قرآن و حدیث میںرحمت و شفقت کی فضیلت

قرآن و حدیث میںرحمت و شفقت کی فضیلت

قرآن و حدیث میںرحمت و شفقت کی فضیلت

علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال پنجاب پاکستان
موبائل نمبر0300-6491308
اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانے بہت وسیع ہیں ۔جبکہ نبی کریم ۖ رحمت عالمین بن کر تشریف لائے ۔رحم انسانی فطرت میں بھی رکھ دیا گیا تاکہ دنیا میں ہمدردی کی راہ پر چلا جائے ۔
کبھی اپنے آپ پر رحم کیا جاتا ہے اور کبھی دوسروں پر کیا جاتا ہے ۔اپنے آپ پر رحم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خلوصِ دل سے عبادت کی جائے ۔گناہوں سے اپنے آپ کو کنارہ کش کیا جائے اور توبہ کر کے اپنے وجود کو اللہ کے عذاب سے بچایا جائے ۔باہمی رحم و مہربانی اور نرم دلی کے ثبوت کو مسلمانوں کی صفت قرار دیا گیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :مُحَمَّد رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآ ئُ بَیْنَھُمْ ۔”محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کیساتھ والے کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل”(القرآن ،پارہ 26)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تشدد کفار کیساتھ اس حد پر تھا کہ وہ لحاظ رکھتے تھے کہ ان کا بدن کسی کافر کے بدن سے نہ چھو جائے اور ان کے کپڑے سے کسی کافر کا کپڑا نہ لگنے پائے ۔اور ایک دوسرے پر ایسی محبت و مہربانی کرنے والے تھے جیسی محبت باپ بیٹے میں ہوتی ہے اور یہ محبت اس حد تک پہنچ گئی کہ جب ایک مومن دوسرے مومن کو دیکھتا تو فرطِ محبت سے مصافحہ و معانقہ کرتا۔ (تفسیر خزائن العرفان)
تو جب آپس میں رحم و مہربانی کرنا مسلمانوں کی صفت اور شان ہی ہے تو مسلمانوں کو چاہئے کہ جو چیز اپنے لئے پسند نہ کریں وہ مسلمان بھائی کے لئے بھی پسند نہ کریں ۔آقائے دو جہاں ۖ فرماتے ہیں :
”قسم ! اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوتا جبتک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔”(مشکوٰة )
یعنی ہر مسلمان کے لئے دنیا و آخرت کی خیر چاہو جو اپنے لئے چاہتے ہو اور مسلمان بھائی کے لئے ضرر و نقصان کی خواہش نہ رکھے ۔تو اب ہم غور کریں اور دیکھیں کہ ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو اپنی طرح دوسرے بھائیوں کے لئے بھی خیر چاہتے ہیں ۔ تو بہت کم ہی لوگ اس خوبی کے حامل نظر آئیں گے ۔رحم و شفقت کا بڑا مظاہرہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ کسی مسلمان کو اپنے ہاتھ اور زبان سے اذیت و تکلیف نہ پہنچائیں۔
آقائے دو جہاں ۖ فرماتے ہیں :”مسلمان وہ ہے جس کی زبان وہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں ۔”(مشکوٰة )
یعنی کامل مسلمان وہ مومن ہے جو کسی مسلمان کی غیبت نہ کرے ، گالی نہ دے ،طعنہ چغلی وغیرہ نہ کرے ۔یہ زبان سے محفوظ رکھنا ہوا اور کسی کو نہ مارے پیٹے او رنہ اس کے خلاف کچھ تحریر کرے ۔یہ ہاتھ سے محفوظ رکھنا ہوا۔
لیکن ہم میں سے کتنے مسلمان ایسے ہیں جو بلا جھجھک اپنے بھائی کو مارتے بھی ہیں ۔گالی بھی دیتے ہیں ،غیبت اور چغلی وغیرہ بھی کرتے ہیں تو حدیث رسول ۖ کی بنیاد پروہ کامل مسلمان نہیں۔
مسلمانوں کو اذیت و تکلیف پہنچانا کس قدر مذموم حرکت ہے اور انہیں راحت دینا کتنا سود مند ہے اس کا اندازہ ان احادیث کریمہ سے بخوبی لگ جاتا ہے ۔
آقائے دو جہاں ۖ فرماتے ہیں :” کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ دوسرے مسلمان کی طرف آنکھ سے اس طرح اشارہ کرے ،جس سے اسے تکلیف پہنچے اور نہ یہ جائز ہے کہ ایسا کام کرے جس سے مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیلے ۔”(کیمیائے سعادت)
حضرت مجاہد رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :”کہ اللہ تعالیٰ اہل دوزخ پر ایک خارش مسلط کریگا وہ اس قدر اپنے جسموں کو نوچیں گے کہ ہڈیاں ننگی ہو جائیں گی ۔پھر ایک منادی ندا کریگا اس خارش کی تکلیف کیسی ہے ؟ اہل دوزخ کہیں گے یہ بہت سخت عذاب کی چیز ہے ،فرشتے کہیں گے یہ اس وجہ سے ہے کہ تم لوگ دنیا میں مسلمانوں کو اذیت اور تکلیف دیا کرتے تھے ۔”
اور رسول اللہ ۖ فرماتے ہیں :”میں نے جنت میں ایک شخص کو دیکھا جو کیف و مستی میں جھومتا پھرتا تھا یہ مقام اُسے محض اتنی سی بات سے حاصل ہوا کہ دنیا میں اس نے ایک راستے سے ایسا درخت کاٹ دیا تھا جس سے گزرنے والوں کو تکلیف ہوتی تھی ۔”
مسلمانوں کو چاہئے اپنے بوڑھوں کی عزت کریں اور چھوٹوں سے شفقت و نرمی کیساتھ پیش آئیں۔
آقائے دو جہاں ۖ نے فرمایا ہے :” جو شخص بوڑھوں کی عزت اور چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے اور فرمایا سفید بالوں کی عزت کرنا اللہ تعالیٰ کی عزت کرنا ہے اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو ان بوڑھوں کی عزت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بڑھاپے کے وقت کسی جوان کو اس کی خدمت پر مامور کرتا ہے ۔جو اس کیساتھ عزت و حرمت سے پیش آتا ہے ۔یہ اس جوان کی زیادتی عمر کی دلیل ہے کیونکہ جسے مشائخ کی تعظیم و توقیر نصیب ہوتی ہے تو اس امر کی بشارت ہے کہ یہ خود بھی بڑھاپے تک پہنچے گا ۔تاکہ اس نیک کام کی جزا ء اسے بھی اللہ تعالیٰ عطافرمائے ۔”(کیمیائے سعادت)
حضور اکرم ۖ کا دستور مبارک تھا کہ جب آپ سفر سے واپس تشریف لاتے تو لوگ اپنے بچوں کو آپ کی خدمت میں پیش کرتے آپ ۖ ان کو اپنی سواری پر بٹھا لیتے ،بعض کو اپنے آگے اور بعض کو اپنے پیچھے اور بچے آپس میں فخر کرتے کہ رسول اللہ ۖ نے مجھے آگے بٹھایا اور تجھے پیچھے ۔اور لوگ اپنے چھوٹے بچوں کو حضور اکرم ۖ کی خدمت میں لے جاتے تاکہ آپ نام تجویز کریں اور دعا کریں تو آپ بچے کو لیکر اپنی گود میں بٹھا لیتے ۔بعض اوقات بچہ آپ کی گود میں پیشاب کر دیتا لوگ شور مچاتے اور گود سے اُٹھانے کی کوشش کرتے مگر آپ ۖ فرماتے اب گود میں ہی رہنے دو تاکہ مکمل طور پر پیشاب کرے ۔اب اس پر سختی نہ کرو اور پیشاب نہ روکو۔ پھر آپ بچے کے والدین کے سامنے پیشاب نہ دھوتے تاکہ وہ رنج و تکلیف محسوس نہ کریں ۔جب وہ باہر چلے جاتے تو آپ دھو کر کپڑا پاک کر تے ۔(کیمیائے سعادت)
لیکن ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ملیں گے جو اپنے بوڑھوں کی ہنسی مذاق اُڑاتے رہتے ہیں اور بلا جھجھک بے تکی باتیں کہہ دیتے ہیں اور بچوں کیساتھ بے رخی اور سختی سے پیش آتے ہیں جو ایک مسلمان کی شان سے کوسوں دور ہے لیکن یہ اسلام کا بتایا ہوا طریقہ نہیں ۔
مسلمانوں کو چاہئے کہ جب کوئی آدمی کسی مسلمان کی شان میں زبان درازی کرے یا اس کے مال پر قبضہ جمانا چاہے تو اس کی عدم موجودگی میں بھی اس کی طرف سے جوا ب دیںاور اس پر ظلم کرنے سے اسے روکیں ،کیونکہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا ”جس کے پا س اسکے مسلمان بھائی کی غیبت کی جائے اور وہ اسکی مدد پر قادر ہو پھر وہ اسکی مدد کرے تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اسکی مدد کرے گا۔ لیکن مدد پر قادر ہوتے ہوئے اگر اسکی مدد نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس جرم پر اسے دنیا و آخرت میں پکڑے گا۔(مشکوٰة )
یعنی اگر کسی کے سامنے کسی مسلمان کی غیبت کی جائے خواہ وہ اس کا عزیز ہو یا اجنبی ہوتو اس نے اس شخص کی مدد کی اس طرح کے غیبت کرنے والے کو غیبت سے روک دیا ۔اسطرح اسکی غیبت کا جواب دے دیا تو اللہ تعالیٰ ایسے بندے کی دنیا و آخرت میں مدد کریگا ،کیونکہ اس نے محض اللہ کے لئے اللہ کے بندے کی  پس پشت مدد کی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندے کا بدلہ خود دیتا ہے دنیا وی آفات اور اخروی مصیبتوں سے بچا کر ۔
سرکارِ کائنات ۖ نے یہ بھی فرمایا کہ :”اگر کوئی مسلمان آدمی کسی مسلمان کو ایسی جگہ رسوا کرے جہاں اسکی بے عزتی اور آبرو ریزی کی جا رہی ہو ،تو اللہ تعالیٰ اسے ایسی جگہ میں ذلیل کریگا جہاں وہ اپنی مدد چاہتا ہو گا اور اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کی ایسی جگہ مدد کرے جہاں اسکی عزت گھٹائی جا رہی ہو اور اسکی آبرو ریزی کی جا رہی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی ایسی جگہ مدد کریگا جس میں اللہ کی مدد اسے محبوب ہو گی ۔(مشکوٰة )
یعنی اگر کچھ لوگ کسی مسلمان کی آبرو ریزی کر رہے ہوں تو یہ بھی ان کیساتھ شریک ہوکر انکی مدد کرے اور ان کی ہاں میں ہاں ملائے ۔تو اللہ تعالیٰ اس جرم کی سزا میں اسے ایسی جگہ ذلیل کریگا جہاں اسے عزت کی خواہش ہو گی اور اگر اس نے اس مسلمان بھائی کی مدد کی جس کی آبروریزی کی جا رہی تھی تو دنیا و آخرت جہاں بھی اسے مدد کی ضرورت ہو گی تب اللہ تعالیٰ اسکی مدد فرمائے گا۔ پھر بھی ہم میں سے بہت سے افراد ایسے ملیں گے جو مسلمان بھائی کی ذلت و رسوائی اور آبرو ریزی سے اس قدر خوش ہوتے ہیں کہ خود بھی اس مذموم اور لائق ملامت فعل میں شریک ہو کر اپنے ضرر و نقصان کا راستہ صاف کرتے نظر آتے ہیںمسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے پڑوسیوں کیساتھ رحمت و شفقت اور نرم دلی کا مظاہرہ کرتے رہیں۔
آقائے دو جہاں ۖ فرماتے ہیں :” اللہ کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہیں جو اپنے ہمراہیوں کیلئے بہتر ہوں اور اللہ کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہیں جو اپنے پڑوسی کے لئے بہتر ہوں۔”(مشکوٰة )
یعنی مسلمان کو چاہئے کہ ہر ساتھی کیساتھ اچھا سلو ک کرے ان کی خیر خواہی کرے ،انہیں بری باتوں سے روکے اور انہیں اچھی راہ دکھائے ۔ عبادات کی درستی سے بھی زیادہ اہم ہے معاملات دوستی ۔ چونکہ پڑوسی سے ہر وقت معاملہ رہتا ہے ۔اسلئے اس سے اچھا بر تائو کرنا بہت ضروری ہے اسکے بچوں کو اپنی اولاد سمجھے اسکی عزت و ذلت کو اپنی عزت و ذلت سمجھے ،پڑوسی اگر کافر بھی ہو تب بھی پڑوسی کے حقوق ادا کرے ۔
حضرت بایزید بسطامی رحمة اللہ علیہ کا یہودی پڑوسی ایک مرتبہ سفر پر گیا ہوا تھا اور اسکے بال بچے گھر پر ہی تھے ۔رات کو یہودی کا بچہ روتا تھا ۔آپ نے پوچھا ! بچہ کیوں روتا ہے ؟ یہودن بولی گھر میں چراغ نہیں ہے ۔بچہ اندھیرے میں گھبرا تا ہے تو اس دن سے آپ چراغ میں تیل ڈالتے اور روشن کر کے یہودی کے گھر بھیج دیتے ۔جب یہودی لوٹا اور اسکی بیوی نے یہ واقعہ سنایا تو یہودی بولا جس گھر میں بایزید کا چراغ آگیا وہ اندھیرے میں کیوں رہے پھر وہ سب مسلمان ہو گئے ۔”(مراء ة المناجیح)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ۖ سے عرض کیا !یا رسول اللہ ۖ !میں کیسے جانوں کہ میں نے بھلا کیا ہے یا برا کیا ہے ؟تو نبی کریم ۖ نے فرمایا ! جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم نے بھلائی کی تو واقعی تم نے بھلائی کی اور جب تم انہیں کہتے سنو کہ تم نے برائی کی تو واقعی تم نے برائی کی ۔(مشکوٰة )
یعنی صحابی نے عرض کیا مجھے تو اپنے سارے کام ہی اچھے معلوم ہوتے ہیں مگر حقیقت میں اچھے کام اور برے کام کی علامت کیا ہے ؟تو حضور اکرم ۖ نے فرمایا ! معاملات میں اچھائی برائی کی علامت یہ ہے کہ تمہارے سارے پڑوسی قدرتی طور پر تمہیں اچھا کہیں یا برا کہیں اور قدرتی بات ہے کہ بعض بندوں کے لئے خود بخود منہ سے اچھائی نکلتی ہے ۔(مرا ء ة المناجیح)
حضور اکرم ۖ نے یہ بھی فرمایا:”ہمسایہ کا حق یہ ہے کہ اگر وہ تجھ سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرو ۔اسے قرض کی ضرورت پیش آئے تو قرض دو ، غریب ہو تو اس کی امداد کرو ،بیمار پڑے تو اس کی بیمار پرسی کرو ۔فوت ہو جائے تو اس کے جنازے کیساتھ جائو ،اسے خوشی نصیب ہو تو مبارک باد دو ۔ مصیبت میں گرفتار ہو تو اس کی ہمدردی کرو، اپنے گھر کی دیوار بلند نہ کرو تاکہ اسے ہوا پہنچنے میں رکاوٹ نہ ہو جب تم میوہ کھائو ایسا نہ کرو کہ تیرے بچے میوے ہاتھ میں لئے باہر نکلیں اور ہمسائے کے بچے دیکھ کر اس پر غصہ کریں اور جو کچھ پکائو اس میں سے اسے بھی دو تاکہ وہ غم نہ منائے ۔ مزید آپۖ نے فرمایا جانتے ہو ہمسائے کا کیا حق ہے ؟اس خدا ئے واحد کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کوئی ہمسائے کا حق ادا نہیں کر سکتا مگر وہی جس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو ۔”(کیمیائے سعادت)
ہمسائیوں کیساتھ رحمت و شفقت کی اس قدر تاکید کے باوجود زیادہ تر ہمسایہ ہی کو ظلم و ستم اور زیادتیوں کا شکار بنایا جاتا ہے ۔کبھی اس کا پانی بند کیا جائے ،کبھی اس کا راستہ روکا جاتا ہے ،کبھی ہمسایہ کی ترقی اور کامیابی دیکھ کر حسد و کینہ کو دل میں بسایا جاتا ہے اور ہمسایہ پر اپنی بالا دستی قائم کرنے کے لئے طرح طرح کے طریقے اپنائے جاتے ہیں ۔جو بہت ہی مذموم عمل ہے کیونکہ پڑوسی تو محافظ اور سہارا ہوتا ہے ۔پڑوسی تو ہمدرد اور غمگسار ہوتا ہے ۔اسلئے اسے وہی کردار اپنانا چاہئے جو اسکی شان اور وقار کے لائق ہے اور ایک بہترین پڑوسی ہونے کا پورا پورا ثبوت پیش کرنا چاہئے ۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ یتیموں کیساتھ شفقت و محبت اور بھلائی سے پیش آئیں اور اس عمل سے ایک بہت بڑی خوبی او رکمال کو اپنے دامن میں سمیٹ لیں۔
آقائے دو جہاں ۖ فرماتے ہیں:”بہترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کیساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور بد ترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اسکے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے ۔”(مشکوٰة )
یعنی جس گھر میں یتیم کے کھانے اور پینے اور اسکی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جائے اور اسے دیندار بنایا جائے ۔غرضیکہ جو سلوک اپنے بچے سے کیا جاتا ہے وہ یتیم سے کیا جائے ۔تو فرمانِ رسول ۖ کے مطابق وہ بہترین گھر ہے ۔لیکن جہاں ان چیزوں کے خلاف عمل کیا جاتا ہو وہ بدترین گھر ہے ۔اس حدیث پاک میں اذیت دینے سے مراد بغیر حق کے اذیت دینا ہے ،تو اگر کسی تعلیم و تربیت کیلئے اسے اذیت دی اور مارا تو یہ برا نہیں بلکہ یہ اس کی اصلاح ہے ۔
ایک اور ارشاد ہے نبویۖ :”جو اللہ کے لئے کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرتا ہے تو اسکے ہر بال کے بدلے جس پر اس کا ہاتھ پہنچا ہو گا نیکیاں ہوں گی اور جو اپنے پاس رہنے والے یتیم یا یتیمہ سے بھلائی کرے تو وہ اور میں جنت میں ان کی طرح ہوں گے اور اپنی دو انگلیاں ملائیں ۔”(مشکوٰة)
تو جب محبت کیساتھ صرف ہاتھ پھیرنے پر اجر و ثواب ہے تو اگر یتیم کی خدمت کی جائے ۔اسے تعلیم و تربیت دی جائے اور اس پر مال خرچ کیا جائے تو پھر اجر و ثواب کا کیا حال ہو گا۔
یتیموں پر رحمت و شفقت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہو جاتا ہے کہ شیطان لعین اس کوشش میں ہوتا ہے کہ لوگ یتیموں سے نفرت کریں اور کراہت و بیزاری سے پیش آئیں۔
چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک مرتبہ کہیں جا رہے تھے تو آپ نے شیطان کو دیکھا کہ ایک ہاتھ میں شہد اور دوسرے میں راکھ لئے جا رہا ہے آپ نے پوچھا ! اے دشمن خدا ! یہ شہد اور راکھ تیرے کس کام آتی ہے شیطان نے کہا ! شہد غیبت کرنیوالوں کے ہونٹوں پر لگاتا ہوں ۔تاکہ وہ اور آگے بڑھیں اور راکھ یتیموں کے چہروں پر ملتا ہوں تاکہ لوگ ان سے نفرت کریں ۔(مکاشفة القلوب)
تو یتیموں کیساتھ حسن سلوک کی اتنی بڑی اہمیت کے باوجود بہت سی ایسی مثالیں بھی ملیں گی جو ظلم و ستم سے تعبیر ہیںحتیٰ کہ بہت ہی قریبی رشتہ رکھنے والے یتیموں پر بھی زیادتی سے باز نہیں آتے ہیں ۔جو دنیا و آخرت میں ضرر و نقصان کا بہت بڑا سبب ہے ۔
آپس میں رحمت و شفقت اور نرم دلی کی اہمیت کا اندازہ ان روایتوں سے بھی بڑے واضح طور پر ہوتا ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک رات گشت لگا رہے تھے کہ آپ کا گزر ایک قافلہ سے ہوا ۔تو آپ کو اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں کوئی ان کا سامان چوری نہ کرے ۔لہٰذا گشت سے فارغ ہو کر قافلہ کی طرف روانہ ہوئے راستہ میں حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پوچھا حضرت اس وقت آپ کہاں جا رہے ہیں ؟آپ نے فرمایا! قریب ہی ایک قافلہ اُترا ہے مجھے ڈر ہے کہ کہیں کوئی چوران کا سامان نہ لے جائے چلو ہم انکی نگہبانی کریں ۔پھر یہ دونوں حضرات جا کر قافلہ کے قریب بیٹھ گئے اور ساری رات پہرہ دیتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے آواز دی ۔ اے قافلہ والو! نماز کیلئے اُٹھو جب قافلہ والے جاگ گئے تو یہ حضرات واپس لوٹ گئے ۔(مکاشفہ القلوب )
یہ تو ہمارے بزرگوں کی خوبی تھی کہ دوسروں کے سامان کی حفاظت کی خاطر ساری رات اپنی نیند کو قربان کرتے رہے ،لیکن ہم میں سے کتنے ایسے ملیں گے کہ جب انہیں ایسا موقعہ مل جائے تو وہ دوسروں کی ہمدردی کیا کریں ۔بلکہ اس فکر میں نظر نہ آئیں گے بلکہ یہ سوچیں گے کہ کتنا مال ہڑپ کر لیا جائے اور کتنا مال چرا لیا جائے ،یہاں تک کہ اگر انہیں موقع مل جائے تو سارا مال ہی غائب کر دیں ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ حضور اکرم ۖ نے فرمایا :”جو شخص کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لئے چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ ہر قدم کے بدلے اسکے نامۂ اعمال میں ستر نیکیاں لکھ دیتا ہے اور اسکے ستر گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔پھر اگر وہ حاجت اسکے ہاتھوں پوری ہو جاتی ہے تو وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو جاتا ہے ۔جیسے ماں کے پیٹ سے آیا تھا اور اگر وہ اسی درمیان مر جائے تو بلا حساب جنت میں جائے گا،”(مکاشفة القلوب)
اس روایت سے رحمت و شفقت اور نرم دلی کی عظمت و وقار اور حیثیت کا اندازہ لگائیے ! کہ ایسا بندہ احسان و بھلائی اور رحمت اور نور سے ڈھانپ دیا جاتا ہے ۔تو وہی شخص اس عظیم خوبی کو اپنا نے سے کترائے گا جو آخرت کے بارے میں فکر مند نہ ہوگا ۔ایک روایت میں آیا ہے کہ قوم بنی اسرائیل پر ایک مرتبہ بڑا سخت قحط پڑا اسی قحط کے زمانہ میں ایک عابدریت کے ایک ٹیلے سے گزر رہے تھے کہ انکے دل میں خیال پیدا ہوا کاش! یہ ریت کا ٹیلہ آٹے کا ہوتا تو میں اس سے بنی اسرائیل کے پیٹ بھرواتا تاکہ یہ قوم بھوک کی تکلیف سے نجات پاجاتی ۔عابد کے دل میں اس خیال کا آنا تھا کہ رب تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے نبی کی طرف وحی بھیجی ،میرے اس بندہ سے کہہ دو کہ تجھے اس ٹیلے کے برابر بنی اسرائیل کو آٹا کھلانے جتنا ثواب ملتا ہے ۔ہم نے تمہاری اس نیت کی بدولت تمہیں اتنا ثواب دے دیا ہے ۔”(مکاشفة القلوب)
تو جب احسان و بھلائی کے ارادہ او رحسن نیت کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ بندے سے اس قدر خوش ہوتا ہے تو پھر اگر عملی اقدام کیا جائے اور بندے کی رنج و مشقت اور تکلیف دور کی جائے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندہ سے اور بھی کتنا راضی ہو گا ۔
حضور اکرم ۖ کا یہ بھی ارشاد موجود ہے ۔:”کہ ایک شخص سفر میں تھا کہ راستہ میں اسے سخت پیاس کا احساس ہوا ۔اسے قریب ہی ایک کنواں نظر آیا وہ کنویں کے پاس گیا اور اپنی پیاس کو بجھالیا ۔ جب وہ پانی پی کر چلا تو کیا دیکھتاہے کہ ایک کتا پیاس کی تکلیف سے زبان باہر نکالے پڑا ہے ۔اسے خیال آیا کتے کو بھی میری طرح پیاس کی تکلیف ستا رہی ہو گی وہ واپس گیا او رمنہ میں پانی بھر کر کتے کے پاس آیا اور اسے پلا دیا ۔تو اللہ تعالیٰ نے محض اسی رحم کی بدولت اس کے گناہوں کو معاف کر دیا ۔”(مکاشفة القلوب)
غور کیا جائے کہ جب ایک کتے کیساتھ نرم دلی اور رحم و کرم کا اتنا بڑا بدلہ ہے تو جب انسانوں اور خاص کر مسلمانوں کیساتھ رحمت و شفقت اور ہمدردی کی جائے ۔ تو پھر اللہ تعالیٰ کی بخشش و عنائیت کا کیا حال ہو گا۔ لیکن ہم ان باتوں کی طرف توجہ دیتے ہی نہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں جذبۂ رحمت و شفقت سے نوازے ۔آمین !

اپنا تبصرہ لکھیں