مصحف

ناول نگار عمیر احمد

انتخاب راحیلہ ساجد

قسط نمبر 48 ۔

ہمایوں کا گهر….. محمل کا گهر….. ہمایوں اور محمل کا گهر-
وہ ویسا ہی تها جیسا وہ چهوڑ کر گئی تهی- خوب صورتی سے آراستہ، کونا کونا چمکتا ہوا، فانوس کی روشنیاں ، جگر جگر کرتی بتیاں ، قیمتی پردے، یہ ہی س پہلے بهی اس کے گهر میں تها، اب بهی تها، مگر رنگ بدل گئے تهے- لاؤنج کے صوفے، پردے ، یہاں تک کہ گملے بهی بدل گئے تهے- چیزیں رکهی گو اسی ترتیب میں تهیں، مگر ان کا رنگ پہلے جیسا نہ تها- ہر شے نئی تهی- جیسے ہمایوں تها- اپنی جگہ پہ ویسے ہی موجود، مگر پهر بهی بدل چکا تها-
” کیسا لگا تمہیں اپنا گهر؟” اس کی وہیل چئیر پیچهے سے دهکیلتی فرشتے خوشدلی سے پوچھ رہی تهی-”
وہ گم صم سی خالی خالی انکهوں سے درودیوار دیکهے گئی- سات سال پہلے وہ اس کا گهر تها- اب وہ شاید صرف ہمایوں کا تها-
ڈاکٹرز نے اس کا مزید اسپتال میں رہنا بےفائدہ قرار دے کر اسے گهر شفٹ کر دیا تها- اس کی بیماری وہیں تهی- دایاں ہاتھ ٹهیک، بایاں ہاتھ و بازو ذرا سست اور نچلا دهڑ مکمل طور پہ مفلوج، وہ کہتے تهے کہ وہ اچانک سے ٹهیک بهی ہو سکتی ہے اور ساری عمر بهی اس طرح رہ سکتی ہے- بس آپ دعا کریں، اب وہ کیا کہتی، آپ کو لگتا ہے کہ ہم دعا نہیں کرتے؟ مگر ایسی باتیں کہاں کہی جاتی ہیں-”
فرشتے اسے لاؤنج کے ساتھ بنے کمرے کی طرف لے گئی- اس نے وہ اس کے مطابق سیٹ کروا دیا تها-
” مگر میرا کمرہ تو اوپر تها فرشتے-”
” محمل…. سیڑهیاں چڑهنا اس وہیل چئیر کے ساتھ-” اس نے بات ادهوری چهوڑ دی-
” اور ہمایوں کا سامان؟” کچھ دیر بعد چیزوں کا جائزہ لیتے ہوئے وہ پوچھ بیٹهی- ” ان کا سامان کدهر ہے؟”
” ہمایوں تو… میں نے اسے کہا تها- مگر…. آئی تهنک وہ اپنے کمرے میں زیادہ کمفرٹیبل ہے-”
” تو وہ یہاں نہیں آئیں گے؟” محمل ششدر رہ گئی تهی-
” کوئی بات نہین محمل! وہ اسی گهر میں رہتا ہے، کسی بهی وقت آ جا سکتا ہے-” فرشتے خوامخواہ شرمندہ ہو رہی تهی-
” نہیں فرشتے! تم.ان سے کہو کہ وہ مجهے یوں اکیلا تو نہ کریں-”
اس نے بےاختیار فرشتے کے ہاتھ پکڑ لیے- اس کے ہوش میں انے کے بعد وہ صرف ایک مرتبہ اس سے ملنے آیا تها، پهر کبهی نہیں آیا-
” محمل، پلیز، میرے لیے تم دونوں بہت عزیز ہو، وہ کزن ہے اور تم بہن، اس لیے میں نہیں چاہتی کہ میری کسی بات سے وہ یا تم ہرٹ ہو- پلہز مجهے اچها نہیں لگتا کہ میں تم دونوں کے پرسنلز میں دخل دوں ، مجهے اس کا کوئی حق نہیں ہے-” اس نے بہت نرمی سے اسے سمجهایا- وہ اس کے ہاتھ تهامے گهٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹهی تهی- محمل لاجواب سی ہو گئی-
” اور تیمور؟” اس کا کمرہ کدهر ہے؟” بےاختیار اسے یاد آیا-
لاؤنج کے اس طرف والا کمرہ-”
“ہمایوں اسے اپنے ساتھ نہیں سلاتے؟ وہ اتنا چهوٹا ہے، وہ اکیلا کیسے سو سکتا ہے؟” اس کا دل تڑپ کر رہ گیا-
” جن بچوں سے بچپن میں ہی ان کے ماں باپ چهن جائیں وہ عادی ہو جاتے ہیں محمل- اگر وہ مجهے پسند کرتا ہوتا تو میں اسے ساتھ سلاتی- مگر….. وہ مجهے پسند نہیں کرتا-”
” کیوں؟” وہ بنا سوچے بول اٹهی- جوابا” فرشتے اداسی سے مسکرائی-
” وہ تو تمہیں بهی پسند نہین کرتا، کیا اس میں تمہارا قصور ہے؟”
محمل کا سر آہستہ سے نفی میں ہل گیا-
” سو اس میں میرا قصور نہیں ہے، اگر وہ مجهے پسند نہیں کرتا، تم بیٹهو، میں کچھ کهانے کے لیے لاتی یوں-
اب تم نارمل فوڈ لے سکتی ہو- میں نے ڈاکٹر سے بات کر لی تهی-” وہ جانے کے لیے کهڑی ہوئی تو محمل بےاختیار کہہ اٹهی-
” آپ بہت اچهی ہیں فرشتے- میں کبهی آپ کی اس کئیر کا بدلہ نہیں دے سکتی-”
” میں نے بدلہ کب مانگا ہے؟” وہ نرمی سے اسکا گال تهپتهپا کر باہر نکل گئی-
دن گزرنے لگے- وہ سارا دن کمرے میں پڑی رہتی، یا فرشتے کے زبردستی مجبور کرنے پہ باہر لان میں آتی اور وہاں بهی گم صم ہی رہتی- فرشتے ہی کوئی نہ کوئی بات کر کے اسکا دهیان بٹا رہی ہوتی اور یہ باتیں عموما” فرشتے اس سے نہیں کرتی تهی- بلکہ اسس کی وہئیل چئیر کو دهکیلتے ہوئے کبهی وہ کیاری میں گوڈی کرتے مالی سے مخاطب ہوتی، تو کبهی برآمدے کا فرش دهوتی ملازمہ سے فرشتے اب اتنا نہیں بولتی تهی جتنا پہلے بولتی تهی- اس کا انداز پہلے سے زیادہ سنجیدہ ہو گیا تها- اور یہ وقت کا اثر تها، وہ اثر جو نہ چاہتے ہوئے بهی وقت ہر انسان پہ چهوڑے ہی جاتا ہے-
فرشتے نے گهر کو اچهی طرح سنبهالا ہوا تها- گو کہ ہر کام کی جز وقتی ملازمائیں رکهی ہوئی تهیں- مگر تمام انتظام اس کے ہاتھ میں تها- اس کے باوجود وہ نہ کسی پہ حکم چلاتی تهی، نہ اس گهر کی پرائیویسی میں دخل دیتی تهی- محمل اور ملازموں سے بات کرنے کے علاوہ زیادہ کلام بهی نہ کرتی تهی- تیمور اور ہمایوں کے کمرے کے اندر وہ نہیں جاتی تهی، بلکہ دروازے پہ کهڑے ہو کر صفائی کرواتی تهی- ملازموں کو تمخواہ ہمایوں دیتا تها- فرشتے گیسٹ روم میں ہی قیام پزیر تهی- ہمایوں سے بات وہ بہت کم کرتی تهی- وہ بهی شدید ضرورتا” اور تیمور تو وہسے بهی ہر شے سے چڑا ہوا تها- سو وہ اسے مخاطب ہی نہ کرتی تهی- کبهی جو کر لے تو تیمور اس سے بدتمیزی سے پیش آتا کہ الامان-
محمل نے نوٹ کیا کہ تهوڑی دیر بدتمیزی کر کے تیمور چیخنے چلانے پہ آ جاتا تها- اور اگر مزید کچ کہا جائے تو وہ چيزیں اٹها کر توڑ پهوڑ کرنے سے بهی گریز نہیں کرتا تها- فرشتے بہت محتاط طریقے سے اس گهر میں رہ رہی تهی- جیسے اس کے ذہن میں تها کہ اسے جلد ہی یہاں سے چلے جانا ہے- ملازمہ بلقیس نے اسے بتایا تها کہ فرشتے اپنے پیسوں سے ماہانہ راشن کی چیزیں لے آتی تهی، خصوصا” چکن اور گوشت ہمیشہ وہ خود ہی خریدتی تهی- جب ہمایوں کو پتا چلا تو اس نے اسے روکنا چاہا تو فرشتے نے صاف کہہ دیا کہ اگر اس نے اسے روکا تو وہ اسکاٹ لینڈ واپس چلی جائے گی- نتیجتا” ہمایوں خاموش ہو گیا- صاف ظاہر تها کہ وہ ان پہ بوجھ نییں بننا چاہتی تهی اور شاید اس کے ذہن میں یہ ہو کہ کہیں کوئی اسے مفت خورہ نہ سمجھ لے- اپنی عزت نفس اور وقار کو ہمیشہ اس نے قائم رکها تها، محمل خود کو اسکا زیر بار محسوس کرنے لگی تهی-
ہمایوں سے اس کی ملاقات نہ ہونے کے برابر ہوتی تهی- وہ کبهی دوپہر میں گهر آتا تو کبهی رات کو- کهانا وہ اپنے کمرے میں کهاتا- اور پهر وہیں رہتا اکثر بہت رات گئے گهر آتا- وہ انتظار میں لاؤنج میں وہئیل چئیر پہ بیٹهی ہوتی- وہ آتا ، سرسری حال پوچهتا اور اوپر سیڑهیاں چڑھ جاتا اور وہ اس کی پشت کو نم آنکهوں سے دیکهتی رہ جاتی-
تیمور دوپہر میں اسکول سے آتا تها- وہ کهانا ڈائننگ ٹیبل پہ اکیلے کهاتا تها- اگر محمل کو ادهر بیٹهے دیکهتا تو فورا” واپس چلا جاتا- نتیجتا” بلقیس اسے اس کے کمرے میں کهانا دے آتی- وہ جنک فوڈ کهاتا تها- برگر پیٹیز کے ڈبوں سے فریزر اور فرنچ فرائز کے لیے آلوؤں سے سبزی والی ٹوکری بهری رہتی- کهانے پینے کا شوقین نہ تها –
اسکول سے لائے چپس کے پیکٹس اور چاکلیٹ عموما” کهاتا نظر آتا- شام کو ٹی وی لاؤنج میں کارٹون لگائے بیٹها رہتا- اگر محمل کو آتے دیکهتا تو اٹھ کر چلا جاتا-
وہ جان ہی نا پا رہی تهی کہ وہ اتنا ناراض کس بات پر ہے؟ آخر اس نے کیا ہی کیا ہے-؟
اس گهر کے وہ تین مکین اجنبیوں کی طرح رہ رہے تهے اور اب وہ چوتهی اجنبی ان کی اجنبیت بٹانے کو آ گئی تهی-
فرشتے شام میں مسجد جاتی تهی- وہ غالبا” اب شام کی کلاسز لے رہی تهی- محمل نے ایک دفعہ پوچها تو وہ اداسی سے مسکرا دی تهی-
” صبح کی کلاسز لینا ہسپتال کی وجہ سے ممکن نہ تها-” مختصرا” بتا کر وہ حجاب درست کرتی باہر نکل گئی تهی-
وہ محمل کو بہت خیال رکهتی تهی- اس کی دوا، مساج ، مفلوج اعضاء کی ایکسرسائز، فزیو تهراپسٹ کے ساتھ اس پہ محنت کرنا، پهر غذا کا خیال، وہ انتهک لگی رہتی، بلا کسی اجر کی تمنا کیے یا احسان جتائے-
اس شام بهی فرشتے مسجد گئی تهی- جب سیاہ بادل آسمان پہ چهانے لگے- ہمایوں تو کبهی بهی شام میں گهر نہیں ہوتا تها- تیمور جانے کہاں تها- وہ اپنے کمرے کی کهڑکی سے باہر کا منظر دیکھ رہی تهی-
دیکهتے ہی دیکهتے دن میں رات کا سماں بندھ گیا، بادل زور سے گرجنے لگے- موٹی موٹی بوندیں ٹپ ٹپ گرنے لگیں، بجلی کڑکتی تو ایک لمحے کو خوفناک سی روشنی بکهر جاتی-
اسے بارش سے پہلے کبهی ڈر نہیں لگا تها- مگر آج لگ رہا تها- ہمایوں نہیں تها، فرشتے بهی نہیں تهی، اسے لگا وہ بہت اکیلی ہے، تنہا ہے-
بجلی بار بار کڑک رہی تهی- ساتھ ہی اس ہی دهڑکن بهی تیز ہو گئی تهی- بےاختیار اسے پسینہ آنے لگا، کیا کرے کسے بلائے؟
وہ تیزی سے وہیل چئیر کے پہیئے دونوں ہاتهوں سے چلاتی لاؤنج میں آئی- فون ایک طرف تپائی پہ دهرا تها- اس کےساتھ ہی ایک چٹ بهی تهی جس پر ہمایوں اور فرشتے کے نمبر لکهے تهے- وہ غالبا” تیمور کے لیے لکهے گئے تهے- اس نے کپکپاتے ہاتهوں سے ریسیور اٹهایا اور فرشتے کا نمبر ڈائل کیا، پهر ریسیور کان سے لگایا-
گهنٹی جا رہی تهی، مگر وہ اٹها نہ رہی تهی- غالبا” کلاس میں تهی- اس نے مایوسی سے فون رکھ دیا- تب ہی نگاہ دوبارہ چٹ پہ پڑی-
کچھ سوچ کر اس نے دهڑکتے دل کے ساتھ ریسیور دوبارہ اٹهایا- نمبر ڈائل کرتے ہوئے اس کی انگلیاں لرز رہی تهیں- تیسری گهنٹی پہ ہمایوں نے ہیلو کہا تها-
” ہے…. ہیلو…. ہمایوں-” وہ بمشکل بول پائی تهی-
“کون؟”
” میں محمل-”
دوسری جانب ایک لمحے کو سناٹا چها گیا-
” ہاں بولو-” مصروف سرد مہر سی آواز ابهری-
آپ…. آپ کدهر ہیں؟”
” پرابلم کیا ہے؟” قدرے بےزاری-
” وہ…. وہ باہر اسٹورم( طوفان) آ رہا ہے- مجهے ڈر لگ رہا ہے، پلیز آپ گهر آ جائیں-” اس کا گلا رندھ گیا- آنکهیں ڈبڈبا گئیں-
” اوہو- میں میٹنگ میں بیٹها ہوں- ابهی ہہاں سے آ جاؤں-”
” مجهے نہیں پتا، پلیز آ جائیں، جیسے بهی ہو-” باہر طوفان کا شور بڑھ رہا تها، ساتھ ہی آنسوؤں میں شدت آ گئی تهی-
” میں نہیں آ سکتا، فرشتے یا کسی ملازمہ کو بلا لو-” وہ جهلایا تها-
” فرشتے گهر پہ نہیں ہے، آپ آ جائیں ہمایوں، پلیز-”
” کیا بکواس ہے؟ اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم معذوری کا ڈرامہ رچا کر میری ہمدردی حاصل کر سکتی ہو تو اس خیال کو دل سے نکال دو اور مجهے میری زندگی جینے دو، خدا کے لیے اب پیچها چهوڑ دو میرا-” اور ٹهک سے فون بند کر دیا-
وہ سکتے کے عالم میں ریسیور ہاتھ میں لیے سن سی بیٹهی رہ گئی- کتنے لمحے گزرے، کتنے بادل گرجے، کتنی بجلی چمکی، کتنے قطرے برسے، وہ ہر شے سے غافل، بنا پلک جهپکے شل سے بیٹهی تهی- لب ادھ کهلے، آنکهیں پهٹی پهٹی اور ہاتھ میں پکڑا ریسیور کان سے لگا….. وہ کوئی مجسمہ تها جو ٹیلی فون اسٹینڈ کے ساتھ اس وہیل چئیر پہ بے حس و حرکت پڑا تها-
پهر کتنی ہی دیر بعد ریسیور اس کے ہاتھ سے پهسلا اور نیچے لڑهک گیا- اس کے زمین سے ٹکرانے کی آواز پہ بےاختیار اس نے پلکیں جهپکیں اور آن کی آن میں اس کی آنکهیں آنسووں سے لبریز ہو گئیں- اس کی ہچکی بندھ گئی تهی اور پورا وجود لرز رہا تها، وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رہ رہی تهی-
ہمایوں نے اسے وہ سب کہا تها؟ اتنے غصے اور بیزاری سے، جیسے وہ اس سے اکتا چکا تها- ہاں وہ مرد تها- وجیہہ، شان دار مرد، کب تک ایک کومے میں بیہوش پڑی نیم مردہ بیوی کی پٹی سے لگا رہتا؟ اس کو اب محمل کی ضرورت نہ تهی- اسے اب محمل کے وجود سے بهی اکتاہٹ ہوتی تهی- شاید وہ اب اس سے شادی کرنے پہ پچهتا رہا تها- اپنی وقتی جزباتیت پہ نادم تها-
دفعتا” آہٹ پہ اس نے آنکهین کهولیں-
تیمور سامنے صوفے کے اس طرف کهڑا اسے دیکھ رہا تها- چبهتی، خاموش نگاہیں جن میں عجیب سا تنفر تها-
” تیمور!” اس کی زخمی مامتا بلبلائی- ” ادهر میرے پاس آو بیٹا-” اس نے دونوں ہاتھ پهیلائے- شاید وہ اس کے گلے سے لگ جائے- شاید کہ ہمایوں کے رویے کی تپش کچھ کم ہو جائے-
” آئی ہیٹ ہو-” وہ تڑخ کر بولا اور اسے دیکهتے ہوئے دو قدم پیچهے ہٹا- ہمایوں کے الفاظ کیا کم تهے جو اوپر سے اس سات سالہ لڑکے کا انداز ، اس کی روح تک چهلنی ہو گئی-
” میں نے کیا، کیا ہے تیمور؟” تم ایسے کيوں کر رہے ہو میرے ساتھ؟ کیوں ناراض ہو مجھ سے؟-”
” یو لیفٹ می وین آئی نیڈ یو-” آپ نے مجهے اس وقت چهوڑ دیا جب مجهے آپ کی ضرورت تهی-)
وہ زور سے چیخا تها- ” آئی ہیٹ یو فار ایوری تهنگ-”
اور مڑ کر بهاگتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا- لمحے بهر بعد اس نے زوردار آواز سے تیمور کے کمرے کے دروازے کو بند ہوتے سنا-
” کیا تمہیں چهوڑنے میں میرا اپنا اختیار تها تیمور؟” تم اتنی سی بات پہ مجھ سے ناراض نہیں ہو سکتے- شاید تمہارے باپ نے تمہیں مجھ سے بدظن کیا ہے-” وہ دکهی دل سے سوچتی واپس کمرے تک آئی تهی- اس کے rippleبیڈ کی سائیڈ پہ سفید کور والا قرآن پڑا تها- اس نے آہستہ آہستہ سے اسے اٹهایا اور دونوں ہاتهوں میں تهامے اپنے سامنے کیا-
سفید کور پہ مدهم سا مٹا مٹا “میم” لکها تها- جانے اس نے کیوں اور کب ادهر لکها تها؟ وہ کوشش کے باوجود یاد نہ کر پائی، پهر سر جهٹک کر اسے وہاں سے کهولا جہاں سے فجر کے بعد تلاوت چهوڑی تهی- اس نے وہ آیت دیکهی جہاں پہ بک مارک لگا تها، پهر تعوذ و تسمیہ پڑها اور اگلی آیت سے پڑهنا شروع کیا-
” ہم جانتے ہیں کہ تمہیں ان کہ بات غمگین کرتی ہے-”
اس نے بے یقینی سے اس آیت کو دیکها-
” ہم جانتے ہیں کہ تمہیں ان کی بات غمگین کرتی ہے، پس بےشک وہ تمہیں نہیں جهٹلاتے، بلکہ وہ ظالم تو اللہ کی نشانیوں کا انکار کرتے ہیں-” اس نے پهر سے پڑها اور پهر دم بخود سی ہو کر ایک ایک حرف کو انگلی سے چهونے لگی- کیا واقعی وہ ادهر لکها تها؟
” اوہ اللہ تعالی-” اس کے آنسو پهر سے گرنے لگے تهے- ” آپ کو…. آپ کو ہمیشہ پتا چل جاتا ہے، میں…. میں کبهی بهی آپ سے کچھ چهپا نہیں سکتی-” وہ بری طرح رو دی تهی- اب کی بار یہ دکھ کے آنسو نہیں تهے- بلکہ خوشی کے تهے- سکون کے تهے- زضا کے تهے-
” اگر مجھ سے آپ یوں ہی بات کرتے رہیں تو پهر مجهے جس حال میں بهی رکهیں، میں راضی! میں راضی! میں راضی-” اس نے چہرہ اٹهایا اور ہتهیلی کی پشت سے آنسو صاف کیے-
اب اسے رونا نہیں تها- اب اسے صبر کرنا تها، طائف کے پتهر دراصل اب لگنے شروع ہوئے تهے-

جاری ہے…….

شاعری ، اقتباسات ،اچھی اور اصلاحی باتيں ،دل کو چھو لينے والی تحريريں، ميرے، آپ کے دل کی باتيں . ھميں جوائن کیجيے۔

Dil Ki Baat /دل کی بات

اپنا تبصرہ لکھیں