فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا

فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کرسکتا تھا چھو سکتا نہ تھا
رات بھر پچھلی سی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا
میں تیری صورت لئے سارے زمانے میں پھرا
ساری دنیا میں مگر کوئی تیرے جیسا نہ تھا
آج ملنے کی خوشی میں صرف میں جاگا نہیں
تیری آنکھوں سے بھی لگتا ہے کہ تو سویا نہ تھا
یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھی
آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہردھندلایا نہ تھا
سیکڑوں طوفان لفظوں میں دبے تھےزیرِلب
ایک پتھر تھا خموشی کا کہ جو ہٹتا نہ تھا
یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیمؔ
بھول جانے کے سوا اب کوئی بھی چارا نہ تھا
مصلحت نے اجنبی ہم کو بنایا تھا عدیمؔ
ورنہ کب اک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا
(عدیمؔ ہاشمی)

اپنا تبصرہ لکھیں