مصحف  قسط نمبر 8    

تحرير۔ نمرہ احمد

انتخاب۔ راحيلہ ساجد

 
انہوں نے سدرہ کی جگہ میرا رشتہ مانگا،کین یو بلیو اٹ؟ میں تو اتنی شاکڈ ہو گئی تهی، اوہ گاڈ! اتنا اچها پروپوزل ہے، وہ آنٹی اتنی لونگ اور سویٹ ہیں کہ میں تمهیں کیا بتاؤں اور پتہ ہے انکا بیٹا ایروناٹیکل انجینئر ہے اور تم میری بات سن رہی ہو یا نہیں-” اس نے فائل میں صفحے ترتیب سے لگاتی نادیہ کا کندها ہلایا تو وہ-
“ہاں ہاں بتاو نا، پهر کیا ہوا؟” کہہ کر پهر سے صفحوں کی ترتیب ٹهیک کرنے لگی-
“ہونا کیا تها تائی اماں کی شکل تو دیکهنے والی ہو گئی تهی؛”
“اچها!” نادیہ اب انگلش کی کتاب کے ورق الٹاتی کچھ  تلاش کر رہی تهی- وہ دونوں کالج کے برآمدے کی سیڑھيوں  پہ بیٹهی تهیں، محمل اسے کل کی ساری روداد سنا رہی تهی-
“تائی نے تو مجهے فورا وہاں سے بهیج دیا، بےچاری! ہر چیز سدرہ کی بنائی کہہ کر پیش کر رہی تهیں مگر وہ آنٹی بهی بہت تیز تهیں، ایسے پرخچے اڑائے کہ تائی کئی دن تک یاد…… تم میری بات نہیں سن رہی نادیہ!” اس نے خفا سی ہو کر منہ موڑلیا-
” نہیں، نہیں سن رہی ہوں نا-” نادیہ نے بوکهلا کر فائل ایک طرف سیڑهی پہ رکهی، مگر وہ منہ موڑے بیٹهی رہی-
” اچها بتاو نا، تو وہ صاحب میکنیکل انجینئر ہیں-”
” میں دو گهنٹے سے بک بک کر تهک گئی ہوں کہ وہ ایروناٹیکل انجینئر ہے، تم اگر سن لیتیں تو یہ سوال نہ کرتی- تم اپنی فائل جوڑو میں جا رہی ہوں-” وہ بیگ اٹها کر کهڑی ہوئی تو نادیہ بهی ساتھ  ہی اٹهی-
“ارے ناراض تو نہ ہو -”
” نہیں یار ! سیریسلی ناراض نہیں ہوں – مجهے یاد آیا، مجهے ابهی میڈم مصباح سے ملنا تها ایک کام کے کیے ، میں ذرا تهوڑی دیر تک آتی ہوں-” محمل نے بظاہر مسکرا کر کہا اور مڑ کر چل دی- جب وہ تیز تیز ار جهکائے چلتی تهی تو اونچی پونی ٹیل ساتھ  ہی ادهر ادهر جهولتی بہت اچهی لگتی تهی-
چند قدم دور اس نے ذرا سا مڑ کر دیکها، نادیہ بہت آرام اور انہماک سے بیٹهی اپنی فائل میں کچھ  لکھ  رہی تهی- وہ تاسف سے واپس آگے کو چلنے لگی – کتنی جلدی نادیہ، اس کی سو کالڈ بیسٹ فرینڈ نے، اس کہ پهیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ  کہے گئے آخری جملے پہ یقین کر لیا تها، جیسے وہ واقعی ناراض نہیں ہے، حالانکہ وہ تهی، گهر میں اماں تهیں تو کالج میں نادیہ، جن سے وہ دل کی بات شئر کر لیتی تهی، مگر دونوں بےتوجہی سے سنتی تهیں، کبهی کام میں مصروف”ہوں ہاں” کہہ دیا تو کبهی سنا ہی نہیں-
” اس دنیا میں کوئی بهی نہیں ہے-” وہ سامنے والے برآمدے کے ستون سے ٹیک لگا کر بيٹھ گئی اور اداسی سے سامنے لان کے سبزے کو دیکها-
سنہری اور چمکیلی صبح ہر سو بکهری تهی- گهاس پہ ٹولیوں کی صورت میں سفید یونیفارم میں ملبوس لڑکیاں بیٹهی تهیں- کوئی کهانے پینے تو کوئی گپ شپ میں مصروف تهی-، سب کی اپنی اپنی دنیا تهی اور وہ ان میں مگن تهیں-
” کیا یہی زندگی ہوتی ہے یا کیا اس کی زندگی کی سی مشکل زندگی کسی اور کی نہ تهی؟” اس نے آزردگی سے سوچاتها-
” کیا مجهے کبهی وہ خوشیاں نہیں ملیں گی جو میں چاہتی ہوں؟ بڑا سا گهر بے تحاشا دولت،طاقت،اثرورسوخ،محبت کرنے والا لائف پارٹنر……. کیا یہ سب میرے قدموں میں ایک ساتھ  ڈهیر ہو سکتا ہے ؟” اس نے ستون سے سر ٹکا کر آنکهیں موند لیں- بند پلکوں پہ سنہرے خواب اترنے لگے تهے-
” وہ ایروناٹیکل انجینئر یا فواد میں ان میں سے کسی کی بهی بیوی بن جاوں تو سب کچھ  میرا ہو سکتا ہے …… سب کچھ  میرے قدموں میں ڈهیر ہو سکتا ہے – بلند ہر چیز کی بلندی……..”
” جو وہ عملیات کر لیتا ہے، وہ دنیا پہ راج کرتا ہے-”
” کچھ  ایسا ہو کہ تمہیں تنگ کرنے والے لوگ تمہارے آگے پیچهے پهرنے لگیں، مال ودولت تم پہ نچهاور ہو، تمہارا محبوب تمہارے قدموں میں آ گرے-”
” اور اگر میں ایسا کچه تمہیں دے دوں تو….؟” اس نے جهٹکے سے آنکهیں کهولیں- ایک دم سے ہی وہ ساری باتیں اور اس سیاہ فام لڑکی کی چمکیلی آنکهیں اسے یاد آئی تهیں-
” تم سب کو اپنی مٹهی میں کر کے دنیا پہ راج کرو، کیا تم یہی نہیں چاہتیں؟”
اس نے گهبرا کر ادهر ادهر دیکها- یوں لگتا تها وہ لڑکی اپنی بهید بهری آواز میں اس کے پاس سے ہی بول رہی یے-
” پتہ نہیں، کیا کروں…..” اس کا دل زور زور سے دهڑک رہا تها، ایک لمحے کو اس نے وہ کتاب اس سے مانگنے کا سوچا مگر دوسرے ہی پل خوف خا غلبہ طاری ہو گیا-
” نہیں نہیں….. معلوم نہیں کون سا سفلی علم ہے اس کے پاس….. میں ان کاموں میں نہیں پڑونگی….. آغاجان کو علم ہوا تو ٹانگیں توڑ دیں گے میری-”
وہ خود کو سرزنش کرتی فائل اور بیگ سنبهالے اٹه کهڑی ہوئی- اسے اب اس سیاہ فام لڑکی سے کوئی بات نہیں کرنی تهی، بس! اس نے فیصلہ کر لیا تها-
البتہ دل کے کسی چهپے خانے میں اس کتاب کو حاصل کرنے کی خواہش نے بهی بہت خاموشی سے سر اٹهانا شروع کر دیا تها-
ان دنوں مسرت بیت خوش رہنے لگی تهیں اور وہ ان کو ديکھ  ديکھ  کر خوش ہوتی-
” پتہ ہے محمل! بہت اچهے لوگ ہیں یہ- نعمان بهائی بڑے بهلے مانس انسان ہیں، اور انکا بیٹا تو بہت ہی خوبرو ہے- اللہ نے ہماری سن لی ہے، وہ ضرور ہم پہ رحم کرے گا-”
وہ کبهی کبهی بيٹھ کر اس کو بتانے لگ جاتیں تو وہ خاموشی سے مسکراہٹ دبائے، سر جهکائے سنتی چلی جاتی- اب تو گهر کے کام بهی آرام سے کر دیتی، کچھ دن سے تائی کو جواب دینے بهی چهوڑ دیے تهے- پہلی دفعہ اس زندان سے نکلنے کی کوئی امید جو بندهی تهی-
سدرہ البتہ اسے اٹهتے بیٹهتے بہت عجیب نظروں سے دیکهتی تهی-محمل پرواہ نہ کرتی مگر اس روز تو حد ہی ہو گئی- وہ شام کی چائے کی ٹرالی دهکیلتی باهر لان میں لائی تو سدرہ نے ایک دم سے اسے دیکهتے ہی منہ پهیر لیا-
“شاہد ابهی تک ناراض ہیں-” اس نے سوچا اور پهر جیسے مداوا کرنے کے لیے سب سے پہلے سدرہ کا کپ بنایا-
“سدرہ آپی! چائے-” اور بہت شائستگی سے مسکرا کر کپ بڑهایا-
” آپی؟ میں تمہاری آپی لگتی ہوں؟” سدرہ نے کپ لیتے لیتے زور سے پٹخ دیا- گرم ابلتی چائے محمل کے گهٹنے پہ گری، وہ بلبلا کر کهڑی ہوئی- کپ گهاس پہ جا گرا-
” یوں لوگوں کے سامنے آپی کہہ کر تم یہ ظاہر کرتی ہو کہ میں بوڑهی ہو گئی ہوں، ہاں؟” سدرہ یک دم چلانے لگی تهی- “ممی……. ممی اسکو دیکهیں، یہ ہمیشہ یہی کرتی ہے- یہ ہمیشہ لوگوں کے سامنے مجهے بےعزت کرتی ہے-” سدرہ نے زور زور سے رونا شروع کر دیا-
” ارے ان کی تو عادت ہے، یہ ماں بیٹی تو اس گهر کی خوشی ديکھ نہیں سکتیں- نہ میری بیٹی، تو غم نہ کر اور اب کهڑی کیا ہو، جاو اپنی نحوست لے جاو میرے سامنے سے-” تائی مہتاب نے بهی بہت دنوں کا غصہ ایک دم نکالا-
وہ جو شاکڈ سی کهڑی تهی، بهاگتی ہوئی اندر آئی- مسرت بهی پریشان سی کچن میں کهڑی تهیں- انہوں نے بهی سن لیا تها، محمل کچھ  کہے بغیر اندر کمرے میں بند ہو گئی-
اندازہ تو اسے تها ہی کہ  تا ئی کا موڈ اس روز سے  خراب ہے مگر وہ کچھ کہہ بهی نہ رہی تهیں- چپ ہی ساد ھ  لی تهی- شاید اس بات پہ کی اب محمل کی ہونے والی سسرال تهی، ان سے کیا پنگا لینا-
مگر رات میں اس کی یہ خوش فہمی بهی دور هوگئ، جب اس نے کچن میں تائی مہتاب کو مسرت سے کہتے سنا-
” ہم نے تو اسی روز نعمان بهائی لوگوں کو انکار کر دیا تها، محمل کی کون سی شادی کی عمر ہے، ابهی گهر کی بڑی بیٹیاں ہیں، پہلے ان کی ہو گی، پهر ہی محمل کا سوچیں گے- چائے آغا صاحب کے کمرے میں پہنچا دو، وہ رات کا کهانا نہیں کهائیں گے اور ٹیبل لگا دو-” وہ حکم صادر کر کے بے نیازی سے باہر نکل گئیں، کچن کے دروازے پہ دهواں دهواں چہرہ لیے کهڑی محمل پہ بس ایک استہزائیہ نگاه اچهالی تهی، جبکہ اندر نڈهال سی بمشکل کهڑی مسرت کو دیکهنا بهی گوارا نہ کیا تها، جن کے دل پہ انہوں نے الٹی برچهی پهیر دی تهی-
اسے نہیں علم تها کہ کیوں مگر وہ رات دیر تک برآمدے کی سیڑهیوں پہ بیٹهی روتی رہی تهی- اندر سب سو رہے تهے، مسرت بهی سونے چلی گئی تهیں، وہ پڑهائی کا بہانہ کر کے باہر آئی تهی اور دیر اے بیٹهی بے آواز آنسو بہا رہی تهی-
کچی عمر کا پہلا خواب دیکها تها، وہ بهی ایسے کرچی کرچی ہوا تها کہ روح تک بلبلا اٹهی تهی – وہ اتنی ہرٹ ہوئی تهی کہ دل پهٹ رہا تها، کوئی اتنا ظالم بهی ہو سکتا ہے جتنی تائی تهیں- جتنے یہ سب لوگ تهے- اس کا دل چاہ رہا تها ، وہ بے خبر سوتے ان لوگوں کے کمروں کو آگ لگا دے، یا چهری سے ان کی گردنیں کاٹ پهینکے- یا زہر دے کر سب کو مار دے اور آخر میں خود بهی پهانک لے- نفرت، بہت شدید نفرت محسوس ہوتی تهی اسے اپنے ان رشتہ داروں ست، اس کا دل چاہتا تها وہ ان گهٹیا اور کمینے لوگوں سے دور چلی جائے، جہاں اسے سب کی شکل نہ دیکهنی پڑےاور واقعی اب وہ چلی بهی جائے گی- اس نے سوچ لیا تها- بس ایک دفعہ اسے وہ اسکالر شپ مل جائے جس کے لیے اس نے برٹش ہائی کمیشن کے اعلان کے بعد اپلائی کیا تها کہ بهلے گهر کے جو حالات ہوں، اس نے ففتھ سے ایف ایس سی تک ہر بوڑڈ ایگزام میں پورے بورڈ میں ٹاپ کیا تها- ایف ایس سی پری انجینئرنگ میں ٹاپ کرنے کے باوجود اسکا انجینئرنگ کی طرف رجحان نہ تها، یا رہا نہ تها، سو بی ایس سی میتهس میں ایڈمیشن لے لیا تها اور اسے امید تهی کہ اب بهی وہ ہی ٹاپ کرے گی اور اسکالر شپ اسے مل جائے تو بہت آسانی سے اس زندان سے چهٹکارا مل جائے گا-
وہ آنسو ہتهیلی کی پشت سے رگڑتی اس سوچ میں غلطاں تهی کہ کوئی اس کے سامنے آ کهڑا ہوا- وہ جوتے ديکھ  کر چونکی  اور بهیگا ہوا چہرہ اٹهایا-
وسیم اس کے بالکل سامنے کهڑا تها-
” وسیم بهائی؟” وہ کرنٹ کها کر اٹهی اور دو قدم پیچهے ہٹی-
وہ تائی مہتاب کا تیسرے نمبر کا بیٹا تها- فہد کا چهوٹا اور ناکارہ    و آوارہ بهائی- اس وقت بهی وہ اپنی سرخ آنکهوں سے اسے گهور رہا تها – جانے  کب اچانک آکر ادهر کهڑا ہوا تها- کهلا گریبان، تنگ جینز، گردن سے لپٹی چین، بکهرے بال اور سرخ آنکهیں- وہ نشہ کرتا تها، گهر میں سب کوعلم تها- یہاں تک کہ فضہ چاچی اپنی بیٹیوں کو اس کے قریب بهی نہ جانے دیتی تهیں- خود حسن بهی احتیاط کرتا تها- آرزو البتہ لاپرواہ اور نڈر تهی- ویسے بهی وسیم گهر میں بہت کم نظر آتا تها- محمل ہر ممکن احتیاط کرتی کہ اکیلے میں اس کا سامنا نہ ہو کہ اسے اس کی آنکهوں سے خوف آتا تها – مگر آج جانے کیسے…..
” کیا کر رہی ہو؟” وہ ایک قدم اوپر اسٹیپ پہ چڑها تو وہ بےاختیار مزيد  پیچهے هٹی-
“کک….. کچھ  بهی نہیں- وہ آغاجان آواز دے رہے ہیں-” وہ ایک دم پلٹ کر اندر بهاگ گئی-
” ہونہہ-” وسیم نے تمسخرانہ سر جهٹکا، چند لمحے ادهر کهڑا سوچتا رہا، پهر باہر گیٹ کی طرف چل دیا-
جاری ہے…….. .

اپنا تبصرہ لکھیں