قحط زدہ شامی قصبے مدایا میں دردناک مناظر

ریڈ کراس کی جانب سے شام کے شہر مدایا میں خوراک کی رسد پہنچانے والے گروپ کی رکن خاتون نے بتایا کہ جب خوراک کا ٹرک شہر میں پہنچا۔لوگ نہائیت خاموشی سے خوراک کے انتظار میں شہر کی مرکزی مارکیٹ میں کھڑے ہو گئے۔کسی کے چہرے پر مسکراہٹ نہ تھی۔لوگ وں کے چہروں پر نقاہت تھی وہ کمزور اور بیمار نظر آ رہے تھے۔بچوں نے بتایا کہ ان میں کھیلنے کی الکل خواہش نہیں تھی۔یہ شہر پچھلے ڈیڑھ سال سے قابضین کے کنٹرول میں تھا۔ریڈ کراس کی اہلکار ہفنے کہا کہ شہر میں پہلے ی اٹھائیس اموات فاقے کی وجہ سے و چکی ہیں۔انہوں نے شامی حکومت سے اپیل کی کہ وہ ملک کے ہسپتال طبّی امداد کے لیے کھول دیں۔انہوں نھے بتایا کہ کچھ لوگ کھنا ملنے پر خوش تھے مگر کچھ لوگ اس قدر کمزور تھے کہ خوشی کا اظہار نہیں کر سکتے تھے۔جبکہ کچھ پوچھ رہے تھے کہ انہوں نے آنے میں اتنی دیر کیوں لگا دی۔جبکہ پچھلی مرتبہ ماہ اکتوبر میں وہاں خوراک دی گئی تھی۔
سخت سردی میں شہر اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔پورے شہر میں خوراک اتنی کم ہے کہ چاول دو ہزار سات سو کرونے کلو کے ملتے ہیں۔ایک خاندان نے اپنی موٹرسائیکل پانچ کلو چاول حاصل کرنے کے لیے بیچ دیا۔ملک سجاد جو کہ اقوام متحدہ میں مہاجر کمیشن کے نمائندے ہیں کا کہنا ہے کہ اس شہر کی وگرگوں صورتحال کی مثال دینا مشکل ہے۔
NTB/UFN