محافظ

تحرير ۔ راحيلہ ساجد

اس نے کبھی قريب آنے کی ہمت نہیں کی تھی اور نہ ہی کبھی کچھ کہا تھا مگر جب بھی ميں گلی ميں نکلتی تو اسے جيسے فورا” خبر مل جاتی تھی ، کہيں نہ کہيں سے نمودار ہو جاتا تھا ۔ اور جب تک ميں گلی سے نکل کر سڑک پر پہنچ کر اپنی مطلوبہ بس ميں نہ بیٹھ جاتی وہ وہيں کھڑا مجھے ديکھتا رہتا اور بس چلنے کے بعد سر جھکا کر واپس گلی کی طرف مڑ جاتا۔ يہ روز کا معمول تھا جيسے اس نے مجھے گھر سے بس تک اور بس سے گھر بحفاظت پہنچانے کی ڈيوٹی سنبھال لی ہو ۔ شام کو بھی اکثر گھر کے آس پاس گلی ميں منڈلاتا نظر آتا ،ایک دو بار سوچا بھائی کو بتاؤں پھر سوچا ، رہنے ديتی ہوں ، اس نے کبھی کچھ کہا تو نہيں۔ شروع شروع میں ڈر لگتا تھا مگر اب ميں اس کی عادی ہو گئی تھی ۔ ايک دن جاب سے واپسی پر وہ وہاں نہيں تھا مجھے حيرانی تو ہوئی مگر ميں نے اس بارے ميں زیادہ نہيں سوچا اور گھر چلی گئی محسوس ہوا کہ آج محلہ بھی ويران ہے وہ خود بھی نہيں ہے اور اس کا کوئی سنگی ساتھی بھی نہيں ہے۔۔۔۔ شام کو بھی گلی سونی پڑی تھی ، اگلی صبح بھی ميں اکيلی ہی بس کی طٖرف گئی ۔۔۔ اب مجھے فکر لاحق ہوئی کہ شايد بيمار ہے يا کسی نے اس کو ميرا پيچھا کرتے ديکھ کر ٹھکائی تو نہيں کر ڈالی ، پر خير،،،، ۔ دو تين دن اسی خيال ميں گذرے کہ بیمار ہو گا ، ٹھيک ہوتے ہی اپنی ڈيوٹی پر پہنچ جاۓ گا۔ ایک شام کو ٹی وی پر خبر چلی کہ کتوں اور گدھوں کا گوشت بيچنے والے ريسٹورنٹ سيل کر دیے گۓ ہیں تو ميں سمجھ گئی کہ ہمارے محلے ميں خاموشی کيوں ہے کہ ميرا محافظ کتااور اس کے دوست کسی ايسے شکاری کے ہتھے چڑھ گۓ ہوں گے اور اپنی زندگی کی بازی ہار گۓ ہوں گے۔۔۔۔۔۔ بات بس اتنی تھی کہ ميں روزانہ رات کو بچی روٹی دروازے کے باہر ڈال ديتی تھی اور وہ کھا لیتا تھا اور اس کا حق ادا کرنے کے لیے وہ میری رکھوالی کيا کرتا تھا ۔

اپنا تبصرہ لکھیں