محسن پاکستان سے ایک یادگار ملاقات

عارف محمود کسانہ


محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان عوام کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔ کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں ہوگا جو ان سے محبت نہیں کرتا اور ان کی وفات پر دکھی نہ ہوا ہو۔ میری خوش بختی ہے کہ میرا ان سے بہت قریبی تعلق تھا جو آخری دم تک قائم رہا۔ 2007 میں جب اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل سٹاک ہوم سٹڈی سرکل کی بنیاد رکھی تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان بہت خوش ہوئے جس کا اظہار انہوں نے اپنے خط میں کیا۔ قرآن حکیم کو مضامین کے اعتبار سے سمجھنے کی ہماری سعی اور دور حاضر کے مسائل کا حل انسانیت کے نام آخری وحی سے تلاش کی جدوجہد کو انہوں نے بہت سراہا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی عمومی شہرت ایک ایٹمی سائنسدان کی حیثیت سے ہے اور مملکت خداد پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں ان کا عظیم کردار ہے لیکن ان کی شخصیت کے کئی اور پہلو بھی تھے۔ وہ اردو اور انگریزی کے صاحب طرز کالم نگار تھے۔ گذشتہ دو عشروں سے ان کا ہفتہ وار کالم باقاعدگی سے شائع ہورہا تھا اور قارئین ان کے کالم کے منتظر رہتے تھے۔ ان کے کالم قرآنی تعلیمات، اسوہ حسنہ، جدید سائنسی تحقیات، اسلامی تاریخ اور سماجی موضوعات پر ہوتے تھے۔ وہ نئے لکھنے والوں کی بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے اور اپنے کالموں میں ان کی کتابوں پر تبصرہ کرکے ان کی ستائش اور پذیرائی کرتے تھے۔


میرے لئے یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ انہوں نے میری تینوں کتابوں سبق آموز کہانیاں 1، افکار تازہ اور سبق آموز کہانیاں 2 پر کالم لکھے جن سے ان کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا۔ سبق آموز کہانیاں 1 پر ان کا انگریزی کالم سویڈن میں مقیم مشرق وسطٰی کی ایک علمی اور ادبی شخصیت کی نظر سے گزرا تو انہوں نے تلاش کرکے مجھے فون کیا اور اس کتاب کی بابت مزید تفصیل جاننا چاہی۔ انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تحریر سے متاثر ہو کر اس کتاب کے عربی ترجمہ کی پیش کش کی اور پھر وہ کتاب عربی زبان میں شائع بھی ہوگئی۔ یہ محسن پاکستان کی بدولت ہی ممکن ہوا اور خدا انہیں اس کار خیر کا اجر عطا فرمائے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خودنوشت “داستان عزم” کے مطالعہ سے نہ صرف ان کی زندگی کے حالات اور جدوجہد سے آگاہی ہوتی ہے بلکہ یہ کتاب اردو ادب میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ علمی و ادبی کام کے علاوہ تعلیمی اور سماجی شعبہ میں ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ بہت سے تعلیمی اداروں سے ان کی وابستگی اور راہنمائی کبھی فراموش نہیں کہ جاسکے گی۔ ڈاکٹر اے کیو ہسپتال لاہور سے لاکھوں مریض بلا معاوضہ طبی سہولیات حاصل کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ ہسپتال ان کی انسانیت کے لئے بہت بڑی خدمت ہے اور ان کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔
میرا ان سے تعلق علم و ادب کے حوالے سے ہی تھا جو آخر دم تک قائم رہا، جو میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔ اس اپریل میں انہوں نے مجھے فون کیا اور کہا کہ ان کے ایک دوست جن کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے لیکن آج کل امریکہ میں مقیم اور وہ ماحولیات اور پانی کو آلودگی سے پاک کرنے کے حوالے سے سائینسی تحقیقات کرچکے اور چاہتے ہیں ان کے کام کو سویڈن کی رائل اکیڈمی آف سائنسز تک پہنچایا جائے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے وہ تمام تفصیلات مجھے ارسال کیں، جو میں متعلقہ حکام تک پہنچا دیں۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ سویڈن جا چکے ہیں وہاں کہ بہت سی یادیں اب بھی ان کے ذہن میں تازہ ہیں۔ میرے لئے یہ خوشگوار حیرت تھی۔ میں نے انہیں کہا کہ وہ یہ تفصیلات مجھے لکھ کر بھیج دیں جو سویڈن کے حوالے سے میری آئیندہ آنے والی کتاب “وطن ثانی” اہم حصہ ہوگی۔


دو سال قبل جب مجھے پاکستان جانے کا موقع ملا تو ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی خواہش پوری ہوئی۔ ان سے ملنا کوئی آسان کام نہیں تھا جس کا اندازہ مجھے ان تک پہنچے والے مراحل اور دوران ملاقات ہوا۔ یہ 22 نومبر کا دن تھا،سیکورٹی کے مراحل طے کرکے جونہی ہم گھر کے اندر پہنچے، ڈاکٹر صاحب بہت تپاک سے ملے۔ ہماری ملاقات میں بہت سی باتیں ہوئیں۔ انہوں نے اپنے زمانہ طالب علمی اور ہالینڈ کے دور کا بھی تذکرہ کیا۔ پاکستان کے جوہری پروگرام اور اس کے مختلف مراحل پر بھی بات ہوئی اور انہوں نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ملٹری سیکرٹری میجرجنرل امتیاز کی بہت تعریف کی اور کہا انہوں نے بہت تعاون کیا جس سے ہمیں کام کرنے میں بہت آسانی ہوئی۔ ہماری ملاقات ان کہ اہلیہ سے بھی ہوئی جو بہت خوش خلقی سے ہمیں ملیں۔ 2004 کے بعد کے واقعات اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا ذکر کرتے ہوئے ان کے لہجے کی افسردگی اور چہرے کا کرب نمایا تھا۔ جنرل مشرف کے بعد اقتدار میں آنے والوں کے رویے سے بھی وہ دکھی تھے۔ عدالتوں کی جانب سے دا رسی نہ ملنے کا بھی شکوہ کیا۔ ان تمام حالات کا ذکر کرتے ہوئے آخر میں انہوں نے ایک ایسی بات کہی کہ جسے کہتے ہوئے وہ بھی بہت دکھی ہوئے اور ہمارا بھی دل پارہ پارہ ہوگیا۔ کہنے لگے کہ جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں ہالینڈ سے پاکستان آنے پر اصرار کیا تو میں نے کہا کہ مجھے اپنی اہلیہ سے بات کرلینے دیں۔ ان کی اہلیہ پاکستان رہنے کے لئے رضامند نہ تھیں کیونکہ ان کے عمر رسیدہ والدین ہالینڈ میں تھے لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کے اصرار پر ان کی اہلیہ پاکستان میں رہنے کے لئے رضامند ہوگئیں۔ یہ بتاتے ہوئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور کہنے لگے جو سلوک میرے ساتھ ہورہا ہے اسے دیکھ کے میری اہلیہ اب کہتی ہیں کہ کاش میں نے آپ کی بات نہ مانی ہوتی اور ہم پاکستان نہ آتے۔ محسن پاکستان کیان الفاظنے ہمارا ہ دل چیر کر رکھ دیا۔ یہی کرب ان کے ان تینوں میں نمایاں ہے کہ
اس ملک بے مثال میں اک مجھ کو چھوڑ کر
ہر شخص بے مثال ہے اور باکمال ہے
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے

اپنا تبصرہ لکھیں