قربانی کے مسائل

عید الاضحی کی نماز پڑھنے اور خطبہ سننے کے بعد استطاعت رکھنے والے پر قربانی سنت مؤکدہ اور واجب کا درجہ رکھتی ہے

دلیل
حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جو آدمی قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو پھر بھی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ میں نہ آۓ(حاکم)

جسے قربانی دینا ہو وہ ذلحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد قربانی کرنے تک ناخن اور بال نہ کاٹے۔

دلیل
حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی آدمی ذی الحجہ کی قربانی دینے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے جسم کے کسی بھی حصہ کے بال نہ کاٹے اور ناخن بھی نہ کاٹے( ابن ماجہ)

ایک ہی نفلی قربانی میں ایصال ثواب کے لئے ایک یا دو یا اس سے زائد افراد کو اپنے ساتھ شریک کرنا جائز ہے

خصی جانور کی قربانی جائز ہے۔

میت کی طرف سے قربانی کی جاۓ تو میت کو ,ثواب پہنچ جاتا ہے

حضرت عائشہ اور ابو ہریرہ سے روایت ہے

رسول اللہ ﷺ نے جب قربانی کرنا چاہتے تو دو بڑے بڑے ،موٹے تازے ،سینگوں والے چتکبرے او رخصی مینڈھے خریدتے ۔ ایک اپنی امت کی طرف سے ذبح فرماتے، یعنی امت کے ہر اس فرد کی طرف سے جو اللہ کی گواہی دیتا ہو اور نبی ﷺ کے پیغام پہچانے(اور رسول ہونے) کی گواہی دیتا ہو ۔اور دوسرا محمد ﷺ کی طرف سے، اور محمد ﷺ کی آل کی طرف سے ذبح کرتے.(ابن ماجہ 2548)

دو دانت والا (دوندا) جانور ذبح کرنا لازم ہے اگر دو دانت والا جانور نہ ملے تو پھر دو دانتوں سے کم عمر والی بھیڑ یا دنبہ ذبح کرنے رخصت ہے۔

دلیل
حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسو اللہ نے فرمایا دو دانت والے جانور کے علاوہ کسی اور جانور کی قربانی نہ کرو البتہ اگر مشکل پیش آئے تو پھر دو دانت سے کم عمر (کھیرا) کی بھیڑ(یا دنبہ) ذبح کر لو(مسلم)

حضرت عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ دو دانتوں سے کم عمر والے دنبے کی قربانی دی (نسائی)

عید الاضحی کی نماز سے قبل اگر کسی نے جانور ذبح کر دیا تو وہ قربانی شمار نہیں ہو گی۔

دلیل
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے عید الاضحی کے روز فرمایا
جس نے نماز سے قبل جانور ذبح کر دیا اسے دوبارہ قربانی دینی چاہیۓ( متفق علیہ)

اپنے ہاتھ سے قربانی کرنا مستحب ہے لیکن کسی دوسرے سے کروانا بھی جائز ہے

دلیل
حضرت جابر سے حجۃ الوداع کی حدیث میں روایت ہے کہ (رمی کے بعد) نبی اکرم قربان گاہ تشریف لاۓ اور 63 اؤنٹ اپنے دست مبارک سے ذبح کۓ باقی 37 اؤنٹ حضرت علی کو دیۓ جنہیں حضرت علی نے ذبح کیا.
آپ نے حضرت علی کو بھی اپنی قربانی میں شریک کیا پھر آپ نے ہر اونٹ کا ٹکڑا لینے کا حکم دیا جسے ہنڈیا میں ڈال کر پکایا گیا رسول اللہ صلی علیہ والہ وسلم اور حضرت علی دونوں نے اس میں سے گوشت کھایا اور شوربہ پیا (مسلم)۔

گھر کے سر پرست کی طرف سے دی گئی قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی ہے

دلیل
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کا قول ہےکہ ” ایک آدمی اپنی طرف سے اور اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا (ترمذی، ابن ماجہ)

حضرت ابو سریحہ حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی آیا ہے کہ وہ ایک بکری پورے گھروالوں کی طرف سے قربانی کرتے تھے۔(ابن ابی الدنیا)

الدعاء
یا اللہ تعالی ہمیں تیرے احکامات پر تیرے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سنت کے مطابق عمل کرنے والا بنا دے اور ہمارے نیک اعمال قبول فرما۔

آمین یا رب العالمین

اپنا تبصرہ لکھیں