مصحف قسط نمبر 9      

تحرير۔ نمرہ احمد

انتخاب۔ راحيلہ ساجد

وہ صبح بہت بوجهل سی تهی- وہ بس اسٹاپ پہ بنچ پہ اکیلی بیٹهی متورم آنکهوں سے دور افق پہ جانے کیا تلاش کر رہی تهی، جہاں نیلی صبح کے پرندے اڑ رہے تهے، رات بهر کے رونے کے باعث اس کے سر میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تهیں اور اوپر سے وہ سیاه فام لڑکی بهی نہیں آئی تهی-
جانے آج وہ کدهر رہ گئی تهی- ابهی تک کیوں نہ آئی تهی- صرف اس لیے محمل آج پندرہ منٹ پہلے ہی آ گئی تهی، تا کہ دس کے بجائے پچیس منٹ اس کے ساتھ مل جائیں مگر یہ تو اسے معلوم بهی نہ تها کہ وہ آئی کب تهی- اسے تو یہ بهی معلوم نہ تها کہ وہ اسکا انتظار کیوں کر رہی تهی- حالانکہ کوئی بات ایسی نہ تهی، جسے وہ اس کے ساتھ شیئر کر سکتی، کسی مسئلے کا حل دریافت کر سکتی یا اس کے ساتھ بيٹھ کر رو سکتی- نہیں، اس کے پاس بتانے کو کچھ  بهی تو نہیں تها، پهر بهی اسے اس کا انتظار تها- وہ بار بار کلائی پہ بندهی رسٹ واچ دیکهتی- لمحے سرکتے جا رہے تهے، پچیس منٹ ختم ہونے کو تهے مگر اس سیاه فام لڑکی کا دور دور تک کوئی اندیشہ نہ تها-
بس کا ہارن بجا تو وہ شکستہ قدموں سے اٹھ کر چل دی- سنگی بنچ خالی رہ گیا- صبح کے پرندے اپنے سفر کو نکل گئے اور نیلاہٹ بهرا افق سنہری کرنوں سے بهیگنے لگا-
وہ بہت اداس سی بس میں سوار ہوئی تهی- سارا راستہ خاموش سی گردن موڑے کهڑکی سے باہر دیکهتی رہی- اس کی لمبی صراحی مانند سنہری گردن اونچی پونی ٹیل کے باعث پیچهے سے بهی جهلکتی تهی اور اسے یکسر ممتاز بنا دیتی تهی-
بس کے رکنے سے قبل اس نے بیگ سے پاکٹ مرر نکال کر دیکها اور پهر کچھ  سوچ کر متورم سوجی آنکهوں کو چهپانے کو گہرا کاجل ڈال لیا-
“محمل! تم اتنا کاجل مت ڈالا کرو- مائنڈ مت کرنا مگر تمهاری آئیز بالکل گولڈن کلر کی ہیں اور کاجل میں بالکل بلی کی طرح لگتی ہیں- یو نو، کیٹ وومن!” نادیہ   ديکھ کر بولی تهی” اور مجهے بلیاں بالکل پسند نہیں، کهاؤ گی؟- اس نے ہا میں پکڑا چپس کا پیکٹ بڑهایا-
محمل نے ایک خاموش نگاه اس پہ ڈالی اور “نو تهینکس” کہہ کر سر جهکائے اپنی کتاب پہ  کچھ لکهنے لگی- سر جهکانے سے اس کی اونچی پونی ٹیل مزید اٹھ  جاتی اور بهورے بال گردن پہ گرتے دکهائی دیتے-
“مائی پلیژر!” نادیہ نے شانے اچکا کر پیکٹ واپس لے لیا-
وہ خاموشی سے سر جهکائے کچھ  لکهتی رہی- وہ لائبریری میں نادیہ کو کل تائی اماں کے جواب والی بات بتانے آئی تهی مگر اس کا طنز سن کر دل ایک دم ٹوٹ سا گیا تها- بس چٹکی بجاتے اس نے محمل کی خوبصورت بادامی سنہری آنکهوں کو بلی سے مشابہہ قرار دے دیا تها، شاید اس لیے کہ عام سی صورت کی نادیہ جب محمل کے ساتھ چل رہی ہوتی تو بہت سے سر مڑ کر ہمیشہ ستائشی نگاہوں سے محمل ہی کو دیکهتے تهے- دراز قد، اسمارٹ، لمبی گردن اور اونچی براون پونی ٹیل والی لڑکی جس کی سنہری آنکهیں دهوپ میں اور بهی زیادہ چمکتی تهیں،پورے کالج میں پاپولر تهی- ایسے میں جب وہ کاجل ڈال کر مزید خوبصورت دکهتی تو نادیہ سے کبهی کبهار برداشت نہ ہوتا اور وہ کچھ  ایسا ضرور کہہ دیتی جو محمل کا دل توڑ دیتا تها-
اب بهی وہ نادیہ ‘اپنی بیسٹ فرینڈ’ کے پاس……… رونے آئی تهی مگر…… نادیہ کے پاس پہلے اس کے دکه سننے کی فرصت نہ تهی، وہ مسلسل اپنے نوٹس میں مگن تهی اور جب ذرا دیر کو فارغ ہوئی تو اسکا دل کچھ ایسے توڑا کہ وہ پهر کچھ کہہ نہ سکی-
“ہاں تم کچھ  بتا رہی تهیں؛” وہ چپس کا پیکٹ کتاب کی اوٹ میں کیے مسلسل چپس نکال کر کتر رہی تهی، تائی اماں کی کوئی بات تهی شاید-”
” نہیں کوئی بات نہیں تهی-”
” اچها ، مجهے لگا……”
” تمہیں غلط لگا- میں چلتی ہوں زارا سے کچھ  کام ہے-” وہ مصروف سی کتابیں اٹهائے باہر نکل آئی-
اگلے دو روز یونہی مضمحل سے گزرے- پریشانی،مایوسی ناامیدی اور دکه وہ ہر طرح کے منفی خیالات میں گهری ہوئی تهی- یوں لگتا تها جیسے دنیا سے رنگ ہی ختم  ہو گئے ہوں – سب کچھ  پهیکا پهیکا سا تها اور دل کا باغ ویران، اجڑا ہوا اور پهر اچانک تیسرے دن وہ سیاه فام لڑکی آ گئی-
اس نے دور سے اسے بينچ  پہ بیٹهے دیکها تو یکدم غصے کی ایک لہر اس کے اندر اٹهی- وہ تيز تیز چلتی اس کے قریب آئی-
” تم دو دن سے کہاں تهیں؟” سیاه فام لڑکی نےبسر اٹهایا-
وہ بہت غصے سے اسے ديکھ  رہی تهی-
” میرا کچھ  کام تها، میں……”
“تمہیں مزہ آتا ہے  دوسروں کو اپنا انتظار کروا کے؟ تمہیں لگتا ہے میں تمہاری مدد کے بغیر مر جاونگی، ہاں حالانکہ ایسا نہیں ہو گا- تم توجہ لینے کے لیے وہ باتیں کرتی ہو جس سے دوسرا تمہاری طرف کهنچتا چلا آئے مگر مجهے تمہاری بالکل ضرورت نہیں ہے اور نہ مجهے تمہاری پرواہ ہے اور…… اور مجهے تمہاری کتاب کی بهی ضرورت نہیں ہے- میں نہیں مری تمہاری مدد کے بغیر،دیکهو،ديکھ لو، میں زندہ ہوں-” وہ تیز تیز بولتے ہانپنے لگی تهی-
-سیاه فام لڑکی ذرا سا مسکرائی-
“تو تم میرا انتظار کر رہی تهیں؟”
” نہیں ہرگز نہیں-” وہ دو قدم پیچهے ہٹی- مجهے تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے-”
تم شاید بلند آواز میں اپنے دل کی آواز کو جهٹلا رہی ہو- اگر ایسا ہے تو یہ مت کرو- اپنے دل کی سنو وہ تمہیں کچھ کہہ رہا ہے-”
” مجهے ڈکٹیٹ مت کرو- میں اپنا اچها برا خوب سمجهتی ہوں- تم میرے ساتھ امید افزا باتیں کر کے اپنی کتاب مجهے بیچنا چاہتی ہو، میں خوب سمجهتی ہوں تمهارا مقصد- مگر یاد رکهنا میں تم سے یہ کتاب ہرگز نہیں خردوں گی-
“نہ ہی میں یہ تمہیں بیچ رہی ہوں-لیکن ایک دن ایسا آئے گا’جب تم خود مجھ سے یہ کتاب مانگنے آو گی اور تب میں تمہیں فورا یہ تهما دونگی- ابهی تم سفر کے آغاز میں ہو اور جب تهکو گی تو اس کتاب کے پیچهے آو گی- مجهے تمہاری کسی بات کا برا نہیں لگا’ مجهے بس تمهارے تهکنے کا انتظار ہےجاو، تمهاری بس آ گئی ہے-”
اس وقت تو وہ غصے میں پلٹ گئی مگر پهر سارا دن یہی سوچتی رہی کہ اس کو اس سیاه فام لڑکی کو ديکھ  کر ہو کیا گیا تها- کیوں اس نے اس پہ اتنا غصہ کیا؟ وہ کیا لگتی تهی اس کی؟ اس نے کیا بگاڑا تها اسکا اور اسے غصہ کس بات کا تها- یوں انجانے لوگوں کے ساتھ  اس طرح کا سلوک تو محمل ابراہیم کبهی نہ کرتی تهی، پهر اب کیوں ؟
ندامت اور شرمندگی کے احساس نے اسے پورا دن جکڑے رکها، وہ کچن کے تمام کام بے توجہی سے نپٹاتی رہی، پڑهائی بهی ٹهیک سے نہ کر سکی پیپرز ہو رہے تهے، اب بهی اس کے پاس پڑهنے کو بہت کچھ تها مگر سارا دن احساس جرم اندر ہی اندر اسے کچوکے لگاتا رہا اور جب رات کو اچانک سے رضیہ پهپهو کی آمد کا شور اٹها، تو وہ بہت بے دلی سے لاونج میں آئی تهی-
” فائقہ! آج کل میرے ساتھ  سارا وقت کچن میں لگی رہتی ہے، میں منع تو کرتی ہوں مگر مجال ہے جو یہ مجهے کسی کام کو ہاتھ  لگانے دے- آج بهی پڈنگ بنائی تهی کہہ رہی تهی سارے ماموں شوق سے کهاتے ہیں، انہیں دے آوں- میں نے کہا خود ہی دے آو، مامووں میں تو جان ہے میری بچی کی اور سب ٹهیک ہے گهر میں ؟ فواد کہاں ہے ؟ نظر نہیں آرہا-” مہتاب تائی کے ہمراه اندر داخل ہوتی رضیہ پهپهو نے بات کے اختتام پر ادهر ادهر دیکهتے ہوئے بظاہر سرسری سا پوچها تها- فواد تو نہ نظر آیا، مگر محمل پہ نگاه پڑی تو چہرے پہ ناگواری بکهر گئی- شاید اس وجہ سے کہ انکی آخری بات پہ وہ ذرا سا استہزائیہ مسکرائی تهی-
“لڑکی کوئی کام کاج بهی ہے تمہیں نا نہیں ؟ جب دیکهو لوٹها کی لوٹها ادهر ادهر بهاگتی پهر رہی ہوتی ہو- میری بهابهی کا جگرا ہے جو مفت خوروں کو گهر میں ٹکا رکها ہے ورنہ میں ہوتی تو…..ہونہہ-” انہیں اسکی مسکراہٹ تپا گئی تهی،جیسے چوری پکڑی گئی ہو’ سو بگڑ کر کہتی بڑے صوفے پہ بیٹه گئیں-
فائقہ بهی دونوں ہاتهوں میں ٹرے پکڑے جس پہ دو ڈونگے رکهے تهے، چلی آ رہی تهی- فیشن کےمطابق شارٹ شرٹ کے نیچے ٹراوزر اور لمبے بال کهلے تهے، جن میں چوٹی کے بل صاف نظر آتے تهے- وہ سدرہ کی طرح خوب میک اپ کرتی تهی اور اس طرح شاید زرا قابل قبول لگ جاتی، اگر جو گہرےمسکارے اور آئی میک اپ کے اوپر وہ بڑا سا سیاہ فریم کا چشمہ نہ لگایا کرتی-
” یہ کدهر رکهوں ممانی جان؟” وہ رک کر مدهم آواز میں پوچھ  رہی تهی- ورنہ یہی فائقہ تهی جو کچه عرصہ قبل بےہنگم شور کیا کرتی تهی-
” کچن میں رکھ  دو- بلکہ محمل،تم لے جاو-”
“لایئے-” محمل آگے بڑهی تو فائقہ نے قدرے تذبذب سے  ماں کو دیکها-
دے دیں فائقہ باجی! فواد بهائی تو ویسے بهی آ فس سے نہیں آئے- پهپهو پوچھ رہی تهیں ابهی انکا- ” وہ بے بیازی سے کہہ کر ٹرے لیے کچن میں رکھ  آئی –
“فواد ابهی تک نہیں آیا؟” پهپهو نے بےچینی سے گهڑی دیکهی- پهر فائقہ کو آنکھ کا اشارہ کیا – وہ فورا مہتاب تائی کے بالکل مقابل صوفے پہ مودب سی بيٹھ  گئی-
“ہاں، کچھ  کام تها شاید اور تم ٹهیک ہو-” تائی ریموٹ اٹها کر چینل بدل رہی تهیں،انداز میں عجب شان بےنیازی تهی- جن کے فواد جیسے بیٹے ہوں، ان پہ بیٹیوں کی مائیں یونہی مکهیوں کی طرح بهنبهناتی ہیں، وہ رضیہ پهپهو کے اطوار خوب سمجهتی تهیں-
” یہ پڈنگ فائقہ باجی نے بنائی ہے پهپهو؟” وہ واپس آ کر ان کے سامنے صوفے پہ ٹانگ پہ ٹانگ رکه کر بيٹھ گئی- وہی جینز،کرتا،گردن میں مفلر کی طرح لپٹا دوپٹہ اور اونچی پونی ٹیل- یہ اسکا مخصوص حلیہ تها-
“ہاں تو اور نہیں تو کیا؟”
” اچها آپ تو اس روز اپنی مائی سلیمہ سے پڈنگ بنوا رہی تهیں، وہ جب میں آپ کے گهر گئی تهی، آپ کہہ رہی تهیں کہ نہ آپکو اور نہ ہی فائقہ باجی کو پڈنگ بنانی آتی ہے- فائقہ باجی” اس نے چہرہ فائقہ کی طرف موڑا” ابهی ریسنٹلی سیکهی ہے آپ نے؟”
” ہاں ہاں، میرے ساتھ  آج کل سب کچھ  سيکھ  رہی ہے –  بيٹھ کرمفت کی روٹیاں تو نہیں توڑتی- پهپهو چمک کر بولیں- تائی مہتاب ریموٹ پکڑے چینل بدل رہی تهیں- چہرے پہ البتہ واضح بےزاری چهائی تهی-
” اور آپ نے کس سے سیکهی؟ اپنی ماسی سے؟”
” زیادہ زبان نہیں چلنے لگی تمہاری محمل- یہ تو میری بهابهی کا حوصلہ ہے کہ تمہیں برداشت کرتی ہیں، ان کی جگہ میں ہوتی تو دو دن میں گهر سے نکال دیتی-”
” ان کی جگہ آپ کیسے ہو سکتی تهیں پهپهو- دوسروں کے پیسے پہ عیش کرنا ایک آرٹ ہے، اور یہ ہر کسی کو تو نہیں آتا نا-”
” سٹاپ محمل-” تائی نے غصے سے ریموٹ رکها- ” زیادہ بک بک کی تو ٹانگیں توڑ کے رکھ دونگی- ارے ہم نہ رکهتے تو کدهر جاتی تم ، ہاں؟”
“انگلینڈ-” وہ آرام سے ٹانگ پہ ٹانگ رکهے پاوں جهلا رہی تهی-
” کیا مطلب؟” وہ سب چونکے-
” میں نے اسکالر شپ کے لیے اپلائی کر دیا ہے اور بہت جلد میں تو اماں کو لے کر انگلینڈ چلی جاونگی، سو آپ ابهی سے ملازم ڈهونڈنا شروع کر دیں – آپ بیٹهیں میں ذرا کچن ديکھ  لوں…….” وہ اٹھ  کر کچن کی طرف چلی آئی، جانتی تهی کہ ان کے سروں پہ بم پهوڑ آئی ہے- مگر اس وقت ان سب کو ستانے کا دل کر رہا تها-
کهانے پہ ہی اس کی پیشی ہوگئی-
“تم نے کونسی اسکالرشپ کے لیے اپلائی کیا ہے ؟ مہتاب بتا رہی تهی، کیا بات ہے؟” آغاجان نے جیسے یک دم یاد آنے پہ کهانے سے ہاتھ  روک کر پوچها-
” اسکالرشپ؟” آرزو نے ابرو اٹهائی، ندا اور سامیہ باتیں کرتی ٹهٹهک گئیں، فضہ چچی نے حیرت سے گلاس رکها اور فواد کا لقمہ منہ میں ڈالتے ہوئے بری طرح چونکا تها-
باقی سب بهی ایک دم رک کر سے دیکهنے لگے، جو بہت اطمینان سے بازو بڑها کر رائتے کا ڈونگااٹها رہی تهی-
“جی آغاجان برٹش ہائی کمیشن کی طرف سے کچھ  اسکالرشپس اناونس ہوئی تهیں ماسٹرز کے لیے،میں نے اپلائی کر دیا-” اب وہ بڑا چمچہ بهر کر رائتہ چاولوں پہ ڈال رہی تهی- ” امید ہے جلد ہی مل جائے گی- پهر میں انگلینڈ چلی جاونگی، سوچ رہی ہوں وہیں ساتھ  ساتھ جاب وغیرہ بهی کر لوں، آخر خرچے بهی تو پورے کرنے ہوتے ہیں نا-” چمچہ چاولوں میں ہلا کر رائتہ مکس کرتے اس نے لاپرواہی سے اطلاع دی اور اسے لگا تھا ابهی گهر بهر میں طوفان کهڑا ہو جائے گا، مگر……
“ہوں، ویر گڈ- ضرور اپلائی کرو-” آغاجان پهر سے کهانے کی طرف متوجہ ہو چکے تهے- اب کہ حیران ہونے کی باری محمل کی تهی – اس نے لمحے بهر کو ٹهٹهک کر انہیں دیکها اور پهر سنبهل کر بولی-
“تهینک یو آغاجان-”
اس کے الفاظ پہ جہاں مسرت اطمینان سے کهانے لگیں، وہاں ٹیبل پہ بہت سے لوگوں کی خاموش معنی خیز نگاہوں کے تبادلے ہوئے تهے-
وہ سر جهکائے چاول کهاتی رہی- امید تو نہ تهی کہ وہ کوئی ڈرامہ کهڑا نہ کریں گے مگر وجہ بهی فورا  سمجھ  میں آ گئی – وہ باہر چلی جائے تو ان سے جائداد میں سے حصہ کون مانگنے کهڑا ہو گا؟ ان کے لیے تو اچها ہی تها کہ وہ چلی جائے-
” ایسے تو نہیں چهوڑوں گی تم لوگوں کو میں چلی بهی گئی تو ایک دن ضرور واپس آونگی ، اور اپنا حصہ طلب کرونگی اور تم سب کو ہر اس عدالت میں گهسیٹوں گی جہاں جانے سے تم خوف کهاتے ہو-” اس نے دل ہی دل میں تہیہ کیا تهااور پهر جب پانی کا جگ اٹهانے کو سر اٹهایا تو یکدم چونکی-
بےتوجہی سے کهانا کهاتا فواد اسے ہی ديکھ  رہا تها، اسے سر اٹهاتا پا کر فورا اپنی پلیٹ پہ جهک گیا اور بعد میں پهپهو نے کتنا ہی ” میری فائقہ نے  پڈنگ بنائی ہے” کہہ کہہ کر روکنا چاہا، وہ کرسی دهکیل کر اٹھ کهڑا ہوا-
” مجهے کام ہے ، میں چلتا ہوں-”
” ہاں بیٹا، تم کام کرو-” مہتاب نے بهی فورا اس کی تائید کی تهی- ادهر پهپهو ہائیں ہائیں کرتی رہ گییں اور وہ لمبے لمبے ڈگ بهرتا نکل گیا – محمل کا دل یکدم اداس سا ہو گیا تها – پتہ نہیں کیوں-
جاری ہے……

اپنا تبصرہ لکھیں