قومی ائیر لائن میں موتی کی دریافت

شازیہ عندلیب

ایک وقت تھا کہ بادشاہ وقت جب کسی سے خوش ہوتے اسکا منہ موتیوں سے بھر دیتے تھے۔گمان ہے کہ اس زمانے میں بادشاہوں اور امراء کے پاس اصلی ہیرے موتیوں کی فراوانی ہو گی۔اب بھی یہ روائیت کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔کبھی کبھار کوئی خوش ذوق کسی کیک یا سویٹ ڈش میں ہیرے موتی تو نہیں البتہ انگوٹھی وغیرہ ڈال دیتا ہے۔چنانچہ کسی خوش قسمت کو کسی تقریب میں وہ انگوٹھی مل جاتی ہے۔لیکن کھانے میں ماتی ڈالنے یا پکانے کا ارواج آج تک نہیں سنا۔البتہ دیکھ لیا ہے اور وہ بھی اپنی قومی ائیر لائن پی آئی اے میں۔پچھلے دنوں میری ملاقات ایک ضاننے والی خاتون سے ایک محفل میں ہوئی۔یہ خاتون پچھلے دنوں پاکستان کے سفر میں میری ہمسفر تھیں۔ائیرپورٹ لاؤنج میں ان سے علیک سلیک ہوئی پھر وہ اپنی سیٹ پر کہیں دور چلی گئیں۔پی آئی اے بوئنگ طیارہ بہت بڑا تھا۔اس کے بعد سامان کا انتظار کرتے وقت میں نے انہیں دور سے دیکھا کچھ مضمحل سی دکھائی دے رہی تھیں۔تقریب میں ملاقات کے بعد اپنی ہمسفر خاتون جاویدہ کا احوال پوچھا تو کہنے لگیں کہ میری طبیعت جہاز میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے کچھ بوجھل ہو گئی تھی اور پھر چاولوں میں موتی نکل آیا۔
ارے موتی۔۔۔۔یہ خبر سن کر میں چونک گئی۔میں نے کہا سنبھال کے رکھنا تھا۔۔۔اصلی تھا کیا یہ تو خوشقسمتی کی بات ہے۔اس کے علاوہ کچھ اور بھی نکلا؟ کوئی انگوٹی یا کاجھمکا وغیرہ۔۔میں نے تجسس کے مارے استفار کیا۔انہوں نے ماایوسی سے سرہلا دیا۔۔۔میں نے سنا ہے کہ پرانے زمانے میں سچے موتیوں کا کشتہ طاقت کے لیے کھایا جاتا تھا۔وہ ہنس کر کہنے لگیں نہیں اصلی نہیں تھا میں نے سنبھال کے بھی نہیں رکھا البتہ اسکی تصویر بنا لی ہے۔انہوں نے مجھے وہ یادگار تصویر بھیجی۔اگر وہ موتی پیٹ میں چلا جاتا تو کیا ہوتا وہ فکر مندی سے بولیں۔میں اب نہیں جاؤں گی پی آئی اے میں وہ روٹھنے والے انداز میں بولیں تو مجھیفکر ہونے لگی۔جو کچھ بھی ہو ہے تو پی آئی اے ہماری قومی ائیر لائن۔ہر محب وطن اس پہ سفر کرنا پسند کرتا ہے۔اس کا شمار ان چند ائیر لانز میں ہوتا ہے جو کہ اپنے مسافروں کی میزبانی دیسی کھانوں سے کرتی ہیں۔لیکن اگر مسافروں کو اس طرح کی شکایات ہونے لگیں انکا سد باب نہ کیا گیا۔کل چاولوں کی ڈش میں سے موتی نکلا اگلی مرتبہ انگوٹھی اور ٹاپس نکل آئے اور مسافر پی آئی اے سے متنفر ہونے لگے تو کہیں اسکا خسارہ مزید نہ بڑھ جائے۔انہوں نے بتایا کہ انہوں نے شکائیتائیرائن کے بھی درج کروائی تھی مگر کچھ شنوائی نہ ہوئی۔
پی آئی کی میزبانی اس سفر کی خاص پر کشش پیشکش ہے جو کہ مسافروں کو اپنائیت اور دیسی مزاج کا مزہ دیتی ہے۔ایک پاکستانی مسافر جب پی آئی کے جہاز میں داخل ہوتا ہ ے فضائی میزبانوں کے ساتھ ساتھ دیسی کھانوں کی خوشبوئیں بھی مسافروں کا استقبال کرتی ہیں۔ پی آئی کی بین الاقوامی پروازوں میں کٹیرنگ کمپنیاں تیار شدہ کھانا علیحدہ علیحدہ ڈبوں میں پیک کر کے پرواز سے پہلے رکھوا دیتی ہیں۔سامان لوڈ کرنے کا کام بھی اسی وقت کیا جاتا ہے۔جسے فضائی میزبان دوران پرواز تین مرتبہ گرم کر کے سرو کرتے ہیں۔بیشک دوران پرواز تازہ اور گرما گرم ناشتہ،لنچ،ڈنر اور چائے سے میزبانی کرنا ایک قابل تعریف خوبی ہے جو کہ وطن عزیز کے مہمان نواز ہونے کا ثبوت ہے۔یہ کھانا فضائی میزبان بہت نفاست سے ٹرالیوں کے اندر سیٹ کیے ہوئے ٹرے میں رکھ کر مسافروخو پیش کرتے ہیں۔ایسے میں کسی مسافر کے کھانے سے کسی غیر متعلقہ چیز کا نکلنا ایک معیوب بات محسوس ہوتی ہے۔یہ تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی فائیو اسٹار ہوٹل کے کھانے سے کوئی لکڑی،بال، یا کنکر نکل آئے۔اس مں یقیناً نہ تو فضائی میزبان کا قصور ہے اور نہ ہی فضائی کمپنی کا مگر اس میں قصوراس کمپنی کا ہے جہاں سے کھانا لایا گیا ہے اس ی تیاری کے دوران کسی کھانا بنانے والے یا والی کے کسی زیور سے موتی ٹوٹ کر چاولوں میں شامل ہو گیا ہو گا اور پی آئی کی ایک مسافر کی پلیٹ سے یہ موتی برآمد ہو گیا۔جو کہ خاصی نا خوشگواربات ہے۔بہر حال پی آئی اے کی سائٹ پر شکایات درج کروانے کے لیے ایک لنک موجود ہے۔وہ مسافر خاتون وہاں شکائیت درج کروا چکی ہیں۔جہاں تک آکسیجن کی کمی کی شکائیت ہے تو جن افراد کو یہ مسلہء پہلے سے ہے انہیں اس کا بندو بست پہلے سے کرنا چاہیے۔امید ہے مستقبل کی پروازوں میں پی آئی اے ان شکایات کا ازالہ کرے گی کیونکہ وہ خاتون یہ کہ رہی تھیں کہ وہ آئندہ اس میں سفر نہیں کریں گی۔میرے خیال سے اگر اسی طرح پاکستانی ہم وطن ہی اپنے وطن کی پرواز میں سفر نہیں کریں گے خدشہ ہے کہ انکی دیکھا دیکھی باقی لوگ بھی دوسری ہوائی کمپنیوں کا رخ کریں گے جو کہ نا خوشگوار بات ہو گی۔اسکا حال پاکستانی ریلوے کی طرح نہیں ہونا چاہیے۔ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے ہمیں اپنی ائیر لائن کو ہی فوقیت دینی چاہیے۔
موتی سیپ سے نکلے تو قیمتی ہوتا ہے،ہار میں جڑا ہو تو خوبصورتی اور اگر چاول کی پلیٹ سے نکلے اور وہ بھی نقلی پھر نہ قیمتی نہ ہوتا ہے نہ خوبصورت بلکہ نا خوشگوار ہوتا ہے۔جو پیٹ میں جا کر بیماری کا باعث بن سکتا ہے۔لیکن اب ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ پی آئی اے کے کھانے سے کوئی بھی چیز نکلے۔کھانا تیار کرنے والی کمپنیوں کو وارننگ دینی چاہییکہ وہ اپنے عملے کو سختی سے کھانے کی تیاری کے دوران کسی بھی قسم کا زیور استعمال کرنے پر پابندی لگائیں۔اور ان سے عہد لیں کہ وہ اس احتیاط کی پابندی کرے۔مسافر سے معذرت کے بعد تو اس سلوگن کا حصہ ہے جو قومی پرواز میں بار بار سنائی دیتا ہے کہ آپ کی خدمت میں پیش پیش قومی ائیر لائن پی آئی اے۔اگر ایسا کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش آ جائے تو متاثرہ مسافر کو اگلی فلائٹ میں اضافی سہولت دینا تو اسکا حق بنتا ہے۔تاکہ وہ ہمیشہ اپنی ائیر لائن سے خوشی اور فخر کے ساتھ جڑا رہے۔بلکہ اپنے پورے خاندان اور ملکی و غیر ملکی دوستوں کے بھی فخر سے پی آئی کو ہی استعمال کرنے کی ترغیب دے۔کیونکہ کسی بھی کامیاب کمپنی کا اصل اشتہار اسکے کلائینٹس خود ہوتے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں