قطر میں جاب اور پاکستانی ویزے کے مسائل


قطر میں جاب اور پاکستانی ویزے کے مسائل
ناصر محمو د
قطرمیں آئل اینڈ گیس ڈیپارٹمنٹ میں ہر سال نئی آسامیاں اور ملازمتیںخالی ہوتی ہیں۔جبکہ حال ہی میں قطر حکومت نے ایک پراجیکٹ بنایا ہے۔اس کا تخمینہ بائیس ملین ریال ہے۔یہ پروجیکٹ میٹرو کے لیے بنایا گیا ہے۔ا س پراجیکٹ میں دو لاکھ کے قریبمختلف آسامیوں پر افرادی قوت کھپ سکتی ہے۔جبکہ پاکستانی سفارت خانہ پاکستانیوں کو ملازمتیں دلوانے کے لیے کسی قسم کی کوئی مدد یا رہنمائی نہیں دیتا۔حالانکہ یہاں پاکستانیوں کے لیے ملازمتیں حاصل کرنے کے بہت ذیادہ مواقع ہیں۔یہاں پر انڈین لابی حاوی ہے۔ وہ اپنا اثر رسوخ بھی استعمال کرتے ہیںاور اکثر انڈین ااعلیٰ پوسٹوں پر کام کر رہے ہیں اور قابل پاکستانی قابلیت ہونے کے باوجود منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔اسکی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انڈین سفارت کار یہاں بہت متحرک ہیں اور مقامی ادارے ان پر پاکستانیوں کی نسبت ذیادہ اعتبار کرتے ہیں۔انڈین کے جرائم کو تو دبا دیا جاتا ہے اور اگر پاکستانی کسی جرم کاا شارتًابھی ارتکاب کر دے تو اسکی خوب تشہیر کی جاتی ہے۔اس سلسلے میں پاکستانی سفارت خانہ کوئی مدد نہیں کرتا۔حتیٰ کہ فلپائنی اگر صرف فون پر ہی اپنے سفارت خانہ کو کوئی شکائیت لگا دیں تو وہ اپنے ہم وطنوںکی مدد کے لے فوری ایکشن لے لیتے ہیں۔
مڈل ایسٹ میں ملازمتوں کی مارکیٹنگ میں انڈین اور فلپائنی دن بدن چھا رہے ہیں جو کہ پاکستانی کمیونٹی کے لیے ایک لمحہء فکریہ ہے جنہیں بیروزگاری کا سامنا ہے۔اس کے علاوہ ایک مسلم ملک ہونے کے ناطے پاکستان کو قطر سے سفارتی تعلقات مضبوط بنانے چاہئیں اور ذیادہ سے ذیادہ افردی قوت قطر کے آئیل اور گیس فیلڈز میں بھیجنی چاہیے تاکہ ہمارے ہاں بیروزگاری کا مسئلہ حل ہو سکے۔
اب جب کہ پاکستان میں ئی حکومت نئے عزم کے ساتھ آ چکی ہے ۔نئی حکومت کو مڈل ایسٹ میں اپنی فارن پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ پاکستانی سفارت کانے کو بھی دوسرے ممالک کے سفارت خانوں کی طرح اپنی پالیسیاں اور کام کا طریقہ کار تبدیل کرنا چاہیے۔خاص طور سے قطر میں پاکستانی سفارت خانے کو آن لائن اپائینٹمنٹ کا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔اس طرح اسفارت خانے میں رش بھی نہیں ہو گا اور نہ ہی درخواست گزاروں کو لمبی لمبی لائنوں میں کھڑا ہونا پڑے گا۔اس کے علاوہ اپنا اعتماد دوسرے ممالک میں بحال کریں خاص طور سے روس اور کاغستان وغیرہ جیسے ممالک میں جہاں پاکستان کی افرادی قوت ملازمتوں میں آسانی سے کھپ سکتی ہے۔
ہماری پاکستانی حکومت کے پا س ان ممالک میں افرادی قوت کو کھپانے کے لیے کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔حالانکہ یہاں کی مقامی کمپنیوں کے پاس ملازمتوں کے بیشمار مواقع ہیں۔مگر پاکستانی گورنمنٹ کے پاس معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی لیبر بھرتی نہیں ہوتی۔اس طرح ہمارے ملک کے لوگ اس سنہری موقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔اگر پاکستانی حکومت ان سے معاہدے بنائے تو پاکستان میں بیروزگاری کامسئلہ کافی حد تک ختم ہو سکتا ہے۔ کئی افراد کو مالزمت تو مل جاتی ہے مگر ویزہ نہیں ملتا جس کی وجہ سے وہ قابلیت ہونے کے باوجود ملازمت سے محروم رہ جاتے ہیں۔اس کے علاوہ پاکستانی فارن آفس کو لیبر قوانین پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مڈل ایسٹ اور روسی ممالک میں تعمیراتی اداروں میں مزید ملازمتیں مزید سہولتوں کے ساتھ حاصل کی جا سکیں۔معاہدوں کے قوانین میں ترمیم کے ساتھ ساتھ سفارت خانوں کے کام کے طریقہ کا ر کو بھی تیز اور تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ان ممالک میں بسنے والے تارکین وطن کی تکالیف اور مسائل دور کرنے چائہیں۔یہاں قطر میں لوگ پاسپورٹ بنوانے کے لیے رات کے تین بجے جا کر لائنوں میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور شام گئے تک کھڑے رہتے ہیں۔جو کہ انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔پاسپورٹ بنوانے کے شعبے میں ڈبل شفٹ ہونی چائیے۔اس لیے کہ سفارت خانے کا مقصد عوام کی مدد کرنا ہوتا ہے نہ کہ ذلیل و خوار کرنا۔ نیا معاہدہ تشکیل دیتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم لوگ ملازمتوں کے لیے آرہے ہیں انکی غلامی کے لیے نہیں۔اس لیے کم سے کم اجرت کی جائز حد مقرر کرنی چاہیے۔ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ جس آجر کا جو جی چاہے وہ اپنی من مانی کرے۔یہاں آنے والے تمام ملازمین کو خواہ وہ لیبر ہوں یا آفیسر اپنے حقوق کا بطور ملازم اور غیرملکی
علم ہونا چاہیے۔اس مقصد کے لیے مقامی قوانین کا کورس کروانا چاہیے تاکہ کوئی ملازم بد سلوکی کا شکار نہ ہو سکے۔

اپنا تبصرہ لکھیں