ماہ نومبر

waseem-sahil-1
د ھرنے کے شوقین عمران خان نے پانامہ پیپرز پر اسلام آباد میں ایک فائنل کھیلنے کے انتظامات مکمل کر لیے ہیں اورجیسے جیسے ’دھرنے اور اسلام آباد بند
کرنے کی تاریخ قریب آ رہی ہے ویسے ویسے میڈیا کی سطح پر تجزیے ، ٹاک شوز ، تبصروں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔پی ٹی آئی نے کارکنوں سے چن کی اپیل کر دی ہے جس سے شاید یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس بار تمام بوجھ کارکنوں کے کندھوں پر ہو گا۔ دوسری جانب میاں صاحبان کے دھماکے دار بیانات دیکھیں تو یہ اندازہ ہی نہیں ہو رہا کہ وہ یہ بڑھکیں غصے میں لگا رہے ہیں یا وہ پریشانی میں نکل رہی ہیں۔ طلال چوہدری اور دانیال عزیز چابی والے گڈوں کی طرح عمران خان کے ہر بیان کے بعد چینلز اور پریس کانفرنسوں کے ذر یعے ان ا لزامات کا رخ پی ٹی آئی کی جاسے عمران خان نے اپنے سیاسی گراف کو خود ہی گرانا شروع کر دیا ہے ۔ عمران خان کے اس اقدام سے پانامہ لیکس اور خبر لیک والے معاملے دب رہے ہیں اور موضوع بحث اسلام آباد کی بندش ہی بن کر رہ گیا ہے۔
اہلییان پاکستان کے لیے ماہ نومبر سیاسی طور پر ایک نہایت تہلکہ خیز مہینے کے طور پر سامنے آتا دکھائی دے رہاہے ۔ اس ماہ ایک طرف حکومت کو پی ٹی آئی کے ساتھ فائنل کھیلنا ہے تو دوسری جانب نئے آرمی چیف کی تقرری کا امتحان بھی حکومت کے سر پر ہوگا۔ اپوزیشن کی باقی جماعتیں بھی اس صورت حال کو نہایت غور سے دیکھ رہی ہیں اور اگر حکومت کی جانب سے کسی بھی طرح کی کسی بے وقوفی یا جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا تو یہ بات یقینی ہے کہ اس کی پوزیشن مزید کمزور ہو گی۔ لہذا مسلم لیگ (ن) کو جارحانہ اقدامات اور بیانات سے اجتناب برتنی چائیے اور عوامی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے جنرل راحیل شریف کو توسیع دینی چائیے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ (ن) ان تمام چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے ماضی کی طرح اس بار بھی قوت کا جواب قوت ہی سے دینے کی روایت برقرار رکھتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو پیش قدمی کا موقع مل جائے گا اور اگلے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے لئے پنجاب اور سندھ کا محاذ مزید گرم ہو جائے گا جو موجودہ حکومت کبھی بھی نہیں چاہے گی۔ لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت ان تمام چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے جارحانہ اقدامات اور بیانات سے اجتناب برتتی ہے یا ماضی کی طرح اس بار بھی مسلم لیگ (ن) قوت کا جواب قوت ہی سے دینے کی روایت برقرار رکھتی ہے یا بے وقوفی کا مظاہرہ کرتی ہے
اپنا تبصرہ لکھیں