قسط نمبر 35 ۔

مصحف
تحریر نمرہ احمد
انتخاب راحیلہ ساجد

اس نے دروازہ ہولے سے بجایا- مدهم دستک نے خاموشی میں ارتعاش پیدا کیا-
” آجاؤ محمل!” اندر سے فرشتے کی تهکن سے مسکراتی آواز آئی اس نے حیرت سے دروازہ کهولا-
” السلام علیکم- آپکو کیسے پتا کہ یہ میں ہوں؟”
” میں تمہاری چاپ پہچانتی ہوں-” وہ بیڈ پہ بیٹهی تهی، کمبل گهٹنوں پر تها – ہاتھ میں کوئی کتاب تهی- سیدهے بال شانوں پہ تهے- اور چہرے پہ ذرا سی تهکان تهی- محمل اندر داخل ہوئی تو فرشتے نے کتاب سائیڈ ٹیبل پہ ڈال دی اور ذرا کهسک کر جگہ بنائی- ” آؤ بیٹهو-”
” نائس روم- فرسٹ ٹائم آئی ہوں آپ کے ہاسٹل!” محمل ستائشی نگاہیں اطراف میں ڈالتی بیڈ کی پائینتی کے قریب بیٹهی- وہ اسکول یونیفارم میں ملبوس تهی، جبکہ فرشتے بالکل مختلف گهر کے والے حلیے میں تهی-
” پهر کیسا لگا ہاسٹل؟”
” بہت اچها اور آپ آج اسکول کیوں نہیں آئیں؟”
” یونہی- طبیعت ذرا سی مضمحل تهی-” وہ تکان سے مسکرائی- اس کا چہرہ محمل کو بہت زرد سا لگا تها- شاید وہ بیمار تهی-
” اپنا خیال رکها کریں-” پهر قدرے تؤقف سے گویا ہوئی،” آپ ہمارے گهر چل کر کیوں نہیں رہتیں؟ وہ آپ کا بهی گهر ہے، آپ کا حق ہے اس پہ، آپ کو اس گهر سے اپنا حصہ مانگنا چاہیئے-”
” مجهے مٹی کے مکان کا کیا کرنا ہے؟ وہ تو میں ایک دن خود بهی بن جاؤنگی مجهے رشتوں میں سے حق چاہیئے-”
” تو ان پہ زور دیں نا-”
” کوئی اور بات کرو محمل!”
” اف!” وہ ٹهنڈی سانس لے کر رہ گئی- ” مجهے علم ہی نہ تها کہ میری ایک بہن بهی ہے اور ساری عمر میں بہن کے لیے ترستی رہی-”
” ہم لوگوں کے ساتھ کے لیے نہیں ترستے محمل، ہم لوگوں کے ساتھ کی ” چاہ” کے لیے ترستے ہیں، اور اسی چاہ سے محبت کرتے ہیں- وہ لوگ مل جاتے ہیں تو پهر یوں لگتا ہے کہ وہ تو کچھ نہ تهے- سب کچھ تو وہ چاہ تهی جس کی ہم نے صدیوں پرستش کی تهی-”
” آپ بیمار ہو کر کافی فلسفی ہو گئی ہیں، سو پلیز، اچها سنیں ، ایک بات بتاؤں-” وہ پرجوش سی بتانے لگی- ” کل تائی اماں مجهے وسیم کے ساتھ شاپنگ پہ لے گئیں، اور میں نے شاپ میں اسے لوگوں سے پٹوایا-”
” بری بات، قرآن کی طالبہ ایسی ہوتی ہے کیا؟”
” ارے اس نے میرے ساتھ بدتمیزی کی تهی، اور اسے سبق سکهانے کے لیے یہ ضروری تها، یو نو، سیلف ڈیفینس! ہمایوں کیسا ہے؟” ایک دم اس نے پوچها اور خود بهی حیران رہ گئی-
” اب بہتر ہے-”
” اوہ شکر الحمدللہ-” وہ واقعتا” خوش ہوئی تهی- چہرہ جیسے کهل اٹها تها- فرشتے بغور اس کے تاثرات جانچ رہی تهی-
“تم اسے پسند کرتی ہو ، رائٹ؟”
اس کی نگاہیں بےاختیار جهک گئیں- رخسار گلابی پڑ گئے- اسے توقع نہ تهی کہ فرشتے اتنے آرام سے پوچھ لے گی-
“بتاؤ نا؛” فرشتے ٹیک چهوڑ کر سیدهی ہوئی اور غور سے اس کا جهکا چہرہ دیکها-
” پتا نہیں!”
” مجهے سچ بولنے والی محمل پسند ہے-”
” ہاں، شاید-“اس نے اعتراف کرتے ہوئے پل بهر کو نگاہیں اٹهائیں- فرشتے ہنوز سنجیدہ تهی-
” اور ہمایوں؟”
” ہمایوں؟” اس کے لب مسکرا دیے- ” وہ کہتا ہے، وہ بیچ راہ میں چهوڑ دینے والوں میں سے نہیں ہے-” وہ سر جهکائے مسکراتی ہوئی بیڈ شیٹ پہ انگلی پهیر رہی تهی- دوسری طرف دیر تک خاموشی چهائی رہی تو اس نے چونک کر سر اٹهایا-
فرشتے بالکل خاموش تهی- اس کے دل کو یونہی شک ہوا-” کہیں فرشتے تو ہمایوں سے….؟ آخر وہ دونوں ساتھ پلے بڑهے تهے-” اس کا دل زور سے دهڑکا-
” کیا سوچ رہی ہیں؟”
” یہی کہ جب میں ہمایوں کے لیے تمہارا رشتہ لینے جاؤنگی تو کریم چچا مجهے شوٹ تو نہیں کر دیں گے؟ آخر میں ہمایوں کی بہن ہوئی نا!”
اور محمل کهلکهلا کر ہنس دی- سارے وہم، شک شبے ہوا ہو گئے- فرشتے بهلا ایسی فیلنگز کیسے رکھ سکتی تهی؟ وہ عام لڑکیوں سے بہت مختلف تهی-
” اچها یہ دیکهو-” اس نے کتاب میں سے ایک صفحہ نکالا- ” ایک لنچ انویٹیشن – مجهے انوائیٹ کیا ہے نسیم آنٹی نے- وہ اماں کی ایک پرانی فرینڈ ہیں ، انہی کے کلب میں ہے اس سنڈے کو تم چلو گی-؟”
” مگر ادهر کیا ہو گا؟”
” یہ تو مجهے نہیں پتا- صرف لنچ ہے- آنٹی نے کہا اگر میں آجاؤں تو اچها ہے، اماں کی کچھ پرانی فرینڈز سے بهی مل لوں گی- تم چلو گی؟”
” شیور!” وہ پورے دل سے مسکرائی اور پهر کچه دیر بیٹھ کر واپس چلی آئی-

اتوار کی دوپہر وہ مقررہ وقت پہ مدرسے کے برآمدے میں کهڑی تهی- سیاہ عبایے میں ملبوس سیاہ حجاب چہرے کے گرد لپیٹے، وہ کهڑی بار بار کلائی پہ بندهی گهڑی دیکهتی تهی- عبایا وہ اب کبهی کبهی باہر پہنتی تهی، ہاں نقاب نہیں کرتی تهی، صرف حجاب لے لیتی-
دفعتا” اوپر سیڑهیوں پہ آہٹ ہوئی- محمل نے سر اٹهایا-
فرشتے تیزی سے زینے اتر رہی تهی- ایک ہاتھ میں چابی پکڑے، دوسرے سے پرس میں کچھ کهنگال رہی تهی-
” السلام علیکم، تم پہنچ گئی، چلو!” عجلت میں کہتے ہوئے اس نے پرس بند کیا، اور برآمدے کے اسٹیپس اتر گئی- محمل اس کے پیچهے ہو لی-
” ہمایوں گهر میں ہی ہو گا، مل نہ لیں؟” وہ گیٹ کے باہر رک کر بولی تو محمل مسکرا دی-
“شیور!”
وہ لاؤنج میں ہی تها، صوفے پہ بیٹهے پاؤں میز پہ رکهے ، چند فائلز کا سرسری سا مطالعہ کر رہا تها- انہیں آتا دیکها تو فائلز رکھ کر اٹھ کهڑا ہوا-
” خوش آمدید!” فرشتے کے پیچهے آتی محمل کو دیکھ کر وہ مسکرایا تها اس کا چہرہ پہلے سے قدرے کمزور لگ رہا تها- مگر ہسپتال میں پڑے ہمایوں سے وہ خاصا بہتر تها-
” میں ہمایوں کو اتنے سالوں میں بهی السلام علیکم کہنا نہیں سکها سکی، محمل اور کبهی تو مجهے لگتا ہے میں اسے کچھ بهی نہ سکها سکوں گی-”
” اچها بهئی السلام علیکم-” وہ ہنس دیا تها- ” بیٹهو-”
وہ اس کے سامنے والے صوفے پہ بیٹھ گئی، مگر فرشتے کهڑی رہی-
“نہیں ہمایوں، ہمارے پاس بیٹهنے کا وقت نہیں ہے-”
” مگر تمہاری بہن تو بیٹھ گئ ہے-”
فرشتے نے مڑ کر محمل کو دیکها جو آرام سے صوفے پہ بیٹهی تهی-
“بہن اٹهو، ہم بیٹهنے نہیں آئے-”
محمل ایک دم گڑ بڑا کر کهڑی ہو گئی-
فرشتے ہمایوں کی طرف پلٹی-
” ہم بس تمہارا حال پوچهنے آئے تهے- تم اب ٹهیک ہو؟”
” میں ٹهیک ہوں ، مگر بیٹهو تو سہی-”
” نہیں- ہمیں لنچ پہ جانا ہے، نسیم آنٹی کی طرف- اماں کی کچھ فرینڈز سے بهی مل لیں گے-”
” اور محمل؟” اس نے سوالیہ ابرو اٹهائی-
” محمل ظاہر ہے میری بہن ہے، تو میرے ساتھ ہی رہے گی نا-”
وہ بے اختیار مسکرا دیا- وہ دونوں دراز قد ، سیاہ عبایے میں ملبوس لڑکیاں اس کے سامنے کهڑی تهیں- سیاہ حجاب چہرے کے گرد لپیٹے، دونوں کی یکساں سنہری آنکهیں تهیں- یہ فیصلہ کرنا مشکل تها کہ ان میں سے کون زیادہ خوبصورت تهی- ہاں فرشتے دو انچ زیادہ لمبی ضرور…… تهی- اس کے چہرے پہ ذرا میچورٹی تهی، جبکہ محمل کے چہرے پہ کم عمری کی معصومیت برقرار تهی-…….. اور یہ وہ محمل تو نہ تهی جس سے پہلی بار وہ اسی لاؤنج میں ملا تها- سیاہ مقیش کی ساڑهی، چهوٹی آستینوں سے جهلکتے گداز بازو، اور اونچے جوڑے سے نکلتی گهنگریالی لٹوں والی، اسے اس کا ایک ایک نقش یاد تها- وہ کوئی اور محمل تهی، اور یہ عبایا اور حجاب والی کوئی اور تهی-
” ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟”
” یہی کہ تم نے محمل کو اپنے رنگ میں رنگ لیا ہے-”
” یہ میرا رنگ نہیں یے، یہ صبغت اللہ ہے، اور اللہ کے رنگ سے بہتر کون سا رنگ یو سکتا ہے-، چکو محمل ، اوکے ہمایوں، اپنا خیال رکهنا- السلام علیکم-” وہ محمل کو بازو تهامے مڑی ہی تهی کہ وہ پکار اٹها-
” سنو فرشتے-”
” ہاں، وہ دونوں ساتھ ہی پلٹیں-
” تم بہت بولتی ہو، اور تم نے محمل کو ایک لفظ بهی نہیں بولنے دیا- تمہیں معلوم ہے؟”
” مجهے معلوم ہے- اور تم نے ساری عمر تو اسی کو سننا ہے، یہ کم ہے کہ میں نے تمہیں اس سے ملوا دیا ہے؟ مگر نہیں، بے شک انسان بہت ناشکرا ہے، چلو محمل!” وہ محمل کو بازو سے تهامے اسی طرح عجلت میں واپس لے گئی- اور وہ حیرتوں میں گهرا کهڑا رہ گیا-
وہ سر جهٹک کر مسکرا دیا تها-” یہ فرشتے کو کس نے بتایا تها؟’

جاری ہے……!

اپنا تبصرہ لکھیں