قسط نمبر 37 ۔

مصحفAllah o maa asabrin

کاریڈور میں لگا سافٹ بورڈ آج کچھ زیادہ ہی چمک رہا تها یا شاید وہ اس کیلی گرافی کے کناروں پہ لگی افشاں کی چمک تهی- جو سافٹ بورڈ کے وسط میں آویزاں تهی- وہ آہستہ اہستہ چلتی ہوئی دیوار کے قریب آئی- کیلی گرافی بہت خوبصورت تهی- اس پہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے بیٹے ابراہیم کی وفات کے موقع پر کہے گئے الفاظ رقم تهے- وہ گردن اٹهائے ان الفاظ کو پڑهنے لگی-
” عبدالرحمن بن عوف نے کہا،” یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بهی روتے ہیں؟”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اے ابن عوف، یہ رحمت اور شفقت ہے-” اور آپ پهر سے رو پڑے اور فرمایا-
” بے شک آنکھ آنسو بہاتی ہے، اور دل غمگین ہے، لیکن ہم زبان سے وہی بات نکالیں گے جس پہ ہمارا رب راضی ہو- اے ابراہیم بےشک ہم تیری جدائی پہ بہت غمزدہ ہیں-”
وہ مسحور سی اسی طرح گردن اونچی اٹهائے کهڑی وہ الفاظ بار بار پڑهتی گئی- کچھ تها ان میں جو اسے بار بار کهینچتا تها-
وہ وہاں سے جاہی نہ پا رہی تهی جانے کے لیے قدم اٹهاتی مگر وہ الفاظ اسے روک دیتے اور وہ واقعی پهر سے رک جاتی-
جب تفسیر کی کلاس کا وقت ہونے لگا تو وہ بمشکل خود کو وہاں سے کهینچ لائی- قرآن کهولتے ہوئے نظر درمیان کے کسی صفحے پہ پڑ گئی-
” ہر نفس موت کا ذائقہ چکهنے والا ہے-”
وہ صفحے پیچهے پلٹنے لگی- انگلی سے ورق کا کنارہ موڑتے ہوئے ایک اور جگہ یونہی نگاه پهسلی-
” آج تم ایک موت نہ مانگو، بلکہ آج تم کئی موتیں مانگو-”
وہ سر جهٹک کر اپنے سبق پہ آئی-
آج کی پہلی آیت ہی یہ تهی-
” اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، جب تم میں سے کسی ایک پہ موت حاضر ہو جائے-”
” اوہو، مجهے کیا ہو گیا ہے؟” بے بسی سے وہ مسکرا کر رہ گئی- ” آج تو ساری موت کی آئیتیں پڑھ رہی ہوں، کہیں میں مرنے والی تو نہیں؟اف، محمل ، فضول مت سوچو اور سبق پہ توجہ دو-
وہ سر جهٹک کر نوٹس لینے لگی- موت کی وصیت کے متعلق آیات پڑهی جا رہی تهیں-
اسے یاد آیا، ابهی اس نے ایک حدیث بهی کچھ ایسی ہی پڑهی تهی-.
اچانک لکهتے لکهتے اسکا قلم پهسل گیا- وہ رک گئی اور پهر آہستہ سے سر اٹهایا-
” کیا کوئی مرنے والا ہے؟” اس کا دل زور سے دهڑکا تها- وہ خو قرآن میں پڑهتی تهی، وہ اس کے ساتھ پیش آ جاتا تها، یا آنے والا ہوتا تها- کبھی ماضی کبهی حال اور کبهی مستقبل- کوئی لفظ بے مقصد، بنے وجہ اس کی آنکهوں سے نہیں گزرتا تها- پهر آج وہ کیوں بار بار ایک ہی طرح کی آیات پڑھ رہی تهی- کیا کوئی مرنے والا ہے؟ کیا کوئی اسے چهوڑ کر جانے والا ہے؟ کیا اسے قرآن ذہنی طور پہ تیار کر رہا ہے، اسے صبر کرنے کو کہہ رہا ہے، مگر کیوں؟ کیا ہونے والا ہے؟
وہ بےچینی سے قرآن کے صفحے پلٹنے لگی-
” اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے-”
ایک سطر پڑھ کر اس نے ڈهیر سارے ورق الٹے-
” صبر کرنے والا اپنا صلہ…..”
پورا پڑهے بغیر اس نے آخرسے قرآن کهولا-
” اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہو-”
اور پهر وہ صفحے تیز تیز پلٹتی ایک نظر سے سب گزارتی جا رہی تهی-
” اور کوئی نہیں جانتا وہ کونسی زمین پہ مرے گا-”
محمل کا دم گهٹنے لگا تها- بےاختیار جیسے گهبرا کر اس نے قرآن بند کیا- اسے پسینہ آ رہا تها- دل زور زور سے دهڑک رہا تها- کچھ ہونے والا تھا- کیا وہ برداشت کر پائے گی؟ شاید نہیں، اس میں اتنا صبر نییں یے- وہ کچھ نہ برداشت کر پائے گی- کبهی بهی نہیں- اس نے وحشت سے ادهر ادهر دیکها-
میڈم مصباح کا لیکچر جاری تها- لڑکیاں سر جهکائے نوٹس لے رہی تهیں- کوئی اس کی طرف متوجہ نہیں تها- اس نے ذرا سی گردن اوپر کو اٹهائی- اوپر چهت تهی- چهت کے پار آسمان تها- وہاں کوئی اس کی طرف ضرور متوجہ تها مگر وحشت اتنی تهی کہ وہ دعا بهی نہ مانگ سکی-
تب ہی آیا اماں اسے دروازے میں نظر آئیں- ان کے ہاتھ میں ایک چٹ تهی وہ میڈم مصباح کے پاس گئیں اور چٹ ان کے آگے کی- میڈم نے لیکچر روک دیا اور چٹ تهامی-
محمل بنا پلک جهپکے انکو دیکھ رہی تهی- کیا کوئی مرنے والا تها؟ کیا کوئی اسے چهوڑ کر جانے والا تها؟
میڈم مصباح نے چٹ پڑھ کر سر اٹهایا ، ایک نگاه پوری کلاس پہ ڈالی’پهر چہرہ مائیک کے قریب کیا-
” محمل ابراہیم پلیز ادهر آ جائیں-”
اور اسے لگا، وہ اگلا سانس نہین لے سکے گی- وہ جان گئی تهی، کوئی مرنے والا نہیں تها- اب کسی کو نہیں مرنا تها- اس کا نام پکارا جا رہا تها اور اس کی ایک ہی وجہ تهی-
جسے مرنا تها، وہ مر چکا تها کہیں کوئی، اسکا پیارا، مر چکا تها-
وہ نیم جاں قدموں سے اٹهی اور میڈم کی طرف بڑهی-
” آنکھ آنسو بہاتی ہے-
دل غمگین ہے-
مگر ہم زبان سے وہی کہیں گے جس پہ ہمارا رب راضی ہو-
اے ابراہیم- بےشک ہم تیری جدائی پہ بہت غمزدہ ہیں- ”
صدیوں پہلے کہے گئے الفاظ کی بازگشت اسے سارے ہال میں سنائی دے رہی تهی- باقی ساری آوازیں بند ہو گئی تهیں- اس کے کان بند ہو گئے تهے- زبان بند ہو گئی تهی-
بس وہ ایک آواز اس کے ذہن میں گونج رہی تهی-
آنکھ آنسو بہاتی ہے-
دل غمگین ہے-
دل غمگین ہے-
دل غمگین ہے-
وہ بمشکل میڈم مصباح کے سنے کهڑی ہوئی-
جی میڈم؟”
” آپ کا ڈرائیور آپ کو لینے آیا ہے، ایمرجنسی ہے، آپ کو گهر جانا …..-”
مگر وہ پوری بات سنے بغیر ہی سیڑهیوں کی طرچ بهاگی، ننگے پاوں زینے پهلانگتی وہ تیزی سے اوپر آئی تهی- جوتوں کا ریک ایک طرف رکها تها مگر محمل کو اس وقت جوتوں کو ہوش نہ تها- وہ سنگ مر مر کے فرش پہ ننگے پاوں دوڑتی جا رہی تهی-
غفران چچا کی اکارڈ سامنے کهڑی تهی- ڈرائیور دروازہ کهولے منتظر کهڑا تها- اس کا دل ڈوب کر ابهرا-
” بی بی آپ…..”
” پلیز خاموش رہو-” وہ بمشکل ضبط کرتی اندر بیٹهی -” اور جلدی چلو-”
اس کا دل یوں دهڑک رہا تها گویا ابهی سینہ توڑ کر باہر آ گرے گا-
آغاہاؤس کا مین گیٹ پورا کهلا تها- باہر گاڑیوں کی قطار لگی تهی- ڈرائیو وے پہ لوگوں کا جم غفیر اکٹها تها گاڑی ابهی گیٹ کے باہر سڑک پہ ہی تهی کہ وہ دروازہ کهول کر باہر بهاگی- ننگے پاؤں تارکول کی سڑک پہ جلنے لگے، مگر اس وقت جلن کی پرواہ کسے تهی-
اس نے رش میں گهرے آغاجان کو دیکها، غفران چچا کو دیکها، حسن کو دیکها، وہ سب اس کی طرف بڑهے تهے- مگر وہ اندر کی طرف لپک رہی تهی- لوگوں کو ادهر ادهر ہٹاتی وہ ان آوازوں تک پہنچنا چاہتی تهی جو لان سے آ رہی تهیں- عورتوں کے بین، رونے، آه و بقا کی آوازیں-
لوگ ہٹ کر اس سفید یونیفارم اور گلابی اسکارف والی لڑکی کو راستہ دینے لگے تهے- وہ بهاگتی ہوئی لان تک آئی اور پهر گهاس کے دہانے پہ بےاختیار رک گئی-
لان میں عورتوں کا ایک ہجوم اکٹها تها- درمیان میں چارپائی رکهی تهی، اس پہ سفید چادر اوڑهے کوئی لیٹا تها- چارپائی کے چاروں طرف عورتیں رو رہی تهیں- ان کے چہرے گڈ مڈ سے ہو رہے تهے- ایک فضہ چچی تهیں- اور ہاں موعمہ چچی بهی تهیں ، اور وہ سینے پہ دوہتهڑ مار کر روتی رضیہ پهپهو تهیں، ¡اور وہ اونچی آواز میں بین کرتی مہتاب تائی تهیں- سب تو ادهر موجود تهے-
پهر کون تها اس چارپائی پی؟ کون….کون تها وہ؟-
اس نے ادهر ادهر نگاه دوڑائی ، وہاں سارا خاندان اکٹها تها- بس ایک چہرہ نہ تها-
” اماں-” اس کے لب پهڑپهڑائے-
اس نے انہیں پکارنے کے لیے لب کهولے، مگر آواز نے گویا ساتھ چهوڑ دیا- وہ وحشت سے ادهر ادهر دیکهنے لگی- شاید اسکی اماں کسی کونے میں بیٹهی ہو- مگر وہ کہیں نہ تهی اس کی ماں کہیں نہ تهی-
“محمل….. محمل-” وہ عورتیں اسے پکار رہی تهیں- اٹھ اٹھ کر اسے گلے سے لگا رہی تهیں- کسی نے راستہ بنا دیا تو کوئی میت کے پاس سے ہٹ گیا- کوئی اسے ہاتھ سے پکڑ کر چارپائی کے پاس لے آیا، کسی نے شانوں پہ زور دے کر اسے بٹها دیا- کسی نے میت کے چہرے اے سفید چادر ہٹا دی- کون کیا کر رہا تها اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تها- ساری آوازیں آنا بند ہو گئی تهیں- ارد گرد کی عورتوں کے لب ہل رہے تهے- مگر وہ سن نہ پا رہی تهی- کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں- رو رہی ہیں یا ہنس رہی ہیں- وہ تو بس یک ٹک بنا پلک جهپکے اس زرد چہرے کق دیکھ ری تهی جو چارپائی پہ آنکهیں موندے لیٹا تها- نتهنوں مین روئی ڈالی گئی تهی اور چہرے کے گرد سفید پٹی تهی- وہ چہرہ واقعی اماں سے بہت ملتا تها- بالکل جیسے اماں کا چہرہ ہو، اور شاید….. شاید وہ اماں ہی کا چہرا تها-
اسے بس ایک پل لگا تها یقین آنے میں ، اور پهر اس نےچاہا بهی کہ وہ دهاڑیں مار مار کے روئے، نوحہ کرے، بین کرے، زور زور سے چلائے، مگر وہ رحمتہ العالمین کے کہے گیے الفاظ…….
” مگر ہم زبان سے وہی کہیں گے جس پہ ہمارا رب راضی ہو-”
اور اس کے لب کهلے رہ گئے- آواز حلق میں ہی دم توڑ گئی- زبان ہلنے سے انکاری ہو گئی-
اس کا شدت سے دل چاہا کہ اپنا سر پیٹے، سنے پہ دوہتهڑ مار کر بین کرے- دوپٹہ پهاڑ ڈالے اور اتنا چیخ چیخ کر روئے کہ آسمان ہل جائے، اور پهر اس نے ہاتھ اٹهائے بهی سہی، مگر-
” جو گریبان چاک کرے اور رخساروں پر طمانچے مارے، اور بین کرے ، ہم میں سے نہیں -”
یہ ہدایت تو ابد تک کے لیے تهی-
اس کے ہاتھ اٹهنے سے انکاری ہو گئے- آنکهوں سے آنسو بہہ رہے تهے- لیکن لب خاموش تهے-
” اسے رلاؤ، اس سے کہو اونچا اونچا رو لے، ورنہ پاگل ہو جائے گی-”
” اس سے کہودل ہلکا کر لے-”
بہت سی عورتیں اس کے قریب زور زور سے کہہ رہی تهیں-
” میری بچی!” تائی مہتاب سے روتے ہوئے اسے گلے سے لگا لیا- وہ اسی طرح ساکت سی بیٹهی ماں کی میت کو دیکھ رہی تهی- آنکهوں سے آنسو گر کر گردن پہ لڑهک رہے تهے- اس کا پورا چہرہ بهیگ گیا تها، مگر زبان…. زبان نہیں ہلتی تهی-
” مسرت تو ٹهیک ٹهاک تهی ، پهر کیسے—–؟”
” بس صبح کہنے لگی سینے میں درد ہے- ہم فورا” اسپتال لے کر گئے- مگر-”
ادهوری ادهوری سی آوازیں اس کے ارد گرد سے آ رہی تهیں- مگر اسے سنائی نہ دے رہی تهیں- اس کی آنکهوں کے سامنے اندهیرا چها رہا تها- اسے لگا اسے چکر آ رہے ہیں، عجیب سی گهٹن تهی، اس کا سانس بند ہونے لگا تها-
وہ ایک دم اٹهی اور عورتوں کو ہٹاتی اندر بهاگ گئی-

جاری ہے…….!

اپنا تبصرہ لکھیں