لاکھ کھٹکوں مگرآنکھوں میں رہونگا اس کی

غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
 
یہ ارادہ تھا امنگوں میں رہونگا اس کی
صبحوں میں، شاموں میں، راتوں میں رہونگا اس کی
 
میرے مرجھاتے ہی پھینکے گا، نہیں تھا معلوم
میں سمجھتا تھا کہ زلفوں میں رہونگا اس کی
 
ہاتھوں کو کاٹ کے تو پھینک نہیں سکتا ہے
میں بھی ہاتھوں کی لکیروں میں رہونگا اسکی
 
اور کب تک نظر انداز کریگی دنیا
لاکھ کھٹکوں مگرآنکھوں میں رہونگا اس کی
 
مجھ کو جاوید بھروسہ ہے فقط الله پر
لاکھ دشمن ہوں، پناہوں میں رہونگا اس کی
 
 

لاکھ کھٹکوں مگرآنکھوں میں رہونگا اس کی“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں