”ماں کے قدموں تلے جنت ہے”کیا ہم اس فرمان الہٰی پر عمل پیرا ہیں ؟

آج کی ماں بے فکری کے عالم میں محو، تربیت نہ ملنے پر اولادبے راہ روی کا شکارہوچکی ہے
ہمارے معاشرے میں ماں کا کردار اور اُس کی ذمہ داریوں پر ایک فکر آمیز تحریر

ماں جو عورت کا حسین ترین روپ ہے اور اس دنیا کا سب سے حسین اور انوکھا رشتہ بھی ہے، تو ہونٹوں سے ادا ہونے والا خوبصورت یہ لفظ جتنا مختصر ہے معنی کے اعتبار سے اتنا ہی وسیع بھی ہے۔ ماں جسکا اپنے بچے سے تعلق دنیا میں آنے سے پہلے ہی قائم ہو جاتا ہے اور آخری سانس تک رہتاہے اسکی کوکھ بچے کی ابتدائی تربیت گاہ ہوتی ہے جو اپنی راتوں کی نیند حرام کر کے بچے کی پرورش کرتی ہے۔ انگلی پکڑکر انجان راستوں سے روشناس کراتی ہے اورزمانے کے نشیب و فراز سے محفوظ رہنے کیلئے ہر وقت دعا گو رہتی ہے جسکا مقصد حیات اولاد کی بہترین پرورش ہے۔ یہاں تک کہ قدرت نے یہ منصب اور ذمہ داری سونپی ہی ماں کو ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت بہترین خطوط پر کر ے۔ چونکہ بچہ اپنی زندگی کا سب سے اہم اور بڑا حصہ ماں کے ساتھ گزارتا ہے۔ ابتدائی دور میں بچے کی شخصیت ایک کورے کاغذ جیسی ہوتی ہے اور اس کورے کاغذ پر تحریر ہونے والا ہر لفظ بہت اہم ہوتا ہے اور یہ ابتدائی الفاظ ماں بچے کو حرکات وسکنات اور عادات اور طورطریقے کی صورت میں سیکھاتی ہے اور یہی تربیت شخصیت بنانے میں اہم کر دار ادا کرتی ہے۔

یہ ممتاہی ہے جو اپنے دامن میںکانٹے سمیٹ کر اپنی اولاد پر ہر دم پھول نچھاور کرنے کی متمنی رہتی ہے۔ اسی ماں کیلئے تو ہمارے پایرے نبی ۖ نے ارشاد فرمایا۔ کہ ”جنت ماں کے قدموں تلے ہے”محترم قارئین! اگر دیکھا جائے تو اسی ماں کی ذرا سی لا پرواہی اور بے تو جہی بچے کی شخصیت کو مسخ کر دیتی ہے۔ جس سے نہ صرف بچے کا نقصان ہوتا ہے بلکہ بچے کا کردار معاشرے کیلئے بھی مفید نہیں ہوتا۔اگر آج مائیں مطمئن ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی بہترین تعلیم وتر بیت کر رہے ہیں تو پھر یہ ہمارے معاشرے میں بے راہ راوی کیوں ہے ؟ ہم سب کیلئے یہ لمحہ فکر یہ ہے کہ کہیں بدلتے وقت نے ذمہ داریاں بھی تو نہیں بدل لیں۔ ہم اس چیز کو تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ والدین کی غفلت کی وجہ سے آج ہمارے معاشرے بیگاڑ پیدا ہوچکا ہے کیونکہ تربیت ہی ٹھیک نہیں ہورہی تو نتائج کیسے بہتر ہوسکتے ہیں۔

آج ہم ایک ایسی ماں بھی دیکھتے ہیں جو بچے کی پیدائش کے بعد اسے اپنے سینے سے لگانے کی بجائے نوکروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیتی ہے۔ کیونکہ نہ تو اسے اپنی سوشل لائف خراب کرنی ہوتی ہے اور نہ ہی فیڈfeed کروا کر اپنا فِگر خراب کرنا ہوتاہے، بس وہ بچے کی پیدائش کے بعد اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآں ہو جاتی ہیں۔ کچھ ایسی مائیں بھی ہیں جو نفسانفسی اور رسہ کشی کی اس دوڑ میں انگریزی تعلیم اور مہنگے سے مہنگے سکولوں میں تعلیم دلوانے کی فکر میں توہوتی ہیں مگر دینی تعلیم و تر بیت کی انہیں کوئی فکر نہیں ہوتی۔ انگریزی نظمیں یاد کروانے کیلئے تو ان کے پاس وقت ہوتا ہے مگر چند قرآنی آیات یاد کروانے کیلئے ان کے پاس فرصت نہیں ہوتی ہے۔سٹارپلس پر آنے والے ڈراموں کے اوقات تو یاد ہوتے ہیں مگر نمازکا وقت کبھی معلوم نہیں ہوتا ۔یہی نہیں بلکہ ابتدائی تدریسی مراحل میں جب بچے کو سب سے زیادہ ماں کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے تب مائیں ٹیوشن مافیا کے اس دور میں بچے کو ٹیوشن پر بھیج کر خود بری الذمہ ہو جاتی ہے۔لیکن ایسی مائیں بھی نظر انداز نہیںہو سکتی جو ورگنگ وومن بن کر زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کی فکر اسلئے کرتی ہیںتا کہ انہیں اولاد کا سکھ اور اچھی تربیت کی فکر ہوتی ہے تاکہ وہ اچھے شہری بن سکیں ۔ایسی بے شمار مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جہاں مائیں صبح سکول یا دفاتر جانے سے پہلے بچوں کو تیار کرکے سکول چھوڑتی ہیں اور واپسی پر گھر کے کاموں کی ذمہ داری بھی احسن طریقے سے نبھاتی ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے وہ اپنے بچوں کی تربیت اچھے انداز میں کرتی ہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ ماں کا حد سے زیادہ لاڈپیار بھی بچے کو خود غرض اور سرکش بنا دیتاہے اور جو بچے جو بچپن سے والدین کی عدم توجہ کا شکار ہوتے ہیں ان کی شخصیت ادھوری ہوتی ہے اوروہ تہذیب سے بھی نا آشنا ہوتے ہیں اور وہ اپنے ا دھورے پن کا بدلہ جرائم کی شکل میں معاشرے سے لیتے ہیں۔تہذیب و تر بیت کی کمی اسلاف کے پیرو کار کی بجائے دور حاضر کے فلمی اداکاروں اور ماڈلز کے پیرو کار بنا دیتی ہے۔آج کے بگڑے بچوں کو مادرز ڈے تو یادرہتا ہے مگر ماں کا ادب واحترام معلوم نہیں۔

کیا یہی وہ تر بیت سے جس سے آج کی ماں مطمئن ہے اور جو یہ سوچتی بھی ہو گی کہ شاید ہماری ماں نے ہماری ایسی تر بیت نہیں کی جیسی ہم اپنی اولاد کی کر رہے ہیں۔تو پھر کہاں ہے ایک اور قائد ، اقبال، عزیز بھٹی، سرسید، محمد علی جوہر، شوکت علی جوہر کیوں سامنے نیہن آتے ؟خدارا!ذرا سوچئے اور روکیے اس تر بیت کو جسکو آج کی آئیڈیل تربیت مانا جاتا ہے۔اپنے بچوں کو ضرور اچھی تعلیم دلوائیے مگر مذہب سے دوری اختیار کرکے کوئی بھی بچہ اچھا مسلمان اور اچھا شہری نہیں بن سکتا۔وقت آج بھی ہمارے ہاتھ میں ہے اور ہمیں اپنے

بچوں کی ایسی تربیت کرنی چاہئے کہ وہ اچھے انسان بلکہ معاشرے کے مفید شہری بھی بن سکیں اور آگے چل کر اپنے عمل سے ثابت کر یں کہ ہاں!ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں