فیشن ایبل فقیر


یونیورسٹی جاتے ہوئے اوسلو سٹی کے ایک کثیر منزلہ شاپنگ سنٹر کے سامنے سے گزرتے ہوئے ایک فقیرنی پر نظر پڑی ْ اپنی آنکھونںپر یقین نہ آیا۔ دنیا کے صف اول پہ شمار ہونے والے امیرملک کے دارالخلافہ میں فقیرنی کی موجودگی خاصی حیرت کی بات تھی۔ نہ جانے وہ پولیس کی نگاہوں سے کیسے اوجھل تھی ۔ یہاںکی حکومت بیروزگاروں کو بیروزگاری الائونس دیتی ہے۔ پھر بھیک مانگنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس سوال کا جواب یقیناً بھکاریوں یاکا سرغنہ یا کوئی پروفیشنل بھکاری ہی دے سکتا ہے۔ وہ ایک بیکری کے باہر فٹ پاتھ پرسر عام ایک کاغذ کے گلاس کو کاسہ گدائی بنا کر چوکڑی مارے بیٹھی تھی۔غالباً کسی ایشیائی ملک کی تھی۔ عراق یا سربیا کی لگتی تھی۔ اس نے سر پہ کالا اسکارف باندھ رکھا تھاتاکہ پہچان رہے کہ مسلمان ہے اور مسلمانوں کی مزید نیک نامی ہو۔ اس نے نئے فیشن کی ٹی شرٹ اور ساتھ کالی اسکرٹ پہنی ہوئی تھی۔اسکی رنگت گوری اور بال سر خ رنگ کے تھے۔ جو بھی اس کے پاس سے گزرتا وہ ہاتھ جوڑ کر پلیز پلیز کرتی اسے غالباً نارویجن نہیں آتی تھی اسی لے انٹرنیشنل زبان میں مانگ رہی تھی۔ غورسے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ بالوں کی سرخی اور گالوں کی لالی اصلی نہیں بلکہ نقلی تھی۔ یعنی کہ بال رنگے ہوئے تھے اور چہرے پر میک اپ تھا۔
یعنی کہ ہیںتو یپشہ ور بھکاری مگر نکلنا تیار ہو کر ہے خوب ٹپ ٹاپ ہو کر میں نے حیرت و استعجاب سے باجی کو گنیریس شاپنگ سنٹر کے ریسٹورانٹ کی میز پر چائے پیتے ہوئے کہا۔ تب باجی بولی اور کیا سج سنور کے نہ مانگے تو ڈرائونی شکلیں بنا کر مانگیں پاکستانی فقیروں کی طرح۔ اب تو وہاں بھی فقیر ترقی کر گئے ہیں۔ سلیمان بھائی بتا رہے تھے کہ پچھلی مرتبہ جب وہ لندن سے پاکستان بکرہ عید پر گئے تو عجیب واقعہ پیش آیا۔ گھنٹی بجی تو گیٹ پر ایک سوٹد بوٹڈ آدمی کو پایا۔ا نہو ںنے سمجھا تھا کہ شائید کوئی عید ملنے آیا ہے۔ مگر وہ ماڈرن نوجوان عید ملنے نہیں بلکہ گوشت مانگنے آیا تھا۔اسکا سوال سن کر بھائی جان بھونچکے رہ گئے۔ خیر اسی ورطہ حیرت میں غوطہ لگاتے ہوئے انہوں نے اس ماڈرن فقیر کو رخصت کیاگوشت دے کر۔ اسلے س کے ماڈرن حلیے کے پیش نظر انسان انکار بھی نہیں کر سکتا تھا اور اسکے بھکاری ہونے کا اقرار بھی نہیں کر سکتا تھا۔وہ تواس شان سے قربانی کا گوشت مانگ رہا تھا جیسے ہمارے حکمران امریکہ سے امداد مانگتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں اب مانگنے کے پیشہ نے ایک فن کی صورت اختیار کر لی ہے۔کئی فقیر سرٹیفکیٹ یافتہ ہوتے ہیں جبکہ بعض فقیر نیاں برقعہ پہن کر مانگتی ہیں۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ فقیروں کو سرٹیفکیٹ دفتر بیروزگاری والوں نے جاری کے ہیں یا محکمہ حصول ملازمت نے۔بہرحال برقعہ کا مقصد تو واضع ہے کہ بھکارنیںپردے میں رہ کر عزت سے کام کرنا چاہتی ہیں۔باقی دوسرے پیشوں کی طرح اس کام میں آنے کے لے بھی انہیں ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اسکا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کس طرح حسب حال جملے بول کر لوگوں سے پیسے بٹولنے ہیں۔زمانے کی تیز رفتاری کا اثر گداگروں پر بھی تو پڑنا تھا۔کئی معزز شہری اس پیشے کو بطور سائیڈ بزنس اپنائے ہوئے ہیں ۔فیصل آباد کا ایک فقیر اکثر اپنی دیہاڑی سے فارغ ہو کراپنی ذاتی کار میں گھر واپس جاتا تھا۔ اس گاڑی کو اسکا ڈرائیور چلا رہا ہوتا تھا۔ خیر یہ تو اسکا اسٹیٹس تھا۔ فیصل آباد کے سوٹڈ بوٹڈ بھکاری کی طرح اسلام آباد میں برقعہ پوش بھکارنوں کا رواج ہے۔ شنید ہے کہ برقعہ اورسوٹ یہ لوگ کاسٹیوم کی طرح استعمال کرتے ہیں ۔ یعنی کہ کام کے وقت خاص لباس اور عام زندگی میں عام لباس۔ہو سکتا ہے کہ ان سوٹڈ بوٹڈ اور برقع پوش بھکاریوںکے لے بھی کوئی گاڑی کار پارکنگ میں انکی منتظر ہو فیصل آبادی فقیر کی طرح۔ خیر یہ تو پاکستان کی بات ہے سعودی عرب میں تو لوگ بڑی بڑی قیمتی گاڑیوں میں بٹیھ کر مانگتے ہیں بڑے دھڑلے سے۔وہاں ایک ہوٹل میں قیام کے دوران ایک خوبرو نوجوان اپنی جواں سال بیوی کے ساتھ مسکین شکل بنائے آیا۔اس نے لوگوں سے التجا کی کہ اسکی مد کی جائے کیونکہ اسکی جیب کٹ گئی ہے۔وہ دوبئی سے آیا ہے اور واپسی کے لے پٹرول ڈلوانے کے لے اسکے پاس پیسے نہیں ہیں۔ نوجوان اسقدر معصوم شکل تھا کہ جس نے سنا اس نے مدد کی۔وہاں تو ایسے فقیروں کی کمی نہیں تھی جو ایسے ملتے تھے جیسے پرانے شناسا ہوں۔جب آدمی سلام کا جواب دینے کے بعد اس سوچ میں پڑ جاتا تھا کہ یاد نہیں آرہا کہ یہ کو ن ہے۔ اس سے پہلے کہاں ملے ہیں بس اسی کمزور لمحے میں مستند بھکاری دست سوال دراز کر دیتے۔ چارو ناچار انہیں خیرات دینی ہی پڑتی۔ لیکن انکو ٹالنا اتنا آسان بھی نہیں ۔ اگر خیرات انکے مروجہ اسٹینڈرڈاور توقع سے کم دیں گے تو وہ آپکو دعائوں کے بجائے طعنوں سی نوازیں گے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ فقیروں کی اکثریت پاکستانی تھی مکے اور مدینہ میں۔ اسکا مطلب ہے کہ بھیک مانگنے کا پیشہ پاکستا نیوں میں مقبول ہے۔یہی وجہ ہ کہ وہ خدا کے گھر جا کر بھی مانگنے سے باز نہیں آتے اور بجائے خدا سے مانگنے کے لوگوں سے مانگتے ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو ہم ہیں جو بھکاری قوم کے فرد امریکہ اور دوسرے امیر ممالک کی بھیک پر پلنے والی بھکاری قوم۔ہمارے حکمران ہر وقت کاسہ گدائی اٹھائے امیر ممالک سے بھیک طلب کرتے رہتے ہیں۔وطن عزیز میں پیدا ہونے والے ہر بچے کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہے۔تو کیا روز محشر ہمارے قوم بھکاری قو م کی حیثیت سے اٹھائی جائے گی؟؟ سوچا ہے کبھی میرے ہم وطنوںنے، ارباب اختیار نے، حکمرانوں نے، قیمتی گاڑیوں میں گھومنے والوں نے، وسیع بنگلوں میں عیاشی کرنے والوں نے کہ ہم مقروض ملک کے باشندے یں۔ہم امیر قوموں کے سامنے سر نھیں اٹھا سکتے۔ کبھی وہ ہمارے حفاظتی حسار کو توڑتی ہیں ، کبھی وہ ہمارے مذہبی جذبات سے کھیلتی ہیں تو کبھی وہ ڈگڈگی بجاتی ہیں اورہمارے حکمرانوں کو نچاتی ہیں۔کس لے ؟؟ اس لے کہ ہم مقروض ہیں ہم بھکاری ہیں۔ غیر ملکی امداد نے ہماری زبانیں گنگ کر دیں ہیں۔اگر ہمارے سیاستدان لوٹی ہوئی رقوم لوٹا دیں ، حکمران اپنی زندگیوں میں تھوڑی سی سادگی قناعت اختیار کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری قوم بھی سر اٹھاکر جینے کے قابل نہ ہو سکے۔
لیکن بعض اناڑی بھکاری کو غلط جملے استعمال کرنے کی وجہ سے خیرات کے بجائے ڈانٹ مل جاتی ہی۔ فقیروںنے مانگنے کے نت نئے فقرے دعائیںاور جملے ایجاد کر رکھے ہیں۔ لیکن بعض اوقات انکا غلط استعمال اناڑی فقیروں کو ناکامی سے دوچار کر دیتا ہے۔جیساکہ اس و اقعہ سے ظاہر ہے۔ کمرشل مارکیٹ میں دو سہیلیاں گاڑی کھڑی کر کے آئسکریم کھا رہی تھیں۔ ایک دوست دراز قد جبکہ دوسری کوتاہ قد تھی۔ ایک فقیرنی پہلے دراز قد دوست کے پاس گئی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگی اللہ کے نام پہ کچھ دے جا اللہ تیری بیٹی کی شادی کرے۔یہ سن کر اس دوست کو بہت غصہ آیا بھنا کر بولی اری کمبحت یہ تجھے میری بیٹی دکھائی دے رہی ہے یہ تو میری سہیلی ہے ۔ چل بھاگ یہاں سے ۔ یہ سن کربھکارن ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی اسمارٹ سی لڑ کی کی جانب لپکی جو فقیرنی کی بات سن کر لطف اندوز ہو رہی تھی اور اسکے چہرے پہ دبی دبی سی مسکراہٹ بھی پھیل گئی تھی۔ مگربھکارن کی بات سن کر اسکا چہرہ بھی غصہ سے لال بھبھوکا ہو گیا ۔بھکارن کہ رہی تھی اللہ تجھے خوبصورت سا دولہا دے ۔ اللہ تیری شاد ی کرے۔ وہ لڑکی غصہ سے بولی اری بے شرم میری تو شادی ہوئی ہے۔ کیا فضول بات کر رہی ہو۔ یہ سن کر فقیرنی بولی ہائے ہائے پپیے نہیں ملتے ڈانٹ ہی ملتی ہے۔
ناروے ایک ترقی یافتہ ملک ہے ۔یہاں ترقی یافتہ فقیر فون پر مانگتے ہیں۔ نارویجن بحیثیت مجموعی فراخدل قوم ہے اور مانگنے والوں کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس چھوٹے سے ملک نے ترقی کے بلند ترین اہداف پورے کے ہیں۔کیونکہ قانون قدرت کے مطابق مدد کرنے والا بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب و ملت اللہ کی رحمت ضر ورحاصل کرتا ہے۔ ویسے بھی دینے والا لینے والے سے بڑا ہوتا ہے۔ بیروزگاروں کو حکومت کو بیروزگاری الائونس دیتی ہے۔ لیکن بعض کام چور اسکا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔اور بیزگاری کو ہی اپنا پیشہ بنا لیتے ہیں۔ ان افراد میں صومالیہ کے لوگ پہلے نمبر پہ ہیں۔ مجموعی طور پہ مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔یہ لوگ بیروزگاری الائونس پر ہی عیش کرتے ہیں۔اس طرح کے لوگ حقداروں کو انکے حق سے محروم کرنے کا باعث بنتے ہیں۔
اسی طرح وطن عزیز میں بھی فقیرون کو خیرات دینے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ پیشہ ور بھکاری محض فنکارہو تے ہیں۔ان میں ایکٹنگ کا بے پناہ ٹیلنٹ ہوتا ہے اس لے فلم پروڈیوسروں کو چاہے کہ ان پر فلمیں بنائیں۔ انہیں فلموںمیں فنکاری کا موقعہ دیں ا سطرح کم لاگت پر بننے والی فلمو ںکی وجہ سے بڑے فنکاروں کے معاوضے بھی کم ہونے میں مدد ملے گی۔ اور فلم انڈسٹری ترقی کرے گی۔

فیشن ایبل فقیر“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں