فلسطین۔۔۔ دہکتی آگ کے بھڑکتے شعلے

راجہ محمد عتیق افسر
اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات
قرطبہ یونیورسٹی برائے سائنس و انفارمیشن ٹیکنالوجی پشاور
03005930098
attiqueafsar@yahoo.com

یوں تو مسلمان دنیا کے ہر حصے میں ہی ظلم کا شکار ہیں لیکن مسلمانوں میں خود کو فنا فی الغرب کر دینے والا لبرل طبقہ دنیا کا مظلوم ترین طبقہ ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اس بات پر قلق اور ملال ہے اور شائد تمام عمر رہے کہ وہ مسلمان کے گھر پیدا ہوئے ہیں ۔ انہیں عقائد ، عبادات، معاملات ، اخلاقیات غرض کسی بھی شعبہ زندگی میں اسلام سے کوئی ہمدردی نہیں ۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کو دنیا کے لیے وبال جان سمجھتے ہیں اور دنیا میں جاری کسی بھی خرابی کا ذمہ دار اسلام اور مسلمانوں کو گردانتے ہیں ۔ یہ مظلوم اس لیے ہیں کہ نہ تو اپنے اندر یہ اخلاقی جرأت پاتے ہیں خود کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیں اور نہ ہی اسلام اور مسلمان ان سے ہضم ہو پاتے ہیں اور یہ اسی گھٹن کے عالم میں دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ۔ ان کی تنقید صرف اسلامی شعائر، دینی تعلیمات اور دنیوی معاملات میں دینی فکر پہ ہوتی ہے ۔ اس تنقید کا فائدہ بھی اسلام دشمن قوتیں ہی اٹھا تی ہیں اور یہ تمام عمر صف ِمسلمین میں کھڑے ہو کر صف دشمناں کا ساتھ دیتے رہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان مظلومین کو ظلم سے نجات دلائے اور انکی کشتی کو ساحل عطا فرمائے ۔
یہ پیر کلیسا کی کرامت ہے کہ اس نے
بجلی کے چراغوں سے منور کیے افکار
جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدہ دشوار
ترکان جفا پیشہ کے پنجے سے نکل کر
بیچارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار
اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ گزشتہ چند روز سے اسرائیل نے فسلطینی عوام پر عرصہ حیات تنگ کیا ہے اس روا ظلم نے ہر آنکھ کو اشکبار کیا ہے اور دنیا کے ہر با ضمیر شخص نے اسے ظلم عظیم قرار دے کر اسکی مذمت کی ہے ۔لیکن یہ لبرل حضرات یہ مانتے ہوئے بھی کہ اسرائیل ظلم کر رہا ہے یہ کہنے کی جرأت نہیں کر پا رہے کہ فلسطینی مسلمانوں پہ ہونے والا یہ ظلم بند کیا جائے۔ بلکہ اس موقع پر یہ حضرات شور برپا کر رہے ہیں کہ فلسطین کا مسئلہ دینی نہیں علاقائی ہے اور مظلوم مسلمان نہیں بلکہ فلسطینی عرب ہیں جن میں عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل ہیں ۔ اسی طرح یہ نام نہاد تاریخ دان یہ ایک غلط توجیح بھی پیش کر رہے ہیں کہ یہود نے یہاں آ کر سرمایہ کاری کی ہے اور فلسطینیوں سے یہ زمینیں مہنگے داموں خریدی ہیں اب ارض فلسطین پہ عربوں کا نہیں بلکہ انہی یہود کا حق ہے۔ جب ان کی دال گلتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی تو یہ قرآن و سنت کی غلط تأویلات سے اذہان میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں ۔ تحویل قبلہ کے سلسلے میں نازل ہونے والی آیات سے استدلال کرتے ہیں کہ خود اللہ نے نبی ﷺ کو حکم دیا کہ وہ اپنا رخ مسجد اقصیٰ سے مسجد حرام کی طرف کر لیں تو یہ اس کا ثبوت ہے کہ مسلمان قبلہ اول ے دست بردار ہو کر ااسے یہود کے لیے چھوڑ دیں ۔اس طرح یہ تشکیک پیدا کر کے مسلم امت کے موقف کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور فلسطینی مسلمانوں کو امت کے تعاون اور پشتپناہی سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
سرزمین فلسطین پہ اسرائیلی ریاست کا قیام 1948 میں عمل میں آیا لیکن یہ زخم اسوقت لگا تھا جب جنگ عظیم اول کے اختتام پر ترکی کی خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تھا ۔ارض فلسطین پہ برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کا قبضہ ہوا اور پھر اعلان بالفور کے ذریعے فلسطینی مسلمانوں کی بدنصیبی کا آغاز ہوا ۔ دنیا بھر سے یہود کو لا کر فلسطین میں آباد کرنا شروع کر دیا گیا ۔ یہ یہود یورپ ، روس اور امریکہ میں پرتعیش زندگی گزار رہے تھے پھر انہیں ایک بے آب و گیاہ صحرا میں لا کر آباد کیا گیا کیوں ؟اگر اسرائیلی ریاست قائم کرنا مقصود تھا تو اس علاقے میں قائم کیوں نہ کی گئی جہاں یہ زیادہ تعداد میں آباد تھے ؟یورپ میں بوسنیا، کوسوو اور البانیا جیسی مسلم ریاستیں بھی تو قائم ہوئیں ، ویٹیکاں جیسی عیسائی ریاست بھی قائم کی گئی تو پھر یہودی ریاست کے لیے فلسطین کا انتخاب کیوں ہوا؟یہود کا تاریخی لحاظ سے اگر فلسطین سے تعلق تھا بھی تو انکے دربدر کرنے والے رومی تھے تو اگر یہ انتقام لینا چاہتے تھے تو روم میں اپنی ریاست قائم کر لیتے لیکن انتقام مسلم فلسطینیوں سے کیوں ؟ دنیا کے ہر ملک کا یک قانون ہے کسی بھی ملک کے قانون کے مطابق نقل مکانی یا ہجرت کرنے والوں کو ایک مخصوص مدت کے بعد حق ملکیت ختم کردیا جاتا ہے تو پھر کس قانون کے تحت یہود کو دو ہزار برس بعد فلسطین میں لا بسایا گیا ؟ ان سب سوالات کا جواب صرف یہ ہے کہ کتاب مقدس ارض فلسطین(کنعان) کواللہ کی طرف سے یہود کو ودیعت کردہ انعام قرار دیتی ہے اور یہود اسی بنا پر اسے اپنی ملکیت سمجھتے ہیں ۔ یہ کہنا کہ فلسطین کے مسئلے کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہہ دے کہ کتاب ِمقدس کا یہودی و عیسائی مذہب سے کوئی تعلق ہی نہیں ۔
ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ عیسائی یہود کو سیدنا عیسیٰ ؑ کا قاتل سمجھتے ہیں اور ان سے شدید نفرت کرتے ہیں لیکن 1948 میں فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے شرق و غرب کے عیسائی (ما سوائے فلسطینی عرب ) راضی کیونکر ہوئے ؟اس کا جواب بھی مستقبل کی پیش گوئی سے ہے جو یہودیت ، عیسائیت اور اسلام میں مشترک ہے اور اس پہ ان تینوں مذاہب کے پیروکار ایمان رکھتے ہیں ۔ وہ ہے مسیح علیہ السلام کی آمد ۔ اسلام اور عیسائیت کے مطابق مسیح علیہ السلام دنیا میں تشریف لا چکے ہیں اب ان کی دوسری بار آمد ہوگی ۔ جبکہ یہود نے نہ صرف مسیح (عیسیٰؑ) کا نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کے قتل کا ساماں بھی کیا۔ وہ ابھی تک مسیح کی آمد کے منتظر ہیں ۔ تینوں مذاہب اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام کی آمد کے وقت ارض فلسطین پہ یہود کی کا تسلط ہو گا۔ مسلم امت کو نبی ﷺ نے اس دور سے پناہ مانگنے کی ہدایت کی ہے کیونکہ یہ دور پر فتن ہوگا اور چند ہی لوگ ایمان کی حفاظت کر پائیں گے ۔ البتہ عیسائی دنیا اس خیال میں ہے کہ مسیح علیہ السلام کی دوبارہ آمد سے عیسائیت کا بول بالا ہوگا اور تمام دنیا عیسائیت اختیار کر کے کامیاب ہو جائے گی ۔ یہی وہ نظریہ ہے جس نے یہود کی دشمن عیسائی دنیا کو بھی قیام اسرائیل کی پشت پہ لا کھڑا کیا۔ جو لوگ لبرلازم کا شکار تھے انہیں اسرائیل کی پشتپناہی پہ آمادہ کرنے کے لیے عیسائی صیہونیت نے ایک اور دانہ ڈالا وہ یہ کہ یہود عیسائی دنیا کی معیشت پہ قابض ہو جاتے ہیں اور مسائل پیدا کرتے ہیں تو کیوں نہ یہ مصیبت اپنے سر سے ہٹا کر مسلم امت کے سر پہ ڈال دی جائے ۔یہی وجہ ہے کہ فلسطین پہ قابض ہونے کے باوجود مغربی ممالک نے اسے نو آبادی بنانے کے بجائے یہاں اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح تمام عالم عیسائیت اسرائیل کا پشتیبان بن گیا۔اسطرح عیسائی دنیا بھی ایک مذہبی محرک کی بدولت اسرائیل کی پشت پہ کھڑی ہے ۔
تاریخی طور پہ یہود کو ایک مظلوم قوم قرار دیا جا رہا ہے جو گزشتہ دو ہزار برس سے دربدر ی کی زندگی گزار رہی تھی اور یورپی ممالک میں عیسائی حکومتوں کے ظلم و جبر کا شکار تھی ۔یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ یہود تقریبا دو ہزار برس سے دربدری کی زندگی گزار رہے تھے اور عیسائی دنیا کی نفرت اور قہر کا نشانہ بنے ہوئے تھے لیکن یہ سب بھی ان کے اپنے کرتوتوں کا شاخسانہ تھا ۔ جس ارض فلسطین کی ملکیت کا یہ دعوی ٰ کرتے ہیں وہ اللہ نے ان کوعطا کی تھی اور انہیں قوموں کی امامت کا فریضہ سونپا تھا ۔ بنی اسرائیل میں کم و بیش 70 ہزار انبیائ مبعوث ہوئے لیکن اس قوم نے انبیاء ؑ کی تعلیمات کا نہ صرف تمسخر اڑایا بلکہ جلیل القدر انبیاء ( جن میں سیدنا زکریا، سیدنا یحیی ٰ اور سیدنا عیسی ٰٰ علیھم السلام بھی شامل ہیں )کے قتل ناحق کا ارتکاب بھی کیا یا کرنے کی کوشش کی ۔ ان کی ریشہ دوانیوں اور شرپسندیوں کی بدولت ان پہ ذلت اور مسکنت طاری کی گئی ۔ اور ایک بار نہیں بارہا یہ دیگر اقوام کے زیر عتاب آئے ۔ بابل کے بادشاہ بخت نصر نے 587 قبل مسیح میں اسرائیلی ریاست پہ حملہ کر کے یروشلم پہ قبضہ کیا ،بیت المقدس کو تاراج کیا، مسجد اقصیٰ(ہیکل سلیمانی) کو شہید کر دیا اور مقدس تابوت جس میں سیدنا موسیٰ ؑ پہ نازل شدہ توریت کی تختیاں تھیں ، کو نذر آتش کر دیا ۔ یہود کوبڑے پیمانے قتل کیا اور جو بچ گئے انہیں قید کر کے بابل لے گیا جہاں وہ قید کی زندگی گزارتے رہے ۔ ان قیدیوں میں سیدنا عزیر ؑ بھی تھے ۔ 70 برس بعد یہود کو اس قید سے نجات ملی اور یہ واپس اپنے کھنڈر بنے فلسطین میں لوٹے ۔ سیدنا عزیر ؑ نے اپنے قوت حافظہ کی بنیاد پہ توریت کو دوبارہ مدون کیا ۔ اس کے بعد رومی بادشاہ ٹائیٹس (طیطوس) نے 70ء میں فلسطین پہ حملہ کر کے یہود کا صفایا کر دیا ۔ اس نے باقی ماندہ یہود کو فلسطین سے دربدر کردیا جو اس کے بعد سے اب تک دنیا میں در بدر پھر رہے تھے ۔یاد رہے یہ واقعہ نبی ﷺ کی پیدائش تقریبا پانچ سو برس پہلے کا ہے ۔یہود کی دربدری میں مسلمانوں کا کوئی ہاتھ نہیں نہیں تھا۔تاریخ اس بات پہ بھی شاہد ہے کہ جب عیسائی دنیا اس خانہ بدوش قوم پہ ظلم کے پہاڑ توڑ رہی تھی انہیں اگر دنیا کے کسی ملک میں چین ملا تو وہ مسلم ممالک ہی تھے۔ اس تاریخی پس منظر کو سامنے رکھا جائے تو یہ سوال خود بخود ذہن میں جاگزین ہوتے ہیں کہ اگر دو ہزار سال کے بعد یہود ارض فلسطین پہ حق ملکیت جتا سکتے ہیں تو پھر عالمی برادری سپین پہ مسلمانوں کے حق کو کب تسیم کرے گی ؟مسجد قرطبہ کے میناروں سے آذان کب سنائی دے گی ؟ سپین کی مسجدوں کو نمازیوں کے لیے کھولا بھی جائے گا یا نہیں ؟ مسلم علماء کا علمی ذخیرہ جو ہتھیا لیا گیا تھا واپس کیا جائے گا یا نہیں ؟ بقول اقبال
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا
بیسویں صدی کے اوائل میں اس منتشر قوم کو ریاست کے قیام کا خیال آیا ۔اس وقت تک یورپ کی حکومتیں یہود کے عطا کردہ فلسفہ جمہوریت کے تحت کمزور ہو چکی تھیں اور پورا یورپمعاشی طور پر یہود کے سرمائے کا محتاج تھا ۔ اس دور میں ترکی کی سلطنت عثمانیہ بھی شدید معاشی بحران کا شکار تھی یہود نے اس وقت کے خلیفۃ المسلمین کو پیشکش کی کہ وہ معاشی حالات کو بہتر کرنے کے لیے اپنا سرمایا دینے کو تیار ہیں لیکن بدلے میں انہیں فلسطین میں اسرائیلی ریاست کی اجازت دی جائے ۔ سلطان نے کمزور ہونے کے باوجود غیرت ایمانی کا مظاہرہ کیا اور ارض فلسطین کو امت مسلمہ کا اثاثہ قرار دیتے ہوئے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا ۔یہی سرمایہ یہود نے پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی معاونت میں استعمال کیا اور بدلے میں فلسطین کا تقاضا کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ عظیم اول کے اختتام پر نہ صرف خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا اور اعلان بالفور کے ذریعے اسرائیلی ریاست کی داغ بیل ڈالی گئی ۔ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر نے اپنے مخالفین کا قتل عام (ہولوکاسٹ)کیا ۔مقتولین میں کچھ یہودی بھی مارے گئے ۔ یہود نے اپنے زیر اثر ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ پراپیگنڈہ عام کردیاکہ اس جنگ میں لاکھوں یہود کو نازی کیمپوں میں گیس چیمبر میں اذیت ناک موت کا شکار بنایا گیا ہے ۔اس پراپیگنڈے نے عالمی ضمیر عالمی ضمیر کو اپنے حق میں موم کیا اور جب 1948 میں اسرائیل نے ریاست کا اعلان کیا تو اقوام عالم نے ہمدردی کی بنیاد پہ اس ریاست کو تسلیم کر لیا ۔ بات یہیں ختم نہیں ہو گئی عالمی طاقتوں نے اسرائیل کی بھرپور مالی و عسکری مداد کی جس کے بل بوتے پر عربوں کے دیگر علاقوں پہ بھی قبضہ کر لیا گیا ۔ عرب ممالک نے عرب قومیت کی بنیاد پر فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے اسرائیل سے جنگیں بھی کیں لیکن عالمی قوتوں کی پشتپناہی کی بدولت اسرائیل کا پلڑا بھاری رہا اور عرب ممالک اپنے علاقوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ۔ اسرائیل نے اپنے پڑوسی عرب ممالک کے مقبوضات بھی ہتھایا لیے ان میں شام سے جولان کی پہاڑیاں ، اردن سے بحیرہ مردار کا مغربی علاقہ اور لبنان کے علاقے بھی شامل ہیں ۔ اسرائیل جب چاہے اپنے پڑوسی عرب ممالک کے علاقوں پہ بمباری کرتا ہے اور آبادی کو نقصان پہنچاتا ہے ۔ لیکن اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ بیشتر مسلم ممالک نے اسرائیل کو تسلیم بھی کر لیا ہے اور اب پاکستان اور سعودی عرب پہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے ۔قائد اعظم ؒ نے اسرائیل کے قیام کے وقت اس بنیاد پر اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ اسرائیل کا قیام جن بنیادوں پہ عمل میں آیا ہے وہ بنیادیں ہی غلط ہیں ۔ جس قتل عام کی بنیاد پہ یہودکے لیے اسرائیلی ریاست کے قیام کا جواز پیدا کیا گیا تھا اس سے زیادہ قتل عام اسرائیل نے فلسطینیوں کا کر دیا ہے اب تو عالمی برادری کو اسے ختم کر دینا چاہیے۔
جو لوگ محض اس خیال سے اسرائیل کے قیام کا جواز تلاش کر رہے ہیں کہ یہود نے فلسطین میں آکر سرمایہ کاری کی ہے اور انہوں نے یہاں کے مقامی باشندوں کو اصل سے کہیں گنا زیادہ قیمت دے کر سے زمینیں خرید کر لی ہیں ۔ اب فلسطینی یہ حق نہیں رکھتے کہ وہ اس سرزمین کا مطالبہ کریں ۔ لیکن یہ بات درست نہیں تمام فلسطینیوں نے اپنی زمینیں فروخت نہیں کیں ۔ اور جنہوں نے فروخت کی بھی تھیں انہوں نے اپنی تمام تر جائداد فروخت نہیں کی ۔ کچھ زمینیں خرید کر باقی تمام وطن پر قابض ہو جانا کس قانوں کے تحت جائز ہے ۔ برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے جائدادیں خرید کر قلعے تعمیر کیے اور تاجر بن کر آنے والے یہاں کےتاجدار بن بیٹھےتو کیا اس نو آبادیاتی نظام کو بھی جائز قرار دیا جائے ؟ اگر ایسا ہی ہے تو برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں نقل مکانی کر کے جانے والے مسلمان تعداد میں مقامی افراد سے زیادہ ہو چکے ہیں ، انہوں نے وہاں کی شہریت بھی لے لی ہے اور وہاں جائدادوں کے مالک بھی ہیں تو پھر ان ممالک میں مسلم ریاستیں وجود میں آجانا چاہییں ۔کیا اہل یورپ اس کی اجازت دیں گے ؟
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملت مظلوم کا یورپ ہے خریدار
جہاں تک فلسطین کے مسلم امت سے تعلق کا سوال ہے تو یہ امر مسلم ہے کہ مسجد اقصی ٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور تمام مسلمان اسے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ حرمین شریفین کے بعد اگر کسی مقام کو تقدس حاصل ہے تو وہ مسجد اقصی ٰ ہے ۔ فلسطین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں فتح ہوا اور بیت المقدس کے باسی عیسائیوں نے شرط رکھی تھی کہ اگر خلیفۃ المسلمین خود آئیں تو ہم شہر کی کنجیاں حوالے کر دیں گے ۔ مسلمانوں نے ایسا ہی کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود تشریف لائے اور مسلمان امن سے اس شہر میں داخل ہوئے ۔ مسلمانوں نے یہاں کی مقامی عیسائی آبادی کو دربدر نہیں کیا اور نہ ہی ان کی عبادتگاہوں کو نقصان پہنچایا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں اب بھی عیسائی آبادی رہتی ہے ۔ یہاں کی آبادی آہستہ آہستہ حلقہ بگوش اسلام ہوتی گئی اور یہاں مسلم اکثریت ہو گئی ۔ دنیا کے کسی علاقے سے کوئی قوم یہ دعو یٰ نہیں کر سکتی کہ انہیں مسلمانوں نے دربدر کیا ہے ما سوائے مدینہ منورہ کے یہود کے ۔ لیکن ان کی جلاوطنی کا فیصلہ ان کی عہد شکنی کی وجہ سے کیا گیا تھا۔ بیت المقدس میں مسجد اقصی ٰ کی عمارت موجود نہ تھی اسکی تعمیر بھی فتھ بیت المقدس کے بعد ہوئی اس وقت وہاں عیسائی گرجا موجود تھا جو اب بھی موجود ہے ۔ اب اگر القدس یہود کے قبضے میں بھی ہو تب بھی وہ قبلہ اول ہے اس کی اس حیثیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن عالمی صیہونیت یہاں مسجد اقصی ٰ کو منہدم کر کے اس کی جگہ ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتی ہے ۔ اس کی کسی صورت بھی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔اسکی وجہ یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ ایک تاریخی حقیقت ہےجہاں صدیوں سے نماز ادا کی جا رہی ہے جبکہ ہیکل سلیمانی ایک یہودیت کا ڈراؤنا خواب ہے یا صیہونیت کا سہانا خواب
طاقت کے نشے میں چور اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں پہ عرصہ حیات تنگ کر دیا ۔ آئے روز فلسطینی علاقوں سے مسلم فلسطینوں کو جلاوطن کیاجا رہا ہے، مزاحمت کرنے والوں کو شہید کیا جا رہا ہے ، مردوں عورتوں یہاں تک کہ بچوں کو گرفتار کر کے لا پتہ کیا جا رہا ہے اور مسلم آبادیوں کو محصور کیا جا رہا ہے ۔ غرض ہر لحاظ سے مسلم فلسطینیوں کا معاشی و معاشرتی قتل عام کیا جا رہا ہے ۔حالیہ دنوں غزہ میں فلسطینی مسلمانوں کو خاک و خون میں نہلا دیا گیا ۔ شہری آبادی کو تاخت و تاراج کیا گیا ۔ ہسپتالوں ، تعلیمی اداروں ، دفاتر اور گھروں کو نقصان پہنچایا گیا ۔ اس صورتحال میں عالمی برادری نے بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ فلسطینی عوام ایک طرف تو صلاح الدین ایوبی کی راہ دیکھ رہے ہیں تو دوسری جانب اپنے محدود وسائل کے ساتھ اس جبر ناروا کا پامردی سے مقابلہ کر رہے ہیں ۔ وہ عالمی صیہونیت اور اسرائیل کے دجالی منصوبے کے سامنے مسجد اقصیٰ کے پاسبان بن کر کھڑے ہیں اور ایک چٹان کی صورت اس طوفان مغرب کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ یہ امر بھی مسلّم ہے کہ یہودی محض فلسطین تک محدود نہیں رہینگے عالمی صیہونیت کے عزائم میں نیل سے لے کر عراق تک کا تمام علاقہ اور مدینہ منورہ کا علاقہ بھی شامل ہے جسے گریٹر اسرائیل کہا جاتا ہے ۔اسرائیل کی جانب سے عراق کے جوہری پلانٹ کی تباہی اس کا بیّن ثبوت ہے۔پاکستان کے جوہری اثاثوں کو تباہ کرنے کے لیے بھارت کا ساتھ دینا اور تحریک آزادی کشمیر کو سپوتاژ کرنے کے لیے بھارت کو پلٹ گن جےسے اسلحے کی فراہمی اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل امت مسلمہ کے لیے ایک خطرہ ہے ۔ فلسطینی مسلمان اسوقت امت مسلمہ کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔اس وقت مسلم حکمرانوں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطینیوں کی مدد کریں ۔ ان کی پشتپناہی کریں ۔ طاقت کا مقابلہ کبھی بھی قراردادوں اور تقریروں سے نہیں کیا جا سکتا ۔ فلسطینی عوام کو طاقت فراہم کی جائے ۔ اسلحے کا مقابلہ اسلحے سے کیا جاتا ہے غلیل پکڑے فلسطینی کو دفاع کے لیے بندوق مہیا کی جائے ، تباہ حال شہریوں کی بحالی کے لیے مالی امداد فراہم کی جائے ، زخموں پہ مرہم رکھنے کے لیے طبی امدا د فراہم کی جائے ، سیاسی و سفارتی مدد فراہم کی جائے تحریر وتقریر کے ذریعے خوابیدہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا جائے ۔اس وقت اسرائیل سائنس اور ٹیکنالوجی میں سب مسلمان ممالک سے آگے مسلم ممالک کو اس میدان میں آگے بڑھنا ہوگا ۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے فلسطین کی آواز کو بلند کیا جائے ۔ اس وقت تک مسلم حکومتوں کی جانب سے خاطرخواہ اقدام سامنے نہیں آیا البتہ عالمی اسلامی تحریکیں اپنے طور پہ فلسطین کی مدد کے لیے کوشش کر رہی ہیں ۔ پاکستان میں بھی مذہبی جماعتوں نے آواز بلند کی ہے ۔ جماعت اسلامی نے علم اسلام کی دیگر تنظیموں کے تعاون سے مالی اور طبی امداد پہنچانے کا انتظام بھی کیا ہے اور بیداری ملت کے لیے پورے پاکستان میں فلسطین مارچ کا اہتمام بھی کیا ہے ۔ اس وقت تمام امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوں ۔ اس وقت دنیا میں موجود سکوت کو توڑنے کی ضرورت ہے لہذا خاموش نہ رہیں آواز اٹھائیں ۔اس وقت کرنے کا ایک کام یہ بھی ہے کہ کثیر القومی کمپنیاں جو اسرائیل کی ملکیت ہیں یا وہ اسرائیل کو مالی مدد فراہم کرتی ہیں ان کا بائیکاٹ کیا جائے ۔ سیکولر اور لبرل طبقے کی بھیلائی افواہوں سے مرغوب ہونے کے بجائےآنکھیں کھول کر حقائق کا ادراک کیا جائےاور تذبذب کا شکار ہو کر مسلم امت کے مسائل سے کنارہ کشی سے بچا جائے ۔ ہمیں چاہیے کہ اس صورتحال میں اتحاد و یگانگت کی فضا قائم کریں اور ایک دھارے کی شکل اختیار کریں جو خاشاک ِ غیر اللہ کو بہا کر لے جائے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں فلسطینی عوام کی پشتپناہی کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

اپنا تبصرہ لکھیں