مشکلیں کچھ بھی نہیں عزم جواں کے آگے

محمد ندیم الدین قاسمی
مدرس ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد

آج ہندوستانی مسلمان تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں ،ان کو ہندوستان سے بے دخل کرنے،اور ان میں خوف وہراس پیدا کرنے کی ہر ممکنہ کوششیں جاری ہیں،گویا ان فرقہ پرست طاقتوں نے ارض ہند کو اپنی وسعت کے باوجود تنگ کردیا ہے گذشتہ پانچ، چھے برس اس کے شاہد ہیں ،اس لئےکہ مسلمانوں کو کبھی ٹرپل طلاق کے نام پر ستایا گیا تو کبھی پرسنل لا میں مداخلت کرنے کی کوشش کی گئی ، کبھی مسلمانوں کو غیر ملکی اور دوسرے درجہ کا شہری کہا گیا ، تو کبھی گؤ کشی کے نام پر سیکڑوں مسلم نوجوانوں کو ماب لنچنگ کا نشانہ بناکر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، کبھی منافرت کے شعلے بھڑکائے گئے،تو کبھی ہندو مسلم قوموں کے درمیان نفرت کی فصل بوکر نفرت انگیز ماحول کو پروان چھڑایاگیا،اب تو یکساں سول کوٹ کی باتیں بھی شروع ہوگئی ہیں ، جس سے ایک ہندوستانی مسلمان جہاں پریشان ہے تو وہیں ناامیدی و مایوسی کا شکار ہے اورحالیہ بابری مسجد کےفیصلہ نےتو مسلمانوں کی مایوسی میں اور اضافہ کردیا،الغرض ہر جہت سے مسلمانان ہندکو پریشان کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں بہ قول شاعر؎ ایک دو زخم نہیں جسم ہے سارا چھلنی / درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے نکلے
لیکن کیا ان تمام مسائل و مشکلات کاحل مایوسی و خاموشی ہے؟کیا ایک ہندوستانی مسلمان ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فرداں رہے، اسی طرح درد وکرب میں گھٹتے گھٹتے زندگی گذار دے ؟ہر گز نہیں!جس قوم کے درد کا درماں قرآن وسنت کی شکل میں موجود ہو تواسےمایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں بس قرآن وسنت کے بتائے ہوے اصولوں پر عمل کی ضرورت ہے،جو درجہ ذیل ہیں
۱۔ثبات قدمی
سب سے پہلے ہمیں اپنے ایمان پر ثابت قدم رہناچاہئے ۔ثابت قدمی میں ثبات قلب اور ثبات قدم دونوں داخل ہیں ، اور یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہےکہ مخالف سے مقابلہ کا سب سے پہلا اور مؤثر ہتھیار ثبات قلب و قدم ہے ،قرون اولی کی تمام معرکوں میں مسلمانوں کی فوق العادات کامیابیوں اور فتوحات کا راز اسی میں مضمر ہے ،اہل مکہ نے آپ ﷺپر کتنے مظالم نہیں ڈھائے!آپ کو شہر مکہ سے نکال دیا گیا،پوری مکی زندگی میں آپ کوجان خطرہ رہا، عین صحن کعبہ میں آپ کو پھانسی دینے کی کوشش کی گئی ، قتل کے منصوبے بنائے گئے ، طائف میں زخموں سے چور چور ہوگئے ، اُحد میں روئے منور سے خون کا فوارہ بہنے لگا ، شعب ابی طالب میں تین سال سے زیادہ عرصہ ایسا بائیکاٹ کیا گیا کہ مسلسل فاقوں سے گزرنا پڑا اور بنو ہاشم کے بچے ایک ایک دانے کو ترس گئے ، اپنے عزیزوں کی قربانی آپ نے اپنے آنکھوں سے دیکھی ، آپ نے حضرت حمزہؓ کی شہادت کا غم بھی سہا، مکی زندگی کے تیرہ سال آپ نے سخت مشقت میں گزارے اور مدینہ آنے کے بعد بھی آٹھ سال کا عرصہ اسی طرح گزرا کہ اہل مکہ کی طرف سے تابرتوڑ حملے ہوتے رہے ، الغرض آپ ﷺکو آزمایاگیاتاکہ مسلمانوں کے لئے اپنے نبی کا اُسوہ موجود ہو ، دشواریاں ان کے قدموں میں تزلزل پیدا نہ کردیں ،
آپ کے صحابہ کرام کوکتنی سخت تکالیف نہیں دی گئی!بلال حبشی ؓکوعرب کی گرم ریت لٹادیا دیا گیا،عبداللہ بن حذیفہ ؓکو جب بادشاہ وقت کے حکم سے کھولتے پانی میں ڈالا جارہا تھا اس وقت آپ سے پوچھا گیا کہ ابھی موقعہ ہے اسلام ومحمدﷺکا انکار کردو، بچ جاو گے ، تو آپ نے فرمایا تھا کہ مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس صرف ایک جان ہے اگر سو جانیں بھی ہوتی تو نامِ محمد پر قربان کردیتا،حضرت خبیب ؓکو سولی پر چڑھادیا گیا،امام احمد بن حنبل ؒ کو اظہارحق کی وجہ سےجیل میں ڈال دیا گیا،کوڑے مارے گئے، تکالیف دی گئی لیکن ایمان پر ثابت قدم رہے،اس لئےاب ہمیں بھی ضروری ہے کہ ہم ایمان پر ثابت قدم رہے،” بہار ہو کہ خزاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ “حالات تو آتے ہیں ہمیں آزمانے کے لئے، بس صبرو استقامت کی ضرورت ہے،قرآن میں اللہ نے ارشاد فرمایا ،وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ (2:155)
۲۔انابت الی اللہ،
ان حالات میں ہم اللہ کی طرف رجوع کریں اپنے گناہوں سے باز آجائیں، اور اللہ کو راضی کرنے والے اعمال کریں اس لئے کہ آج کی ہماری یہ بدحالی و خستہ حالی اور زبوں حالی ہمارے ہی بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے،اللہ نے ارشاد فرمایا
”وَمَا أصابکم من مصیبة فبما کسبت أیدیکم ویعفو عن کثیر“
ترجمہ: ”اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے ہوئے کاموں سے پہنچتی ہے اور بہت سے تو اللہ درگزر ہی کردیتا ہے۔“
یہ اعمالِ بد کی ہے پاداش‘ ورنہ!
کہیں شیر بھی جوتے جاتے ہیں‘ ہل میں؟
۳۔اصحابِ علم وقلم امت میں خوف کے بجائے خواعتمادی ویقین پیدا کریں
اس وقت ضروری ہے کہ اصحاب علم وقلم مسلمانوں میں یقین و اُمید، خود اعتمادی، اور زور بازو پر بھروسہ اور حالات کو بدلنے کی قوت محرکہ ان کے اندر پیداکریں، لیکن اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اصحابِ علم اور اصحابِ قلم کے ایک طبقے نے ڈر، خوف، خود ملامتی اور مایوسی و ناامیدی ،خوف و ہراس کی اشاعت کو اپنا مشن بنالیا ہے۔ حادثات و واقعات کی مبالغہ آمیز اور کبھی غلط و بے بنیادترجمانی، مستقبل کے تعلق سے انتہائی شدید قسم کے خوف اور اندیشوں کی ترویج، ہر معاملے میں اُمت پر لعنت و ملامت اور ساری دنیا کو اپنا دشمن باور کرانے کی کوشش اِس مکتبِ دانش وری کی چندنمایاں خصوصیات بن چکی ہے جس سے ناامیدی اور مایوسی عام ہوتی جارہی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ قوموں کو مارنے کے لیے کسی دشمن کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اندیشوں ،واہموں اور خوف ہراس کا شکار ہوکر وہ اپنی موت آپ مرجاتی ہیں،اس لئے اب ضروری ہے کہ ارباب علم و قلم اس سےگریز کریں،امت مسلمہ میں خود اعتمادی پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
۴۔ تعلیمی ومعاشی پسماندگی کو دور کرنے کی فکر کریں
تعلیم ایک بنیادی عنصر ہے جس کے بغیر انسان ،انسانی اخلاق و اقدار سے آراستہ نہیں ہو سکتا ہے ،یہ وہ نسخہ کیمیا ہے جس کے بغیر معاشی پسماندگی کا خاتمہ ایک ایسا خواب ہے جو کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ہے ، اعلی تعلیم( High Education) کے بغیر نہ تو غربت دم توڑ سکتی ہے اور نہ ہی مسلم قوم عزت و وقار اور ترقی کا معیار قائم کرسکتی ہے،جو قوم جوہر تعلیم سے محروم ہوتی ہے وہ نہ تو سر اٹھا کر جی سکتی ہے اور نہ ہی جینے کا ہنر جانتی ہے ، تعجب ہے جس قوم کا ماضی اتنا شاندار تھااس کا حال اس قدر تاریک ترین کیوں ہوگیا ؟سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق بہ حیثیتِ مجموعی مسلمانِ ہند نہایت پسماندہ ہیں ،نہ تو معاشی طور پر مضبوط ہیں اور نہ ہی سماجی طور پر دیگر قوموں کے مقابلہ میں بلند معیار ہیں، رہا مسئلہ تعلیم کا تو تعلیم کے علمبردار ہونے کے باوجود مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی نہایت درجہ تشویش ناک ہے،اس لئے اب والدین کے ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلائیں ،اور مسلم تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ جلسہ وجلوس میں پیسہ خرچ کرنے کے بجائے افراد سازی میں پیسہ لگائیں ، اور ایسے افراد تیار کریں جو تعلیمی ،سیاسی،اور معاشی ہر اعتبار سے کامل ہوں،اس لئےکہ بابری مسجد کا فیصلہ آنے کے بعد موہن بھاگوت نے بڑی گرم جوشی سے یہ بیان دیاتھا “ہم افراد سازی کا کام بڑی خاموشی کے ساتھ کرتے ہیں پھر نتیجے خود بہ خود شور مچاتے ہیں” اس لئے علامہ اقبال نے کہا تھا ؎افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر/ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔
۵۔قومی یک جہتی
ایسےمخالف ماحول میں اس وقت سب سے زیادہ اس امر کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جو ماحول اور ذہن بناکر نفرت وعداوت کی کھائیاں پیداکردی گئی ہیں انھیں پاٹ کر برادران وطن تک محبت وانسانیت کا پیام پہنچایا جائے،نفرت کے جوشعلےفرقہ پرست طاقتوں نے بھڑکائے ہیں ان کو حسن اخلاق سے بھجایاجائے ؎ حسن کردار سے نور مجسم ہوجا/ابلیس بھی تجھے دیکھے تو مسلماں ہوجائے
بہ حیثیت ”خیرامت“ خواہ وہ آر ایس ایس اور شدت پسند ہندو تنظیموں کے کارکنان کیوں نہ ہوں، ہم ایک مستقل لائحہٴ عمل کے ساتھ ان سے ملیں، ان کو جلسہ وجلوس میں مدعو کیا جائے،مدارس کے نصاب و نظام تعلیم سے واقف کرایا جائے،اور گنگا جمنی تہذیب کو پھر سے زندہ کیا جائے، اسلامی اخلاق اور اسلامی تعلیمات پیش کرکے ان کے ذہن ودماغ کو کفر ونفرت کی خباثتوں سے پاک کرکے دین و صداقت کی روشنی سے منور کرنے کی کوشش کی جائے،اس کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بنانا ہوگا اور نتائج کے لیے صبر و اخلاص کے ساتھ کام میں لگے رہنا ہوگا۔
۶۔اتحادواتفاق
ہم اپنی تنظیموں،جماعتوں، اور مختلف مکاتب فکر اندراتحادواتفاق پیدا کریں بہ قول مولانا سلمان بجنوری صاحب دامت برکاتہم:
“ملک کی موجودہ حالات میں ہماری اجتماعیت وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہے، اس سلسلے میں یہ امید یا مطالبہ تو زیادہ ہی سادگی کے مرادف ہوگا کہ ہم اپنے تمام تر اختلافات بھلاکر ایک ہوجائیں اور اپنی اپنی علیحدہ شناخت ختم کردیں، ظاہر ہے کہ یہ بات عملاً ناممکن ہے؛ البتہ دوباتیں بالکل عملی ہیں اور اجتماعی معاملات میں اگر ہم نے اپنے آپ کو ان دو باتوں پر بھی آمادہ نہ کیا تو پھر ہمارا اختلاف ہماری تباہی کا سبب ہوگا اور ہم پر کوئی رونے والا بھی نہ ہوگا۔؎ متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن/منتشر ہو تو مرو شور مچاتے کیوں ہو
پہلی بات تو یہ کہ جن معاملات کا تعلق پوری ملت یا امت سے ہو، اُن میں کسی بھی طرح متحدہ موقف اپنایاجائے خواہ اُس کے لیے کوئی قربانی ہی دینی پڑے اور اس کے لیے عمومی ذہن سازی پر بھی محنت کی جائے۔
دوسری بات یہ کہ اختلاف کی بنیاد ذاتی مفاد پر نہ ہو اور کسی صحیح بات کو محض اس لیے رد نہ کردیا جائے کہ وہ دوسرے طبقہ کی جانب سے آئی ہے اور کسی غلط بات کی تائید محض اس لیے نہ کی جائے کہ وہ ہمارے حلقہ کی ہے؛ بلکہ شریعت وسنت اور ملت کے اجتماعی مفاد کو سامنے رکھ کر رائے قائم کی جائے”
جس دن یہ دونوں باتیں یعنی اپنی ذاتی اصلاح کی فکر اور اجتماعی معاملات میں اتحاد کی فکر، ہمارے مزاج کا حصہ بن جائیں گی اسی وقت سے کامیابی وکامرانی ہمارا مقدر بن جائے گی اور ہم ترقی کی راہ گامزن ہوسکتے ہیں ۔

اپنا تبصرہ لکھیں