میں رہنے دیا جائے گا-”
” ہوں-” اس نے اونچی سی پونی باندهی ، پهر ان بالوں کا دوبارہ سے برش کیا-
” اور آپ نے کیا سوچا؟ میرے بعد تو آپ کو بهی جانا ہوگا؟”
” میں شاید ورکنگ ویمن ہاسٹل چلی جاؤں، پتا نہیں ابهی کچھ ڈیسائیڈ نہیں کیا، خیر چهوڑو، آج میں نے چائینیز بنایا ہے، تمہیں منچورین پسند ہے نا؟” اب فٹافٹ چلو’ کهاتے ہیں-” اس نے محمل کہ وہیل چئیر پیچهے سے تهام کر اس کا رخ موڑا-
اب وہ کیا بتاتی کہ عرصہ ہوا، ذائقے محسوس کرنا چهوڑ دیے- مگر ایسی مایوسی کی باتیں اللہ کو ناراض کر دیتی ہیں، اسی لیےچپ رہی – ہمایوں کی طرف سے دل اتنا دکها ہوا تها کہ ایسے میں فرشتے کا دهیان بٹانا اچها لگا-
ڈائننگ ٹیبل پہ کهانا لگا ہوا تها- گرم گرم چاولوں کی خوشبو سارے کمرے میں پهیلی ہوئی تهی-
” تیمور کدهر؟” وہ پوچهتے پوچهتے رک گئی- پهر تهک کر بولی- ” میں کیا کروں جو وہ آپ کو ناپسند کرنا چهوڑ دے؟”
” یہ چاول کهاؤ بہت اچهے بنے ہیں-” فرشتے نے مسکرا کر ڈش اس کے سامنے رکهی- اس کا ضبط بهی کمال کا تها-
تیمور کی ساری بدلحاظیوں پہ میں آپ سے معافی مانگتی ہوں-” نہ چاہتے ہوئےبهی اس کا لہجہ بهیگ گیا-
” اونہوں، جانے دو، میں مائنڈ نہيں کرتی، خالہ بهی ماں جیسی ہی ہوتی ہے-”
محمل بهیگی آنکهوں سے ہولے سے ہنس دی-
فرشتے نے رک کر اسے دیکها-” کیوں، کیا نہیں ہوتی؟”
” میرے بهانجے نہیں ہیں ورنہ ضرور اپنی رائے دیتی- لیکن چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہی فرمایا ہے تو اف کورس ، ٹهیک ہے-”
” کیا؟” فرشتے الجهی-
” یہ ہی کہ خالہ ماں جیسی ہوتی ہے، یہ ایک حدیث ہے نا-”
” اوہ اچها! مجهے بهول گیا تها-” فرشتے سر جهٹک کر مسکرا دی اور چاول اپنی پلیٹ میں نکالنے لگی-
وہ دن اپنی دانست میں” ہمایوں کے گهر” میں اس کا آخری دن تها- کل دوپہر اس کی عدت جو تین قمری ماہ مکمل ہو جانے تهے اور تب وہ شرعی طور پہ ہمایوں کی بیوی نہ رہتی اور پهر اس گهر میں رہنے کا جواز بهی ختم ہو جاتا-
آج وہ صبح اترتے ہی لان میں آ بیٹهی تهی- چڑیاں اپنی مخصوص بولی میں کچھ گنگنا رہی تهیں- گهاس شبنم سے گیلی تهی- سیاہ بادلوں کی ٹکڑیاں آسمان پہ جا بجا بکهری تهیں- امید تهی کی آج رات بارش ہو گی-
شاید اس کی اس گهر میں آخری بارش-
فرشتے صبح جلد ہی کسی کام سے باہر گئی تهی- ہمایوں رات دیر سے گهر آیا تها اور صبح سویرے نکل گیا تها- تیمور اندر سو رہا تها- اور بلقیس اپنے کوارٹر میں تهی- سو وہ لان میں تنہا اور مغموم بیٹهی چڑیوں کے اداس گیت سن رہی تهی- آنسو قطرہ قطرہ اس کی کانچ سی بهوری آنکهوں سے ٹوٹ کر گر رہے تهے-
اس گهر سے اس کی بہت سی یادیں وابستہ تهیں- زندگی کا ایک بےحد حسین اور پهر ایک بےحد تلخ دور اس نے گهر میں گزارا تها- یہاں اسی ڈرائیووے پہ وہ پہلی دفعہ سیاہ ساڑهی میں اتری تهی، اس رات جب اس کی مشکلات کا آغاز ہوا تها- پهر ادهر ہی وہ سرخ کامدار جوڑے میں دلہن بنا کر لائی گئی تهی- کبهی وہ ادهر ملکہ کی حیثیت سے بهی رہی تهی- مگر خوشی کے دن جلدی گزر جاتے ہیں- اس کے بهی گزر گئے تهے- ایک سیاہ تاریک نیند کا سفر تها اور وہ بہت نیچے لا کر پهینک دی گئی تهی-
” ماما-” تیمور نیند بهری آنکهیں لیے اس کا شانہ جهنجهوڑ رہا تها- اس نے چونک کر اسے دیکها، پهر مسکرا دی-
” ہاں بیٹا-” اس نے بے اختیار پیار سے اس کا گال چهوا-
” کیوں رو رہی ہیں اتنی دیر سے؟ کب سے دیکھ رہا ہوں-” وہ معصومیت بهری فکرمندی لیے اس کے ساتھ آ بیٹها- وہ نائٹ سوٹ میں ملبوس تها- غالبا” ابهی جاگا تها- ” نہیں کچھ نہیں-” محمل نے جلدی سے آنکهیں رگڑیں-

جاری ہے…….

اپنا تبصرہ لکھیں