قوت برداشت  کامیابیوں اور کامرانیوں کی کلید

قوت برداشت کامیابیوں اور کامرانیوں کی کلید

قوت برداشت  کامیابیوں اور کامرانیوں کی کلید

See full size image

تحریر  ،رومانہ فاروق قریشی

قوت برداشت جو زندگی کی کامیابیوںاور کامرانیوںکی کلید ہے۔اکژ اوقات اس چیز کی کمی ناقا بل تلافی نقصانات کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے کہ قوت برداشت کی کمی میں مبتلاافراد دوسروں کو حقیر اور اپنے سے کمتر سمجھتے ہیں۔کسی مفکر کا کہنا ہے ”کہ قوت برداشت کی کمی اور غصہ ہماری شخصیت میں قدم رکھتے ہی ہمیں سب سے پہلا یہ نقصان پہنچاتا ہے کہ وہ ہماری سو چ کو سمجھ سے باہر دھکیل کرذہن کے سبھی درو ازوں پر چٹخنی لگا دیتا ہے۔اور پھر شاید اسی و جہ سے غصہ ناقابل تسخیر بن جاتا ہے۔”جبکہ ماہر نفسیات کے مطابق قوت برداشت کی کمی غصے کا باعث بنتی ہے ۔جو کئی امراض کا سبب بھی ہے۔غصے کی وجہ سے بعض ذہنی اور جسمانی عوارض پیدا ہو جاتے ہیں۔جن میں ڈپریشن،شوگر،اسڑوک کے امکانات،امراض قلب،بے چینی اور درد جیسے امراض قابل ذکر ہیں ۔  لہذا یہ بات تو طہ ہے ۔کہ قوت برداشت کی کمی اور غصہ ایک ہی کیفیت کے دو نام ہیں۔حالت کوئی بھی ہوردعمل ایک ہی حیسا ہو گا۔غصے کو ہمارے مذہب میں بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔اور اسی حرام چیز کا پی جانا  (یعنی اس پر قابو پا لینا )  اللہ تعالی کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے۔اس تیز ی سے ہم میں سرایت کر رہا ہے ا ور ہم مسائل کے فولادی حصار میں مقید ہوتے جا رہے ہیں۔دوسروں کی کوتاہیوں اور غلطیوں کو درگزراور معاف کرنے کی بجائے غیض وغضب کرنا شیوہ بنا لیا ہے۔یہ بھول چکے ہیںکہ ہم بنی نوع ہیں فرشتے نہیں۔ اور انسان تو ہوتا ہے ہی غلطی کا پتلا۔۔۔۔جس سے جانے انجانے میں کھبی بھی کسی غلطی کا سر زد ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ غلطی کے مرتکب تو آدم اور حوا بھی ہوئے جنہوں نے حکم خداوندی کے باوجود غلطی کا ارتکاب کیا۔غلطی اگر جزا اور سزا تک رہے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں لیکن جب  اس میں غصے کا عنصر شامل ہو جائے تو پھر یہ شیطانی عمل کسی حدود و قیود کا پابند نہیں رہتا جسکا خمیازہ انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں بھگتنا  پڑتا ہے۔جیسا کہ آپۖ نے ارشاد فرمایا۔۔۔۔۔” غصہ شیطان سے ہے اور شیطان کی تخلیق آ گ سے ہے اور آگ کو صرف پانی سے بجھایا جاتا ہے۔ لہذا تم میں سے کوئی غصے میں ہوتو اسے چاہیے کہ وضو کرئے۔”حدیث شریف ہے کہ ایک آدمی نے آپۖ سے نصیحت فرمانے کو کہا تو آپۖ نے اسے غصہ کرنے سے منع فرمایااس نے باربار اس سوال کو دھرایا اور آپ ۖ نے اسے ہر بار غصہ نہ کرنے کی نصیحت فرمائی۔غصہ اللہ تعالی اور اسکے رسول کے نزدیک نا پسندیدہ عمل ہے۔ حقیقت ہے کہ آج ہمارے تمام معاشرتی مسائل کا سبب غصہ یا پھر باالفاظ دیگر قوت برداشت کی کمی ہی تو ہے۔ جیسے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح۔۔۔۔جب میاں وبیوی کسی ایک میں قوت برداشت کی کمی سے لفظی تکرارپر غیض وغصب یعنی غصہ غالب آجاتا ہے تو نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے۔اور یوں اس حرام چیز کی آگ اولادکو ماں باپ کی شفقت ومحبت سے محروم کر تی ہے ۔جبکہ مستقبل کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے۔معاملہ زمین کی تقسیم کا ہو یا جا ئیداد کے بٹوارے کا ہو۔بندوق کی گولی نے اس اشتعال کو انجام دیا۔اور بدلے میں عمر بھر کے پچھتا وے ا ور دکھ کے سوا کچھ نہ ملا۔ اور اب تو یہاں تک کہ والدین بھی اپنی اولاد کی غلطیوں کی اصلاح اور درگزر کرنے کی بجائے غیض وغصب اور غصے سے کام لیتے ہیں۔اساتذہ کی بھی تدریسی ذمہ داریاں اور شفقت ومحبت بھی قوت برداشت کی کمی کے بھینٹ چڑھ چکی ہے۔جبکہ آج کی نسل میں اتنا حوصلہ ہی نہیں کہ اپنے مزاج شریف کے خلاف کوئی بات برداشت کریں۔دوسروں کی کو ہتاہیوں اور غلطیوں پر خود ہی منصف بن کر فیصلہ کر دیتے ہیں۔ بھول چکے ہیںکہ غصہ ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔غصہ ہی ہمارے ایمان کو کمزور کرتا ہے۔ہماری روح کو نقصان پہنچاتا ہے۔ہمیں بے چین کرتا اور بدلے کی آگ میں سلکاتا ہے۔ہمارے قلب کی کشادگی کو تنگ کرتا ہے۔وسعت نظر کو محدود بناتا ہے۔ غصہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو آہستہ آہستہ انسان کی بہت سی خوبیوں کا قلع قمع کرتا ہے۔عقل وشعور چھین لیتا ہے اور وحشی بنا دیتا ہے۔حالات اور واقعات کو بد سے بد تر بناتا ہے ا ور پھر ان بد ترین بے قابو حالات سے فرار نشے کا عادی بھی بنا دیتی ہے۔معزز قاریئن …… کیا ایسا نہیں ہو سکتا ؟ کہ ہم کچھ ایسا کریں کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔بلکل ہو سکتا ہے مگر صرف اس صورت میںجب ہم قوت برداشت سے کام لیں۔ اپنے اندر جذباتی توازن پیدا کریں۔بات بات پر غصے کی بجائے شعوری طور پر لڑے۔دوسروں کی غلطیوں اور کوہتاہیوںپر برہمی اور اشتعال انگیزی کی بجائے ا نھیں معاف کرنے اور اصلا ح کا موقع دیں۔یقینا یہ ایک مشکل مرحلہ ہے مگر نا ممکن نہیںبس اسکی ابتدا اپنی ذات سے کرنی ہو گی ۔اور ان احادیث مبارکہ پر عمل پیرا ہونا ہو گا جو آپۖ نے غصے پر قابو پانے کے لیے ارشاد فرمائی۔ تبھی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔آپ’ۖ نے فرمایا۔۔۔”آگر تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے خاموش ہو جانا چاہیے۔””جب تم میں سے کسی کو غصہ آئیں اور وہ کھڑا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ بیٹھ جائے آگر غصہ چھوڑ دیتا ہے تو بہت اچھا آگر نہیں تو اسے چاہیے کہ لیٹ جائے””میں ایک لفظ جانتا ہوں جسکے کہنے سے غصہ خنم ہو جائے گا اور وہ ہے۔میں پناہ مانگتا ہو ں اللہ کی شیطان مردود سے ایسا کرنے سے غصہ ختم ہو جائے گا۔””ایک قاضی کو دو افراد کے درمیان فیصلہ نہیں کرنا چاہیے جب وہ غصے میں ہو۔”آپۖ نے یہ بھی فرمایا کہ وضو کرنے سے بھی غصہ کنڑو ل میں رہتا ہے۔اللہ اور اسکے رسول کے نزدیک بہترین انسان وہ ہے۔جو اپنے غصے پر قابو رکھیں۔ایسے شخص کے لیے آپۖ نے فرمایا ۔۔”بے شک اگلی دنیا میں تم میں سے میرے سب سے زیادہ قریب اور مجھے سب سے زیادہ وہ محبوب ہو گاجس نے اپنے غصے پر قابو رکھا۔ اور وہ میراسب سے بڑادشمن اور میرے سے دور ہو گا جس نے غصے پر قابو نہ رکھا ۔” ایک اور ارشادہے۔۔۔۔”کہ جو اپنے غصے پر کنڑول کرے گا انعام میں اللہ تعالی اسے جنت کی کسی بھی حور کے انتخاب کا حق دیگا”دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو غصے پر قابو رکھنے کی صلاحیت عطا فرمائیں۔ ہمیں شیطانی اثرات سے محفوظ رکھے ہمارے گناہوں کی بخشش کرے اور ہمیں آنحضور ۖ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی توفیق دیں۔تاکہ ہم ایک پرسکون ، خوشگوار اور کامیاب زندگی گزار سکیں۔  (آمین)

اپنا تبصرہ لکھیں