فیچرنور بی فوڈ اسٹور گرن لاند ایک ملٹی کلچرل دوکان

گفتگو نمائندہ خصوصی
norby22....
اردو فلک ڈاٹ نیٹ
نوربی فوڈ اسٹورکی دوکان اوسلو شہر کے سنٹرمیں واقع ہے اور صدیقی کے نام سے معروف ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے مالک کا نام
احمد میاں صدیقی ہے۔جبکہ آجکل اس فوڈ اسٹورکے ایڈمنسٹریٹر ان کے بیٹے نعمان صدیقی ہیں۔شہر کے وسط میں واقع یہ دوکان کئی برسوں سے نہ صرف پاکستانیوں بلکہ غیر پاکستانیوں اورنارویجنوں میں بھی بے حد مقبول ہے۔اس کی مقبولیت کی وجہ یہاں کی اعلیٰ کوالٹی معیاری اشیاء اور بہترین سروس ہے۔پاکستانی کمیونٹی میں صدیقی کی دوکان ایک اچھی شہرت رکھتی ہے اور مقامی پاکستانی کمیونٹی میں ایک سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ان کی کامیابی اور مقبولیت کے پیچھے کیا راز ہے ؟؟ اس دوکان کو چلانے کے لیے اور اسکا معیار قائم رکھنے میں کے پیچھے کون سے عوامل کارفرماء ہیں ؟؟یہ سب جاننے کے لیے ملاحظہ کریں اسکے مالک نعمان صدیقی سے ایک گفتگو۔
نعمان صدیقی کا تعلق کراچی سے ہے۔ان کے والدین انڈیا سے ہجرت کر کے آئے تھے۔جبکہ ناروے میں سن انیس سو چھیہتر 1976 سے ان کا خاندان مقیم ہے۔نعمان صدیقی نے اوسلو ہائی اسکول میں گریجویٹ تک تعلیم حاصل کی جو کہ کاروباری مصروفیات کی وجہ سے مکمل نہ کرسکے۔جب ان کے والد نے دوکان شروع کی اس وقت ان کی عمربارہ برس تھی ۔نعمان اسکول ٹائم کے بعداپنے والد کے ساتھ دوکان پر ہاتھ بٹاتے تھے۔جب ان کے والد نے دوکان شروع کی اس وقت یہ کام حصہ داری پر تھا۔جبکہ سن انیس سو ستانوے میں نعمان صدیقی نے تعلیم کو خیر باد کہ کر مکمل طور پر دوکان کا چارج سنبھال لیا۔
انہوں نے بتایاکہ ایک پاکستانی قوم کے فر دکی حیثیت سے نارویجن معاشرے میں کام کرنا ذیادہ مشکل نہیں ہے۔اصل میں ذیادہ مشکلات اپنی ہی کمیونٹی کے لوگ کھڑی کرتے ہیں۔اس سلسلے میں پاکستانی گاہکوں سے ڈیلنگ میں مسلہء ہوتا ہے۔یہاں کی سو سائٹی میں پاکستان کے بر خلاف ایک گاہک کی بات ذیادہ سنی جاتی ہے۔اس کی زیادہ اہمیت ہے۔کسٹمرکا بہت ذیادہ خیال رکھنا پڑتا ہے۔لیکن اکثر پاکستانی کسٹمریہی سوچتے ہیں کہ شائید یہاں بھی پاکستان کی طرح ہیرا پھیری ہوتی ہے ۔جبکہ یہاں ایسا نہیں ہے۔یہاں ہم لوگوں کو ایماندارانہ طریقے سے چلنا پڑتاہے کامیابی تبھی ملتی ہے ۔کسٹمرز کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ان کی بے اعتباری برقرار رہتی ہے۔جبکہ ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ کبھی کسی سے جھڑپ نہ ہو کیونکہ نارویجن کہاوت بھی ہے کہ کسٹمرہمیشہ صحیح ہوتا ہے۔ویسے ہماری دوکان میں ذیادی تر کسٹمر دوسرے ممالک کے ہیں جن میں صومالین ترکی مراکش وغیرہ کے لوگ شامل ہیں ۔نارویجن افراد کی تعداد کم ہے۔
نعمان صدیقی نے اپنے تجربات کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ میں کسی بزنس پروگرام میں روائتی طریقے سے لیکچر تو نہیں دے سکتا لیکن اپنے تجربات سے دوسروں کو ضرور آگاہ کر سکتا ہوں۔شروع میں ہم نے بزنس سیٹ کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کیا اس لیے کہ اس وقت ہم لوگوں پیشہ ورانہ معلومات ناکافی تھیں۔ہمارے پاس کاروباری نقطہ نظر سے کا م کرنا اور کسٹمرز کو ڈیل کرنے کے حوالے سے کم تجربہ تھا۔میرے والد صاحب ایک اسکول ٹیچر تھے۔اس زمانے میں یہاں کوئی پاکستانی اشائے خور دو نوش کی دوکانیں نہیں تھیں۔پھر کافی ملنے جلنے والوں کے کہنے سننے سے والد صاحب نے یہ فوڈ اسٹور شروع کیا۔جب بزنس سیٹ ہو گیا تو جاب چھوڑ دی۔پھر ہم سب بھائی اس میں کام کرنے لگے ہم پانچ بھائی ہیں جو سب مل کر کام کرتے ہیں مگر اب بزنس اتنا وسیع ہے کہ ہم پانچ بھی کم پڑ گئے ہیں۔ اس لیے اب یہاں کئی ملازم بھی کام کرتے ہیں اس وقت ہماری فر م میں بیس سے ذیادہ ملازم کا م کرتے ہیں۔اب دوکان کے علاوہ ہم نے ہول سیل سپلائی کی بھی ایک فرم بنائی ہے۔ہمارا ہول سیل یونٹ شہر سے باہر ہے۔ہماری دوکان پر پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک سے بھی اشیائے خور دو نوش برآمد کی جاتی ہیں جن میں برطانیہ پہلے نمبر پر ہے۔اس کے علاوہ عرب اور افریقی ممالک سے بھی بہت اچھی کوالٹی کے پھل منگواتے ہیں۔
انہوں نے بتایاکہ کاروباری کمپنیوں میں وہ نیشنل فوڈز اور مسالے کی کمپنی سے بہت متاثر ہیں ۔ان کے کام کے طریقے میں بہت ڈسپلن ہے اور پراڈکٹس کی کوالٹی بھی اعلیٰ اور معیاری ہے۔
ناروے میں پاکستان سے اشیاء بیچنے کی خواہش مند کمپنیوں اور افرا دکے لیے انہوں نے بتایاکہ اس کام کے لیے انہیں پہلے یہاں کے تجارتی شعبے میں اپنی فرم کو رجسٹرڈکرانا ہو گا ۔پھر اپنا دفتر اپنے نمائندوں کے ساتھ قائم کریں ۔اس کے بعد لائسسنس ایشو ہو تا ہے ۔اس کے بعد یہاں کی متعلقہ کمپنیوں کو اپنی پراڈکٹس بیچ سکتے ہیں۔
زندگی کے خوشگوارتجربات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جن سے لوگ جا کر ملتے ہیں ان میں سے اکثر مشہور لوگ خود ہی ہماری دوکان پر تشریف لے آتے ہیں ۔جن سے مل کر ہم لوگ بہت خوشی محسوس کرتے ہیں۔ان افراد میں معروف حکیم سعید صاحب تکبیر کے ایڈیٹر بھی شامل ہیں۔اس کے علاوہ صلاح الدین صاحب جیسے مشہور لوگوں سے ہماری ملاقات دوکان پر ہی ہوئی۔
میں اپنی کمیونٹی کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ذیادہ سے زیادہ بزنس اورتجارت کی طرف آئیں ۔تجارت میں ایماندارانہ طریقے سے ترقی کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہماری قوم کا مورال اور اسٹینڈرڈ یورپ میں بلند ہو۔
اپنا تبصرہ لکھیں