قبول اسلام کے بعد پہلا سجدہ

pehla sajda

تحریر ساجدہ
اوسلو
دراصل قبول اسلام کے بعد یہ میرا پہلا سجدہ تھا۔خالق و فرمانروان ء کائنات ایک ہی ہے۔اس نے انسانی ہدائیت و رہنمائی کے لیے پیغمبروں کو مبعوث کیا۔اس سچائی کو پا لینا گویا دنیا کی سب سے بڑی سچائی کو پا لینا ہے۔انسان مخلوق ہونے کے ناطے اس کے ہاں مسعول ہے۔یہ حقیقت ان تمام گتھیوں کو سلجھانے میں مدد دیتی ہے جو اس حقیقت سے منہ موڑ کر الجھنیں پیدا کر رہی ہیں۔اور انسان اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے۔کم و بیش یہ خیالات ان تمام نو مسلم سسٹرز کے رہیں جن سے میری ملاقات رہی ہے۔قبول اسلام کے بعد تسلیم و رضاء کے عین وہ لمحات جب انسان اپنی پیشانی زمین پر ٹکاتا ہیان کا مشاہدہ کرنے کا بارہا مجھے موقعہ ملا ہے۔کچھ عرصہ قبل مجھے ایک خاتون کو قبول اسلام کے بعد وضو اور نماز سکھانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔مسجد میں ہماری ملاقات ہونا طے پائی۔جب ہم مسجد پہنچے تو نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا۔میں نے انہیں وضو سکھایا اور انہیں کہا کہ یہاں ایک طرف ہو کر بیٹھ جائیں۔میں با جماعت نماز پڑھ لوں پھر آپکو نماز سکھائوں گی۔کہنے لگی مجھے اگرچہ نماز کے الفاظ نہیں آتے مگر میں کیا نماز میں شامل ہو سکتی ہوں۔میں نے کہا کیوں نہیں یقیناً آپ شامل ہو سکتی ہیں۔امام کے ساتھ تقبیر کہ کر ہم نے ہاتھ بلند کیے تو اس نے بھی ہماری تقلید میں تکبیر کہی اور سینے پر ہاتھ باندھ لیے۔پہلی رکواة میں سجدے سے ہم اتھے تو وہ سسٹر سجدے سے نہ اٹھی۔ہم نے نماز مکمل کر لی مر وہ بدستور حالت سجدہ میں تھی۔نماز کے بعد بھی میں کافی دیر منتظر رہی۔بالآخر میں نے سجدہ سے اٹھایا ا آنکھیں آنسووں سے تر تھیں۔میں نے تنہا چھوڑنا مناسب سمجھا اور ایک طرف جا بیٹھی۔کافی دیر بعد وہ خود آئیں اور میرے پاس بیٹھ گئیں۔ خود ہی گویا ہوئیں کہ دراصل یہ میری زندگی کا پہلا سجدہ تھا۔کہنے لگیں کہ جونہی میری پیشانی زمین پر لگیمیرے منہ سے بے اختیار نکلا میں تیری بندی ہوں تیرے پاس آئی ہوں۔مجھے معاف کردے کہمیں اب تک تجھے بھولی رہی ۔کہنے لگیں کہ مجھے یکدم لگا کہ میرا پورا وجو آغوش رحمت کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔دل میں ایک مٹھاس اور ایس سکون میرے رگ و پے میںاترنے لگا جو نا قابل بیان ہے۔مجھے محسوس ہونے لگا گویا میں بہت ہلکی پھلکی ہو رہی ہوں۔اور یرے تمام ذہنی تفکرات کو دھویا جا رہا ہے۔بوجھل دل ہلکا ہو رہا تھا۔جیسے کئی انتہائی محبت کے ساتھ میرے طرف متوجہ ہے۔اور بن کہی مجھے سنے جا رہا ہے۔کہنے لگی میری زبان سے بس یہی نکل سکا اے اللہ میری مدد فرمامجھے نہ چھوڑنا۔میری مد فرما۔انکا کہنا تھا اس سے پہلے زندگی میں بیشمار دفعہ عبادت کی ہے چرچ میں جا کر دعائیں مانگی ہیں۔اس سے قبل اکثر و بیشتر خدا سے مخاطب رہی ہوں۔کہنے لگیں اس سے پہلیمیں خدا کو عقلی اور نظریاتی طور پر تسلیم کیا تھا۔مگر آج میں نے اسے اپنے اندر احساس کی سطح پر پا لیا ہے۔جس نے میری ایمان و یقین کو کئی درجہ بڑہا دیا ہے۔اور اب میرے اندر خالق ایک نا قابل یقین حقیقت ہے۔
اسی طرح ایک دوسری نارویجن بہن کا واقعہ ہے۔مجھے کسی نے فون کیا کہ ایک نارویجن بہن مسلمان ہونا چاہتی ہیں۔ان کو رہنمائی چاہیے ۔ میں نے مسجد جانے کا مشورہ دیا۔واپس پیغام ملاکہ وہذاتی طور پر کسی مسلمان کو نہیں جانتیں۔اور کبھی مسجد بھی نہیں گئیں اس لیے جہاں تک ہو سکے میں ان کی مدد کروں۔انکا کہنا تھا کہ وہ مزید انتظار نہیں کر سکتیں اس لیے جتنا جلدی ممکن ہو میں انہیں پانے ساتھ مسجد لے جائوں۔مسجد رابطہ کر کے امام صاحب سے بعد نماز جمعہ کا وقت لیا۔میں مسجد میں منتظر تھی کہ طے شدہ وقت پر پیغام ملا کہ سسٹر کی طبیعت کراب ہو گئی ہے۔انہیں تھوڑی دیر ہو جائے گی۔آدھ گھنٹے بعد دوبارہ میسج آیا کہ وہ ٹیکسی پکڑ کر آ رہی ہیں۔چونکہ میری بھی اس سسٹر سے پہلی ملاقات تھی لہٰذا مجھے بھی تجسس تھا کہ معاملہ کیا ہے۔ایک دوسری خاتون کا سہارا لے کر وہ ٹیکسی سے اتریں تو ان کے جسم پر کپکپی طاری تھی۔غالباً وہ پچاس سال کے لگ بھگ تھیں انہیں عین گھر سے نکلتے وقت ایلپسی کا اٹیک ہوا ہے۔ٹیکسی ڈرائیور کا اسرار تھا کہ وہ انہیں ہسپتال ہی لے کر جائے گا۔ہوش آنے کے بعد انہوں نے ٹیکسی ڈرائیور کو دوبارہ مجبور کیا کہ وہ گاڑی کو مسجد کی جانب موڑ دے۔میں نے ان سے کہا کہ آپ کو ہسپتال ہی جانا چاہیے تھا۔مجھے اندازہ ہے کہ آپ ایک تکلیف دہ کیفیت سے گزر رہی ہیں۔سہارا دے کر ہم نے انہیں میٹنگ روم میں بٹھای ا۔کہنے لگیںیہ بارہ سال کا سفر ہے جسیمیں نے ہر حال میں طے کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔آج کسی چیز کو رکاوٹ نہیں بننے دینا چاہتی۔بیماری کے سبب بات کرنے میں انہیں دقت پیش آ رہی تھی۔اور میں انہیں خماوش رہنے کا اشارہ کر رہی تھی مگر وہ بولی ،کہ وہ بارہ سال قبل اسلام کی حقانیت کو جان چکی تھیں۔مگر انہوں نے قومی تفاخر،اہل خانہ اور عزیزو اقارب کے خوف سے اپنے اندر اس سچائی کو دبائے رکھا ہے۔مگر اب ان کے پاس وقت کم ہے اور اب وہ کسی خوف کو خاطر میں نہیں لانا چاہتیں۔کلمہء شہادت کی ادائیگی کے وقت ان کی کیفیت بہت عجیب ہوئی۔اپے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں چھپائے روتی رہیں۔پھر بولیں میرے خدا مجھے معاف فرمانا۔انہوں نے بتایا کلمہء شہادت کی ادائیگی کے وقت انہیں ایسا محسوس ہوا ہے جیسے انہیں ان کے اندر سے کسی نے ان کو دھو ڈالا ہے۔وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا اور انتہائی پر سکون محسوس کر رہی ہیں۔انہوں نے حکومت کی جانب سے غیر نلکیوں کو معاشرے میں ضم کرنے کے بہت سے پراجیکٹس پر بہت کام کیا ہے۔ہمارے سامنے انہوں نے عہد کیا کہ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی اور صلاحیتیں اسلام کے لیے وقف کر دیں گی۔
مادیت پرست مغربی انسان اپنے اندر روحانی خلاء کو کبھی نہ کبھی ضرور محسوسکرتا ہے۔مگر چند خوشقسمت ہی اس دلی پکار پر لبیک کہتے ہیں۔سچائی کی تلاش اور جستجو بالآخر اسلام کو ہی عقلی اور منطقی دین سمجھتے ہوئے قبول کرتے ہیں۔ایک وقت تھا کہ جب کبھی اکا دکا نارویجن اسلام قبول کرتا تو اسلامی حلقوں میں انتہائی پذیرائی ملتی اور اپنائیت سے استقبال ہوتا۔اب جب کہ اس تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اسلامی حلقوں میں ان سے تعلق داری میں انتہائی سرد مہری پائی جاتی ہے۔بعض اوقات نو مسلم خواتینمسلم مراکز کے کونوں میں الگ تھلگ بیٹھی یا دین سیکھنے کی درخواست کرتی نظر آتی ہیں۔مسلمانوں کی اس عدم دلچسپی اور بے اعتنائی کا گلہ ایک نشست میں بہت سی نو مسلم بہنوں نے کیا۔اسلامی کلچرل سنٹر نظم طالبات نے اس سورتحال کے پیش نظر ان کے لیے الگ شوبہ قائم کیا ہے۔جہاں نو مسلم کی رجسٹریشن کے بعد انہیں طالبات کے زیر سر پرستی بنیادی تعلیمات اور دوستی کی کی ذمہ داری سونپی جا رہی ہے۔یہ یہ مسلمان طالبات مسلسل رابطہ کے ذریعے اس راستہ میں پیش آمدہ مشکلات میں انکی دل جوئی اور عملی ضروریات میں ان کی مدد بھی کرتی ہیں۔یہ طریقہ ء کار نو مسلموں کا مسلم خاندانوں کے ساتھ روابط کا ذریعہ بھی بن رہا ہے۔اگرچہ یہ ایسی افرادی قوت ہے جسے مناسب دینی تعلیم و تربیت کے ذریہعے معاشرے دعوت دین
کے لیے متحرک کیا جا سکتا ہے۔تاہم ایسا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ خواتین صوفی ازم کی طرف متوجہ ہو جاتی ہیں۔اور کچھ روائیتی اسلامی خاندانوں کا حصہ بن کر زندگی گزار رہی ہیں۔اسلامی کلچرل سنٹر کی طالبات کے طریقہ کار میں مزید بہتری سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ انہیں با قاعدہ اجتماعیت کا حصہ بنا کر کام کیا جائے گا۔درحقیقت یہی لوگ مقامی معاشرے میں صحیح و بے باک ترجمانی کر سکتے ہیں۔سنٹر کی یہ طالبات چونکہ مقامی زبان میں عبور رکھتی ہیںاس لیے انہیں سنتر کی طرف سے یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔کہ وہ نو مسلموں کی تعلیم و تربیت کے لیے اقدامات کریں۔اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ تین سال قبل اس شعبے کو قائم کرنے اور سرپستی کرنے والوں کو عظیم اجر و ثواب ملے۔آمین

اپنا تبصرہ لکھیں