فارسی شاعری یا فالنامہ۔۔۔

 خیر تو ملکۂ   نور جہاں کو بھی حافظ کی شاعری سے بہت دلچسپی تھی۔ اور وہ اکثر اپنے ذاتی معاملات کو سمجھنے کے لئے دیوانِ حافظ سے فال نکالا کر تی تھیں۔ ایک بار ملکہ کا نو لکھا موتیوں کا ہار کھو گیا۔ بہت ڈھونڈھا گیا۔ لیکن کہیں نہ ملا۔ آخر ملکہ نےدیوانِ حافظ سے فال نکالی۔ تو فال میں جو  مصرعۃ آیا …….
 دیوانِ حافِظ اور تفاول
 
   ہندوستان کے اردو داں طبقہ میں فارسی شعر و ادب سے دلچسپی ہمیشہ رہی۔ در اصل یہ سلسلہ مغلوں کے زمانہ ہی میں عام ہو گیاتھا۔ اسکی وجہہ  یہ ہے کہ سب کے سب مغل، یعنی حکمران گروہ سے لیکر تجارت کرنے والے۔ سپاہی، اساتذہ ، کارخانہ دار اور دوسرے سب لوگ فارسی بولنے والے  ہوتے تھے۔ دربار کی زبان بھی فارسی ہی تھی۔ شاہی خاندان کے سب افراد خواتین سمیت فارسی بولتے تھے اور شعر کا ذوق رکھتے تھے۔ اس سلسلہ میں اورنگ زیب کی بیٹی کا تذکرہ بھی آتا ہے جو خود شعر کہتی تھیں اور  اپنا  تخلّص مخفی کرتی تھیں۔
اس میں سب سے زیادہ مشہور اور نمایاں نام  ملکہ نور جہاں  کا ہے جو کہ ایک ایرانی خاندان کی فرد تھیں۔ وہ بھی فارسی شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتی تھیں۔ اُس  دور  کے صاحبِ ذوق ایرانیوں میں ایک اور بات بہت عام تھی۔ کوئی بھی صاحبِ ذوق ایرانی (اس دور میں یا پندرہویں اور سولہویں صدی میں) ایسا نہ ہوگا جسکو  حافظ کی شاعری سے دلچسپی نہ رہی ہو۔ البتہ علامہ اقبال نے حافظ کی بڑی لے دے کی ہے۔ اُنکی ایک نظم ہے جو سب کی سب حافظ کی فکر کے خلاف ہے۔ لیکن اُس دور میں خواجہ حسن نظامی سے مخالفت ہونے کے بعد اقبال نے وہ نظم اپنے فارسی مجموعۂ نظم  اسرار ورموز سے خارج کر دی تھی۔  اُس نظم کے ٹیپ کا مصرعہ ہے:
؎             الحذر، الحذر، از گوسفنداں الحذر
یعنی اقبال نے حافظ کی مثال گوسفند سے دی ہے کہ وہ چُپ چاپ چھری کے نیچے گر دن رکھ دیتا ہے۔خیر اس موضوع پر ہم پھر کسی  وقت گفتگو کریں گے۔ انشا اللہ۔
خیر تو ملکۂ   نور جہاں کو بھی حافظ کی شاعری سے بہت دلچسپی تھی۔ اور وہ اکثر اپنے ذاتی معاملات کو سمجھنے کے لئے دیوانِ حافظ سے فال نکالا کر تی تھیں۔ ایک بار ملکہ کا نو لکھا موتیوں کا ہار کھو گیا۔ بہت ڈھونڈھا گیا۔ لیکن کہیں نہ ملا۔ آخر ملکہ نےدیوانِ حافظ سے فال نکالی۔ تو فال میں جو  مصرعۃ آیا وہ مندرجہ ذیل ہے۔
 
؎             چہ دلاور است دزدی کہ بکف چراغ دارد
ترجمہ: یہ چور کتنا دلاور ہے کہ چوری کرنے آیا ہے تو ہاتھ میں چراغ لئے ہوئے ہے۔(یعنی چور تو آتا ہی ہے چوری چھپے اندھیرے میں مگر یہ چور تو بڑا دلاور ہے کہ روشنی میں آیا ہے بلکہ روشنی ہاتھ میں لے کر آیا ہے۔)
بس یہ اشارہ ملنا کافی تھا۔  جب کھوئے ہوئے  ہار کی تلاش کی  جارہی تھی تو ملکہ کی سب خادمائیں تلاش میں مصروف تھیں۔ صرف ایک کنیز ایسی تھی کہ وہ سب سے آگے بڑھ کر اور سب سے زیادہ جستجو کرر ہی تھی۔ یہاں تک کہ اُس کے ہاتھ میں مشعل بھی تھی۔ بس وہ پکڑی گئی۔ یہ تو اُس کا احساِس جُرم تھا کہ وہ سب سے زیادہ آگے بڑھ بڑھ کر تلاش میں حصہ لے رہی تھی۔ جب سختی سے باز پُرس ہوئی تو اُس نے چوری قبول کر لی۔
ہم نے یہ واقعہ ایک کتاب میں پڑھا تھا    یا نقوش کے کسی شمارہ میں ایک مضمون تھا۔ اس غزل کی تلاش میں ہم نے دیوان دیکھا۔ کیونکہ پورا شعر دیکھنا چاہتے تھے۔ کچھ دواوین میں تو یہ غزل ہی نہ ملی۔ البتہ مولانا قاضی سجاد حسین صاحب کا ترجمہ کیا ہوا دیوانِ حافظ جو کہ لاہور سے شایع ہوا ہے اُس میں ایک غزل ملی۔ غزل کا نمبر ۱۸۹ ہے اور یہ صفحہ نمبر ۱۵۰ پر ملے گی۔ غزل کا مطلع درجِ ذیل ہے:
 
؎            دلِ من بدورِ رویت زِ چمن فراغ دارد
کہ چو سَر و پائے بند ست وچو لالہ داغ دارد
ترجمہ: تیرے چہرہ کے دور میں میرا دل چمن سے بے نیاز ہے۔ کیونکہ وہ سرو کی طرح قید (یعنی جڑ زمین میں گڑی ہوئی )ہے اور لالہ کی طرح داغدار ہے۔ غزل میں کُل نو اشعار ہیں اور یہ شعر جس پر ہم تبصرہ کر رہے ہیں وہ پانچوان شعر ہے۔ پورا شعر ملاحظہ فرمائیے:
 
بفروغِ  چہرہ زلفت ہمہ شب زَنَد رہِ دل
چہ دلاور است دزدے کہ بکف چراغ دارد
 
ترجمہ:تیرے چہرہ کی روشنی ہوتے ہوئے بھی تیری زلف تمام رات دل پر ڈاکے ڈالتی ہے۔وہ چور کس قدر دلیر ہے جو ہاتھ مین چراغ لیے ہوئے ہے۔
شعر کی خوبیا ں ملاحظہ فرمائیے۔ محبوب کی زلف کو تشخُّص دے کر چور سے مثال دی ہے۔ چہرہ کی تابانی جو نور کا مظہر ہے، اُس سے زلف کی تاریکی جو کہ ظلمت کا مظہر ہے، کا تقابل کرکے صنعتِ تضاد پیدا کی ہے۔
Peter Avery نے حافظ کی غزلوں کا ترجمہ انگریزی میں کیا ہے۔ (ہمارا خیال ہے کہ اور لوگوں نے بھی کیا ہوگا) جس کو   Archetypeنے انگلستان کے شہر کیمبرج سے شایع کیا ہے۔ اس مجموعہ میں اس غزل کا نمبر ۱۱۳ ہے۔ ترجمہ میں صرف سات اشعار ہین اور یہ والا شعر شامل نہیں ہے۔ البتہ گنجور کی ویب سائٹ پر جو حافظ کی غزلیات کا مجموعہ ہے اس میں یہ پوری غزل موجود ہے۔ اس کا نمبر ۱۱۷ ہے۔ مطلع میں تھوڑا سا فرق ہے۔ دلِ من کے بجائے وہاں دلِ ما ہے۔  لیکن غزل کے ساتھ ایک  حاشیہ ہے جس میں ابو طالب ہاشمی کا تحریر کردہ نوٹ ہے جس میں یہ شعر شامل ہے۔ لیکن بکف کے بجائے بہ شب ہے۔ آپ اس تحریر کے لئے مندرجہ ذیل ویب سائٹ پر جائیے:
 
ہمارا نوٹ: ’تیرے چہرہ کے دور میں‘، جیسا کہ مولانا سجاد حسین صاحب نے ترجمہ کیا ہے، کوئی اچھا اردو کا محاورہ نہیں ہے۔ پیٹر ایوری کا انگریزی ترجمہ ملاحظہ فرمائیے:
 
In the season of your face our heart has no time for the meadow,
Because, like the cypress, its feet are bound, and, like the tulip, it has a brand.
 
اب سوال اٹھتا ہے کہ کیا انگریزی کا کوئی محاورہ ایسا ہے : In the season of your face
اور یہ کہ  ٹیولِپ عام طور سے داغدار نہیں ہوتا،  حالانکہ اکثر مترجمین نے لالہ کا ترجمہ ٹیولِپ ہی کیا ہے۔
 
            خیر تو دیوانِ حافظ سے تفاول کے بارے میں ایک واقعہ اور ملاحظہ فرمائیے۔ یہ ہم سے ہمارے ایک بزرگ دوست نے برسوں پہلے کبھی بیان کیا تھا۔ ایک صاحب جو کہ ہندوستان کے کسی مذہبی لیڈر (غالباً تذکرہ خواجہ حسن نظامی کا تھا جو اپنے آپ کو صوفیت  کے سلسہ میں حافظ کا جا نشین کہتے تھے اور آل انڈیا صوفی کانفرنس کےصدر بھی تھے)سے بڑا تعلق خاطر رکھتے تھے مگر اُن سے کبھی ملے نہیں تھے، اتفاقاً ایک موقع ایسا آیا کہ اُن کی ملاقات اُن لیڈر صاحب سے ہو گئی۔ متاثر تو وہ تھے ہی، جب گفتگو کے بعد اُٹھنے لگے تو بے اختیار فرطِ عقیدت میں اپنے ممدوح کا ہاتھ چوم لیا۔ لیکن مذہبی ذوق بھی رکھتے تھے، اپنے اس  جذبۂ بے اختیار شوق پر متاسف بھی تھے کہ وہ کہیں بِدعت کے مرتکب تو نہیں ہو گئے۔ خیر گھر آکر اسی فکر میں تھے کہ دیوانِ حافظ لے کر بیٹھے اورفال نکالی۔ جو شعر فال میں نکلا وہ یوں تھا:
 
            مَبوس جُز لبِ معشوق و جامِ مے  حاؔفظ
            که دست زهدفروشان خطاست بوسیدن
ترجمہ: اے حافظ، سوا جام مے اور لبِ معشوق کے ، کسی اور کا بوسہ نہ لینا، کہ اُن افراد کے ہاتھوں کا بوسہ لینا جو (اُسی ہاتھ سے) اپنے زُھد کو بیچ دیتے ہوں ، گناہ ہے۔
            ہم نے یہ غزل بھی گنجور کی ویب سائٹ پر تلاش کی۔ وہاں اس غزل کا نمبر ۳۹۳ ہے۔ لیکن شعر میں لبِ معشوق کے بجاے لبِ ساقی ہے۔
 
نوائے وقت نے دسمبر ۲۰۰۸ میں اپنے ایک کالم بعنوان  (سرِ راہے)  میں ایک وا قعہ بیان کیا ہے، نہ جانے کہاں تک سچ ہے۔ بہر حال، وہ بھی دیکھتے چلئے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر ہے کہ ایک چینی لڑکی بوسہ لینے سے قوتِ سماعت کھو بیٹھی۔
عشق کا وائرس بھی بڑا خطرناک ہوتا ہے‘ اس لئے اس خبر سے عشاق حضرات کو عبرت پکڑنی چاہئے اور صرف جائز بوسوں پر گزارہ کرنا چاہئے۔ ناجائز بوسے سے قوت سماعت گئی ہے تو کل کلاں کو اس سے کسی کی جان بھی جا سکتی ہے۔ حافظ شیرازی نے ایک شعر کہا تھا مگر شاید اس وقت تک بوسے کا وائرس ظاہر نہیں ہوا تھا‘ شعر ملاحظہ ہو؎
؎            مبوس جز لب معشوق و جام مے حافظ
            کہ دستِ زہد فروشاں خطا است بوسیدن
(معشوق کے لبوں اور شراب کے جام کے علاوہ کسی کا بوسہ نہ لو‘ کیونکہ عبادت بیچنے والوں کے ہاتھ چومنا گناہ ہے)
اپنا تبصرہ لکھیں