فاتح خیبر حضرت علی رضی اللہ عنہ

فاتح خیبر حضرت علی رضی اللہ عنہ
کی سیرت و کردار پر ایک نظر
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی
سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال پنجاب پاکستان
دنیا میں بے شمار انسان پیدا ہوئے جن میں سے اکثر ایسے ہوئے کہ ان میں کوئی کمال وخوبی نہیں اور بعض لوگ ایسے ہوئے جو صرف چند خوبیاں رکھتے تھے مگر حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی وہ ذات گرامی ہے جو بہت سے کمال و خوبیوں کی جامع ہے کہ آپ شیر خدا بھی ہیں اور داماد مصطفےٰ بھی ،حیدر کرار بھی ہیں اور صاحب ذوالفقار بھی ،حضرت فاطمہ زاہرہ کے شوہر نامدار بھی اور حسنین کریمین کے والد بزرگو ار بھی ،صاحب سخاوت بھی اور صاحب شجاعت بھی ،عبادت و ریاضت والے بھی اور فصاحت و بلاغت والے بھی ،علم والے بھی اور حلم والے بھی ،فاتح خیبر بھی اور میدان خطابت کے شہسوار بھی ،غرضیکہ آپ بہت سے کمال و خوبیوں کے جامع ہیں اور ہر ایک میں ممتاز ویگانۂ روزگار ہیں اسی لئے دنیا آپ کو مظہر العجائب والغرائب سے یاد کرتی ہے اور قیامت تک اسطرح یاد کرتی رہے گی۔
مرتضیٰ شیر حق اشجع الاشجعین باب فضل ولایت پہ لاکھوں سلام
شیر شمشیر زن شاہِ خیبر شکن پر تو دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام
نام و نسب:آپ کا نام نامی ’’علی بن ابی طالب‘‘ اور کنیت ’’ابوالحسنین و ابو تراب ہے :طالب کے صاحبزادے ہیں یعنی حضورﷺ کے چچازاد بھائی ہیں ۔آپ کی والدہ محترمہ کا اسم گرامی فاطمہ بنت اسد ہاشمی ہے اور یہ پہلی ہاشمی خاتون ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا اور ہجرت فرمائی۔(تاریخ الخلفاء ص113)
آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے ۔علی بن ابو طالب، بن عبد المطلب، بن ہاشم بن عبد مناف۔ آپ 30 ؁ عام الفیل میں پیدا ہوئے اور اعلان نبوت سے پہلے ہی مولائے کل سید الرسل جناب احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ کی پرورش میں آئے کہ جب قریش قحط میں مبتلا ہوئے تھے تو حضورﷺ نے ابو طالب پر عیال کا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو لے لیا تھا ۔اس طرح حضور ﷺ کے سائے میں آپ نے پرورش پائی اور انہی کی گود میں ہوش سنبھالا،آنکھ کھو لتے ہی حضورﷺ کا جمال جہاں آرا دیکھا ،انہی کی باتیں سنیں اور انہی کی عادتیں سیکھیں ۔اس لئے بتوں کی نجاست سے آپکا دامن کبھی آلو دہ نہ ہوا ۔یعنی آپ نے کبھی بت پرستی نہ کی اور اسی لئے کرم اللہ وجہہ الکریم آپ کا لقب ہوا۔(تنزیہ المکانۃ الحیدریہ وغیرہ)
آپ کا حلیہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ جسم کے فربہ تھے ۔اکثر خود استعمال کرنے کی وجہ سے سر کے بال اڑے ہوئے تھے ۔آپ نہایت قوی اور میانہ قد مائل بہ پستی تھے ۔آپ کا پیٹ دیگر اعضا کے اعتبار سے کسی قدر بھاری تھا ۔مونڈھوں کے درمیان کا گوشت بھرا ہوا تھا۔پیٹ سے نیچے کا جسم بھاری تھا ۔رنگ گندمی تھا ۔تمام جسم پر لمبے لمبے بال، آپ کی ریش مبارک گھنی اور دراز تھی۔مشہور ہے کہ ایک یہودی کی داڑھی بہت مختصر تھی ٹھوڑی پر صرف چند گنتی کے بال تھے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہنے لگا اے علی! تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن میں سارے علوم ہیں اور تم باب مدینۃ العلم ہو تو بتاؤ قرآن میں تمہاری گھنی داڑھی اور میری مختصر داڑھی کا بھی ذکر ہے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا سورۂ اعراف میں ہے۔وَالْبَلَدُ الْطَّیِّبْ یَخْرُجُ نَبِاتُہٗ بِاِذْنِ رَبَّہٖ وَالَّذِیْ خَبُثَ لَا یَخْرُجُ اِلَّا نَکِدًا۔یعنی جو اچھی زمین ہے اس کی ہر یالی اللہ کے حکم سے خوب نکلتی ہے اور جو خراب ہے اس میں سے نہیں نکلتی مگر تھوڑی بمشکل۔(پارہ 8ع14)تو اے یہودی وہ اچھی زمین ہماری ٹھوڑی ہے اور خراب زمین تیری ٹھوڑی ۔
معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا علم بہت وسیع تھا کہ اپنی گھنی داڑھی اور یہودی کی مختصر داڑھی کا ذکر آپ نے قرآن مجید میں سے ثابت کر دکھایا اور یہ بھی ثابت ہوا کہ قرآن سارے علوم کا خزانہ ہے مگر لوگوں کی عقلیں اس کے سمجھنے سے قاصر ہیں ۔
ابو تراب:حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک کنیت ابو تراب بھی ہے جب کوئی شخص آپ کو ابو تراب کہہ کر پکارتاتھا تو آپ بہت خوش ہوتے تھے اور رحمت عالم ﷺ کے لطف و کرم کے مزے لیتے تھے اس لئے کہ یہ کنیت آپ کو حضور ہی سے عنایت ہوئی تھی ۔اس کا واقعہ یہ ہے کہ ایک روز آپ مسجد میں آکر لیٹے ہوئے تھے اور آپ کے جسم پر کچھ مٹی لگ گئی تھی کہ اتنے میں رسول اکرم ﷺ مسجد میں تشریف لائے اور اپنے مبارک ہاتھوں سے آپ کے بدن کی مٹی جھاڑتے ہوئے فرمایا قم یا ابا تراب ۔یعنی اے مٹی والے ! اٹھو اس روزسے آپ کی کنیت ابو تراب ہو گئی ۔(رضی اللہ عنہ )
آپ کا قبول اسلام:حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نو عمر لوگوں میں سب سے پہلے اسلام سے مشرف ہوئے ۔تاریخ الخلفاء میں ہے کہ جب آپ ایمان لائے اس وقت آپ کی عمر مبارک دس سال تھی بلکہ بعض لوگوں کے قول کے مطابق نو سال اور بعض کہتے ہیں کہ آٹھ سال اور کچھ لوگ اس سے بھی کم بتاتے ہیں اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ تنزیہ المکانتہ الحیدریہ میں تحریرفرماتے ہیں کہ بوقت اسلام آپ کی عمر آٹھ دس سال تھی۔
آپ کے اسلام قبول کرنے کی تفصیل محمد بن اسحاق نے اس طرح بیان کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کو اور حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو رات میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ جب لوگ نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ آپ لوگ یہ کیا کر رہے تھے ۔حضور ﷺنے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایسا دین ہے جس کو اس نے اپنے لئے منتخب کیا ہے اور اسی کی تبلیغ و اشاعت کیلئے اپنے رسول کو بھیجا ہے ۔لہٰذا میں تم کو بھی ایسے معبود کی طرف بلاتا ہوں جو اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور میں تم کو اسی کی عبادت کا حکم دیتا ہوں ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا کہ جب تک میں اپنے باپ ابو طالب سے دریافت نہ کر لوں اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا ۔چونکہ اس وقت حضور ﷺ کو راز کا فاش ہونا منظور نہ تھا اس لئے آپ نے فرمایا اے علی! اگر تم اسلام نہیں لاتے ہوتو ابھی اس معاملہ کو پوشیدہ رکھو کسی پر ظاہر نہ کرو۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اگر چہ اس وقت رات میں ایمان نہیں لائے مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں ایمان کو راسخ کر دیا تھا دوسرے روز صبح ہوتے ہی۔ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کی پیش کی ہوئی ساری باتوں کو قبول کر لیا اسلام لے آئے۔
آپ کی ہجرت:سرکار مدینہ ﷺ نے جب اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مکہ معظمہ سے ہجرت کا ارادہ فرمایا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو بلا کر فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کا حکم ہو چکا ہے لہٰذا میں آج مدینہ روانہ ہو جاؤں گا تم میرے بستر پر میری سبز رنگ کی چادر اوڑھ کر سو رہو تمہیں کوئی تکلیف نہ ہوگی قریش کی ساری امانتیں جو میرے پاس رکھی ہوئی ہیں انکے مالکوں کو دے کر تم بھی مدینہ چلے آنا۔یہ موقع بڑا ہی خوفناک اور نہایت خطرہ کا تھا ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا کہ کفار قریش سونے کی حالت میں حضور ﷺ کے قتل کا ارادہ کر چکے ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو اپنے بستر پر سونے سے منع فرمادیا ہے ۔آج حضور ﷺ کا بستر قتل گاہ ہے ۔لیکن اللہ کے محبوب دانائے خفایا وغیوب جناب احمد مجتبےٰ محمد مصطفےٰ ﷺ کے اس فرمان سے کہ ’’تمہیں کوئی تکلیف نہ ہوگی قریش کی امانتیں دے کر تم بھی مدینہ چلے آنا۔‘‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو پورا یقین تھا کہ دشمن مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچاسکیں گے میں زندہ رہوں گا اور مدینہ ضرور پہنچوں گا۔لہٰذا سرکار مدینہ ﷺ کا بستر جو آج بظاہر کانٹوں کا بچھونا تھا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے پھولوں کی سیج بن گیا ۔ اس لئے کہ ان کا عقیدہ تھا کہ سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکل سکتا ہے مگر حضور ﷺ کے فرمان کے خلاف نہیں ہو سکتا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رات بھر آرام سے سویا صبح اٹھکر لوگوں کی امانتیں ان کے مالکوں کو سونپنا شروع کیں اور کسی سے نہیں چھپا اسی طرح مکہ میں تین دن رہا پھر امانتوں کے ادا کرنے کے بعد میں بھی مدینہ کی طرف چل پڑا ۔راستہ میں بھی کسی نے مجھ سے کوئی تعارض نہ کیا یہانتک کہ میں قبا میں پہنچا ۔اُخوت رَسُول:حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی بہت سی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ سرکار مدینہ ﷺ کے داماد اور چچا زاد بھائی ہونے کے ساتھ’’عقد مواخاۃ ‘‘ میں بھی آپ کے بھائی ہیں جیسا کہ ترمذی شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب مدینہ طیبہ میں اُخوت یعنی بھائی چارہ قائم کیا دو دو صحابہ کو بھا ئی بھائی بنایا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ روتے ہوئے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! آپ نے سارے صحابہ کے درمیان اخوت قائم کی ۔ایک صحابی کو دوسرے صحابی کا بھائی بنایا مگر مجھ کو کسی کا بھائی نہ بنایا میں یوں ہی رہ گیا ۔ تو سرکار مدینہ ﷺ نے فرمایا :انت اخی فی الدنیا والاٰخرۃ۔یعنی تم دنیا اور آخرت دونوں میں میرے بھائی ہو۔(مشکوٰۃ شریف564)
آپ کی شجاعت:حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت اور بہادری شہرۂ آفاق ہے ،عرب و عجم میں آپ کی قوت بازو کے سکے بیٹھے ہوئے ہیں آپ کے رعب و دبدبہ سے آج بھی بڑے بڑے پہلوانوں کے دل کانپ جاتے ہیں ۔جنگ تبوک کے موقع پر سرکار مدینہ ﷺ نے آپ کو مدینہ طیبہ پر اپنا نائب مقرر فرمادیا تھا اس لئے اس میں حاضر نہ ہو سکے باقی تمام غزوات و جہاد میں شریک ہوکر بڑی جانبازی کے ساتھ کفار کا مقابلہ کیا اور بڑے بڑے بہادروں کو اپنی تلوار سے موت کے گھاٹ اتاردیا۔
جنگ بدر میں جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے اسود بن عبد الاسد مخزومی کو کاٹ کر جہنم میں پہنچا یا تو اس کے بعد کافروں کے لشکر کا سردار عتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اپنے بیٹے ولید بن عتبہ کو ساتھ لے کر میدان میں نکلا اور چلاّ کر کہا کہ اے محمد ! (ﷺ) ، اشراف قریش میں سے ہمار ے جوڑ کے آدمی بھیجئے ۔حضور ﷺ نے یہ سن کر فرمایا ۔اے بنی ہاشم !اُٹھو اور حق کی حمایت میں لڑو جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کو بھیجا ہے ۔حضور ﷺ کے اس فرمان کو سن کر حضرت حمزہ ،حضرت علی اور حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہم دشمن کی طرف بڑھے ۔لشکر کے سردار عتبہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے مقابل ہوا اور ذلت کے ساتھ مارا گیا،ولید جسے اپنی بہادری پر بہت بڑا ناز تھا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابلہ کے لئے مست ہاتھی کی طرح جھومتا ہوا آگے بڑھا اور ڈینگیں مارتا ہوا آپ پر حملہ کیا مگر شیر خدا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے تھوڑی ہی دیر میں اسے مار گرایا اور ذوالفقار حیدری نے اس کے گھمنڈ کو خاک و خون میں ملا دیا۔اس کے بعد آپ نے دیکھا کہ عتبہ کے بھائی شیبہ نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو زخمی کر دیا ہے تو آپ نے جھوٹ کر اس پر حملہ کیا اور اسے بھی جہنم پہنچا دیا۔
جنگ احد میں جب کہ مسلمان آگے اور پیچھے سے کفار کے بیچ میں آگئے جس کے سبب بہت سے لوگ شہید ہوئے تو اس وقت سرکار مدینہ ﷺ بھی کافروں کے گھیرے میں آگئے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ اے مسلمانو! تمہارے نبی قتل کر دئیے اس اعلان کو سن کر مسلمان بہت پریشان ہو گئے یہانتک کہ اِدھر اُدھر ہو گئے بلکہ ان میں سے بہت لوگ بھاگ بھی گئے ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ جب کافروں نے مسلمانوں کو آگے پیچھے سے گھیر لیا اور رسول اللہ ﷺ میری نگاہ سے اوجھل ہوگئے تو پہلے میں نے حضور ﷺ کو زندوں میں تلاش کیا مگر نہیں پایا پھر شہیدوں میں تلاش کیا وہاں بھی نہیں پایا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا کہ حضورﷺ میدان جنگ سے بھاگ جائیں لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پاکﷺ کو آسمان پر اُٹھالیا ۔اس لئے اب بہتر یہی ہے کہ میں بھی تلوار لیکر کافروں میں گھس جاؤں یہانتک کہ لڑتے لڑتے شہید ہو جاؤں ۔فرماتے ہیں کہ میں نے تلوار لیکر ایسا سخت حملہ کیا کہ کفار بیچ میں سے ہٹتے گئے اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھ لیا تو مجھے بے انتہا خوشی ہوئی اور میں نے یقین کیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ اپنے حبیب ﷺکی حفاظت فرمائی ۔میں دوڑ کر حضور ﷺ کے پاس جا کر کھڑا ہوا کفار گروہ در گروہ حضور ﷺپر حملہ کرنے کیلئے آنے لگے۔آپ نے فرمایا علی ان کو روکو ،تو میں نے تنہا سب کا مقابلہ کیا اور ان کے منہ پھیر دئیے اور کئی ایک کو قتل بھی کیا ۔اس کے بعد پھر ایک گروہ اور حضور ﷺ پر حملہ کرنے کی نیت سے بڑھا آپ نے پھر میری طرف اشارہ فرمایا تو میں نے پھر اس گروہ کا اکیلے مقابلہ کیا ۔اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آکر حضورﷺ سے میری بہادری اور مدد کی تعریف کی تو آپ نے فرمایا انہ منی وانا منہ۔یعنی’’ بیشک علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں۔‘‘مطلب یہ ہے کہ علی کو مجھ سے کمال قرب حاصل ہے نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان کو سن کر حضرت جبرائیل نے عرض کیا وانا منکما ۔یعنی’’میں تم دونوں سے ہوں۔‘‘سرکار مدینہ ﷺ کو نہ پاکر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شہید ہوجانے کی نیت سے کافروں کے جتھے میں تنہا گھس جانا اور حضورﷺ پر حملہ کرنے والے گروہ درگروہ سے اکیلے مقابلہ کرنا آپ کی بے مثال بہادری اور انتہائی دلیری کی خبر دیتا ہے ساتھ ہی حضور ﷺ سے آپ کے عشق اور سچی محبت کا بھی پتہ دیتا ہے ۔
حضرت کعب بن مالک انصاری سے روایت ہے ۔وہ فرماتے ہیں کہ جنگ خندق کے روز عَمر و بن عبدِ وُد (جو ایک ہزار سوار کے برابر مانا جاتا تھا)ایک جھنڈا لئے ہوئے نکلا تاکہ وہ میدان جنگ کو دیکھے ۔جب وہ اور اس کے ساتھ سوار ایک مقام پر کھڑے ہوئے تو اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے عَمرو !تو قریش سے اللہ کی قسم دے کر کہا کرتا تھا کہ جب کبھی مجھ کو کوئی شخص دو اچھے کاموں کی طرف بلاتا ہے تو میں اس میں سے ایک کو ضرور اختیار کرتا ہوں۔اس نے کہاہاں میں نے ایسا کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں ۔آپ نے فرمایا کہ میں تجھے اللہ و رسول (جل جلالہ ، صلی اللہ علیہ واٰلہٖ واصحابہٖ وسلم )اور اسلام کی طرف بلاتا ہوں ۔عَمرو نے کہا مجھے ان میں سے کسی کی حاجت نہیں ۔حضرت علی نے فرمایا تو اب میں تجھ کو مقابلہ کی دعوت دیتا ہوں اور اسلام کی طرف بلاتا ہوں ۔عَمرو نے کہاا ے میرے بھائی کے بیٹے کس لئے مقابلہ کی دعوت دیتا ہے خدا کی قسم میں تجھ کو قتل کرنا پسند نہیں کرتا ۔حضرت علی نے فرمایا یہ میدان میں پتہ چلے گا دونوں میدان میں آگئے اور تھوڑی دیر مقابلہ ہونے کے بعد شیر خدا نے اسے موت کے گھاٹ اتار کر جہنم میں پہنچادیا ۔
محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ عمرو عبدِ وُد میدان میں اس طرح پر نکلا کہ لوہے کے زر ہیں پہنے ہوئے تھا اور اس نے بلند آواز سے کہا ۔ہے کوئی جو میرے مقابلہ میں آئے ۔اس آواز کو سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور مقابلہ کے لئے حضور ﷺ سے اجازت طلب کی ۔آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ۔ یہ عَمرو بن عبدِ وُد ہے ۔دوسری بار عَمرو نے پھر آواز دی کہ میرے مقابلہ کے لئے کون آتا ہے ؟ اور مسلمانوں کو ملامت کرنی شروع کی ۔کہنے لگا تمہاری وہ جنت کہاں ہے جس کے بارے میں تم دعویٰ کرتے ہوکہ جو بھی تم میں سے مارا جاتا ہے وہ سیدھے اس میں داخل ہو جاتا ہے ۔میرے مقابلہ کیلئے کسی کو کیوں نہیں کھڑا کرتے ہو ۔دوبارہ پھر حضرت علی نے کھڑے ہو کر حضور ﷺ سے اجازت طلب کی مگر آپ نے پھر وہی فرمایا کہ بیٹھ جاؤ تیسری بارعَمرو نے پھر وہی آواز دی اور کچھ اشعار بھی پڑھے۔ راوی کا بیان ہے کہ تیسری بار حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر حضور ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ !میں اس کے مقابلہ کے لئے نکلوں گا۔آپ نے فرمایا کہ یہ عَمرو ہے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا چاہے عَمرو ہی کیوں نہ ہو ۔تیسری بار حضور ﷺ نے آپ کو اجازت دیدی ۔حضرت علی چل کر اس کے پاس پہنچے اور چند اشعار پڑھے ۔
عَمرو نے پوچھا کہ تو کون ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میں علی ہوں۔اس نے کہا عبد مناف کے بیٹے ہو؟آپ نے فرمایا میں علی بن ابی طالب ہوں۔اس نے کہاں اے میرے بھائی کے بیٹے !تیرے چچاؤں میں سے ایسے بھی تو ہیں جو عمر میں تجھ سے زیادہ ہیں میں تیرا خون بہانے کو برا سمجھتا ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا مگر خدا کی قسم میں تیرا خون بہانے کو قطعاً برا نہیں سمجھتا ۔یہ سن کر وہ غصہ سے تلملا اُٹھا ۔گھوڑے سے اتر کر آگ کے شعلہ جیسی سونت لی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف لپکااور ایسا زبر دست وار کیا کہ آپ نے ڈھال پر روکا تو تلوار اسے پھاڑ کر گھس گئی یہانتک کہ آپ کے سر پر لگی اور زخمی کر دیا ۔اب شیر خدا نے سنبھل کر اس کے کندھے کی رگ پر ایسی تلوار ماری کہ وہ گر پڑا اور غبار اڑا۔ رسول اللہ ﷺ نے نعرۂ تکبیر سناجس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی نے اسے جہنم میں پہنچادیا ۔شیر خدا کی اس بہادری اور شجاعت کو دیکھ کر میدان جنگ کا ایک ایک ذرہ زبان حال سے پکار اُٹھا۔
شاہ مرداں شیر یزداں قوتِ پروردگار
لا فتیٰ الا علی لا سیف الا ذوالفقار
یعنی حضرت علی بہادروں کے باد شاہ، خدا کے شیر اور قوت پِروردگار ہیں ۔انکے سوا کوئی جوان نہیں اورذوالفقا ر کے علاوہ کوئی تلوار نہیں ۔
اسی طرح جنگ خیبر کے موقع پر بھی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شجاعت اور بہادری کے وہ جو ہر دکھائے ہیں جس کاذکر ہمیشہ باقی رہے گا اور لوگوں کے دلوں میں جوش وولولہ پیدا کرتارہے گا۔ خیبرکاوہ قلعہ جو ’مرَحَّب کاپایہ تخت تھااس کافتح کرناآسان نہ تھا۔ اس قلعہ کو سر کرنے کے لیے سرکارمدینہ ﷺنے ایک دن حضرت ابو بکر صدیق ر ضی اللہ تعالی عنہ کو جھنڈا عنایت فرمایا اوردوسرے دن حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو عطا فرمایا لیکن فاتح خیبر ہو نا تو کسی اور کے لیے مقدر ہو چکا تھا اس لیے ان حضرات سے وہ فتح نہ ہوا جب اس مہم میں بہت زیادہ دیر ہوئی تو ایک دن سرکار مدنیہ ﷺ نے فرمایا کہ میں یہ جھنڈا کل ایک ایسے شخص کو دوں گا کہ جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائیگا وہ شخص اللہ و رسول کو دوست رکھتا ہے اور اللہ و رسول اس کو دوست رکھتے ہیں ۔ (جل جلالہ ، صلی اللہ علیہ واٰلہٖ واصحابہٖ وسلم)
حضورﷺ کی اس خوشخبری کو سن کر صحابۂ کرام نے وہ رات بڑی بیقراری میں کاٹی اس لئے کہ ہر صحابی کی یہ تمنا تھی کہ اے کاش!رسول اللہ ﷺ کل صبح ہمیں جھنڈا عنایت فرمائیں تو اس بات کی سند ہو جائے کہ ہم اللہ و رسول کو محبوب رکھتے ہیں اور اللہ و رسول ہمیں چاہتے ہیں اور اس نعمت عظمیٰ و سعادت کبریٰ سے بھی سرفراز ہو جاتے کہ فاتح خیبر جاتے ۔اس لئے کہ وہ صحابی تھے ان کا یہ عقیدہ ہر گز نہیں تھا کہ کل کیا ہوے والا ہے حضور ﷺ کو اس کی کیا خبر؟ بلکہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ اللہ کے محبوب دانائے خفایا وغیوب جناب احمد مجتبےٰ محمد مصطفےٰ ﷺ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ کل ہو کر رہے گا۔ اس میں ذرہ برابر فرق نہیں ہو سکتا۔جب صبح ہوئی تو تمام صحابۂ کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین امید یں لئے ہوئے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور ادب کے ساتھ دیکھنے لگے کہ نبی کریم ﷺ آج کس کو سرفراز فرماتے ہیں ۔ سب کی ارمان بھری نگاہیں حضورﷺ کے لب مبارک کی جنبش پر قربان ہو رہی تھیں کہ سرکارمدینہﷺ نے فرمایا:این علی بن ابی طالب۔یعنی علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! وہ آشوب چشم میں مبتلا ہیں ان کی آنکھیں دکھتی ہیں آپ نے فرمایا کوئی جاکر ان کو بلالائے ۔جب حضرت علی رضی اللہ عنہ لائے گئے تو رحمت عالم ﷺ نے ان کی آنکھوں پر لعاب دہن لگایا تو وہ بالکل ٹھیک ہو گئیں ۔حدیث شریف کے اصل الفاظ یہ ہیں ۔فبصق رسول اللّٰہ ﷺ فی عینیہ فبرأ۔اور ان کی آنکھیں اس طرح اچھی ہو گئیں گویا دکھتی ہی نہ تھیں۔ پھر حضورﷺ نے ان کو جھنڈا عنایت فرمایا ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! کیا میں ان لوگوں سے اس وقت تک لڑوں جب تک کہ وہ ہماری طرح مسلمان نہ ہو جائیں ،حضور ﷺ نے فرمایا تم اُن کو اسلام کی طرف بلاؤ اور پھر بتلاؤ کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان پر کیا حقوق ہیں ۔خدا قسم اگر تمہاری کوشش سے ایک شخص کو بھی ہدایت مل گئی تو وہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہوگا۔(بخاری ،مسلم)
اسلام قبول کرنے یا صلح کرنے کی بجائے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مقابلہ کرنے کیلئے مُرَحُّبْ یہ رجز پڑھتا ہوا قلعہ سے باہر کلا۔
مُرَحُّبْ بڑے گھمنڈ سے آیا تھا لیکن شیر خدا علی المرتضیٰ رضی اللہ عہ نے اس زور سے تلوار ماری کہ اس کے سر کو کاٹتی ہوئی دانتوں تک پہنچ گئی اور وہ زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ اس کے بعد آپ نے فتح کا اعلان فرما دیا۔حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس روز آپ نے خیبر کا دروازہ اپنی پیٹھ پر اُٹھالیا تھا اور اس پر مسلمانوں نے چڑھ کر قلعہ کو فتح کر لیا ۔اس کے بعد آپ نے وہ دروزہ پھینک دیا ۔جب لوگوں نے اسے گھسیٹ کر دوسری جگہ ڈالنا چاہا تو چالیس آدمیوں سے کم اسے اُٹھا نہ سکے۔(تاریخ الخلفاء صفحہ 114)
ابن عساکر نے ابو رافع سے روایت کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ خیبر میں قلعہ کا پھاٹک ہاتھ میں لے کر اس کو ڈھال بنالیا وہ پھاٹک ان کے ہاتھ میں برابر رہا اور وہ لڑتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں خیبر کو فتح فرمایا۔اسکے بعد پھاٹک کو آپ نے پھینک دیا۔لڑائی سے فارغ ہونے کے بعد ہمارے ساتھ کئی آدمیوں نے مل کر اسے پلٹنا چاہا مگر وہ نہیں پلٹا۔(تاریخ الخلفاء صفحہ 114)
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور احادیث کریمہ:حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی فضیلت میں اتنی حدیثیں وارد ہیں بلکہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جتنی حدیثیں آپ کی فضیلت میں ہیں کسی اور صحابی کی فضیلت میں اتنی حدیثیں نہیں ہیں ۔ بخاری اور مسلم میں حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ طیبہ میں رہنے کا حکم فرمایا اور اپنے ساتھ نہ لیا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! آپ مجھے یہاں عورتو اور بچوں پر اپنا خلیفہ بنا کر چھوڑے جاتے ہیں ۔تو سرکار مدینہ ﷺ نے فرمایا :کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میں تمہیں اس طرح چھوڑے جاتا ہوں کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ہارون علیہ السلام کو چھوڑ گئے ۔البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔
مطلب یہ ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر جانے کے وقت چالیس د ن کے لئے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ بنایا تھا اسی طرح جنگ تبوک کی روانگی کے وقت میں تم کو اپنا خلیفہ اور نائب بنا کر جا رہا ہوں۔ لہٰذا جو مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نزدیک حضرت ہارون علیہ السلام کا تھا وہی مرتبہ ہماری بارگاہ میں تمہارا ہے ۔اس لئے اے علی !تمہیں خوش ہونا چاہیے ۔تو ایسا ہی ہوا کہ اس خوشخبری سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تسلی ہو گئی ۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سرکار مدینہﷺ نے فرمایا علی سے منافق محبت نہیں کرتا اور مومن علی سے بغض و عداوت نہیں رکھتا۔(ترمذی)
سبحا ن اللہ ! حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کیا ہی بلند و بالا شان ہے کہ سرکار مدینہ ﷺ نے آپ سے محبت نہ کرنے کو منافق ہونے کی علامت ٹھہرایا اور آپ سے بعض و عداوت رکھنے کو مومن نہ ہونے کا معیار قرار دیا ۔یعنی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہ کرے وہ منافق ہے اور جو ان سے بغض و عداوت رکھے وہ مومن نہیں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :من سب علیا فقد سبنی ۔یعنی جس نے علی کو برا بھلا کہا تو تحقیق اس نے مجھ کو برا بھلا کہا۔(مشکوٰۃ)یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضور ﷺ سے اتنا قرب اور نزدیکی حاصل ہے کہ جس نے ان کی شان میں گستاخی و بے ادبی کی تو گویا کہ اس نے حضور ﷺ کی شان میں گستاخی و بے ادبی کی خلاصہ یہ ہے کہ ان کی توہین کرنا حضور ﷺ کی توہین کرنا ہے ۔العیاذ باللّٰہ تعالیٰ۔
حضرت ابوطفیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک د ن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک کھلے ہوئے میدا ن میں بہت سے لوگوں کو جمع کر کے فرمایا کہ میں اللہ کی قسم دے کر تم لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے یوم غدیر خُم میں میرے متعلق کیا ارشاد فرمایا تھا؟ تو اس مجمع سے تیس (30)آدمی کھڑے ہوئے اور ان لوگوں نے گواہی دی کہ حضور ﷺ نے اس روز فرمایا تھا:من کنت مولا فعلی مولاہ اللھم وال من والا ہ وعاد من عاداہ۔ یعنی میں جس کا مولیٰ ہوں علی بھی اسکے مولیٰ ہیں۔ یا الٰہَ العالمین !جو شخص علی سے محبت رکھے تو بھی اس سے محبت رکھ اور جو شخص علی سے عداوت رکھے تو بھی اس سے عداوت رکھ۔(تاریخ الخلفاء )طبرانی حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے اور ترمذی و حاکم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: انا مدینۃ العلم و علی بابھا۔یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں ۔
علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اور جنہو ں نے اس کو موضوع کہا ہے انہو ں نے غلطی کی ہے ۔(تاریخ الخلفاء صفحہ116)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا من احب علیافقداحبنی ۔ یعنی جس نے علی سے محبت کی تو اس نے مجھ سے محبت کی ۔ومن ابغض علیا فقد ابغضنی ومن ابغضنی فقد ابغض اللّٰہ۔یعنی جس نے علی سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی ۔اور جس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی ۔(تاریخ الخلفاء بحوالہ طبرانی)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے۔انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ تمہاری حالت حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسی ہے کہ یہودیوں نے ان سے یہاں تک دشمنی کی کہ ان کی والدہ حضرت مریم (رضی اللہ عنہا) پر تہمت لگائی اور نصاریٰ نے ان سے محبت کی تو اس قدر حد سے بڑھ گئے کہ ان کو اللہ یا اللہ کا بیٹا کہہ دیا ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تو کان کھول کر سن لو۔میرے بارے میں بھی دو گروہ ہلاک ہوں گے ۔ایک میری محبت میں حد سے تجاوز کرے گا اور میری ذات سے ایسی باتوں کو مسوب کرے گا جو مجھ میں نہیں ہیں اور دوسرا اگر وہ اس قدر بغض و عداوت رکھے گا کہ مجھ پر بہتان لگائے گا۔(تاریخ الخلفاء)
آپ کا علم:حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم علم کے اعتبار سے بھی علمائے صحابہ میں بہت اونچا مقام رکھتے ہیں ۔سرکار مدینہ ﷺ کی بہت سے حدیث آپ سے مروی ہیں ۔آپ کے فتوے اور فیصلے اسلامی علوم کے انمول جواہر پارے ہیں ۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ہم نے جب بھی آپ سے کسی مسئلہ کو دریافت کیا تو ہمیشہ درست ہی جواب پایا۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سامنے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ علی سے زیادہ مسائل شرعیہ کا جاننے والا کوئی نہیں ہے ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مدینہ طیبہ میں علم فرائض اور مقدمات کے فیصلہ کرنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی دوسرا نہیں تھا اور حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کے صحابہ میں سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کوئی یہ کہنے والا نہیں تھا کہ جو کچھ پوچھنا ہو مجھ سے پوچھ لو۔(تاریخ الخلفاء)
مشہور ہے کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک ایسی عورت پیش کی گئی جسے زنا کا حمل تھا۔ ثبوت شرعی کے بعد آپ نے اس کے سنگسار کا حکم فرمایا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یاد دلایا کہ حضور سید عالم ﷺ کا فرمان ہے کہ حاملہ عورت کو بچہ پیدا ہونے کے بعد سنگسار کیا جائے ۔اس لئے کہ زنا کرنے والی عورت اگر چہ گنہگار ہوتی ہے مگر اس کے پیٹ کا بچہ بے قصور ہوتا ہے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یاددہانی کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے فیصلہ سے رجوع کرلیا اور فرمایا: لولا علی لھلک عمر۔یعنی علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا۔ علی کی موجودگی نے عمر کو ہلاکت سے بچا لیا۔(رضی اللہ عنہما)
آپ کی شہادت:حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے 17رمضان المبارک 40 ؁ ھ کو علی الصبح بیدار ہو کر اپنے بڑے صاحبزادے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا آج رات خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت ہوئی تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کی امت نے میرے ساتھ کجروی اختیار کی ہے اور سخت نزاع برپا کر دیا ہے ۔حضور ﷺ نے فرمایا تم ظالموں کے لئے دعا کرو۔تو میں نے اس طرح دعا کی کہ یا الٰہ العالمین ! تو مجھے ان لوگوں سے بہتر لوگوں میں پہنچا دے اور میری جگہ ان لوگو پر ایسا شخص مسلط کر دے جو برا ہو۔ابھی آپ یہ بیان ہی فرمارہے تھے کہ مؤذ ن نے آوازدی الصلاۃ الصلاۃ ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے کے لئے گھر سے چلے ۔راستے میں لوگوں کو نماز کے لئے آواز دے دے کر آپ جگاتے جاتے تھے کہ اتنے میں ابن ملجم آپ کے سامنے آگیا اور اس نے اچانک آپ پر تلوار کا بھرپوروار کیا وار اتنا سخت تھا کہ آپ کی پیشانی کنپٹی تک کٹ گئی اور تلوار دماغ پر جا کر ٹھہری ۔ شمشیر لگتے ہی آپ نے فرمایا :فزت برب الکعبۃ۔یعنی رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا ۔آپ کے زخمی ہوتے ہی چاروں طرف سے لوگ دوڑ پڑے اور قاتل کو پکڑ لیا۔(تاریخ الخلفاء)
آپ کی وصیت:حضرت عقبہ بن ابی صہبا کہتے ہیں کہ جب بد بخت ابن ملجم نے آپ پر تلوار کا وار کیا یعنی آپ زخمی ہو گئے تو امام حسن رضی اللہ عنہ روتے ہوئے آپ کی خدمت میں آئے ۔آپ نے ان کو تسلی دی اور فرمایا بیٹے!میری چار باتوں کے ساتھ چار باتیں یاد رکھنا۔حضرت امام حسن نے عرض کیا وہ کیا ہیں فرمائیے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:اول سب سے بڑی تو نگری عقل کی توانائی ہے ۔دوسرے بیوقوفی سے زیادہ کوئی مفلسی اور تنگدستی نہیں۔ تیسرے غرور و گھمنڈ سب سے سخت و حشت ہے ۔چوتھے سب سے عظیم خُلق کرم ہے۔حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ دوسری چار باتیں بھی بیان فرمائیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ( اول) احمق کی محبت سے بچو۔اس لئے کہ نفع پہچانے کا ارادہ کرتا ہے لیکن نقصان پہنچ جاتا ہے ۔ (دوسرے) جھوٹے سے پرہیز کرو۔اس لئے کہ وہ دور کو نزدیک اور نزدیک کو دور کر دیتا ہے ۔(تیسرے) بخیل سے دور رہو۔اس لئے کہ وہ تم سے ان چیزوں کو پھرادے گا جنکی تم کو حاجت ہے ۔(چوتھے) فاجر سے کنارہ کش رہو ۔اس لئے کہ وہ تمہیں تھوڑی سی چیز کے بدلے میں فروخت کر ڈالے گا۔(تاریخ الخلفاء)حضرت علی رضی اللہ عنہ سخت زخمی ہونے کے باوجود جمعہ و ہفتہ تک بقید حیات رہے لیکن اتوار کی رات میں آپ کی روح بارگاہ قدس میں پرواز کر گئی اور یہ بھی روایت ہے کہ 19رمضان المبارک جمعہ کی شب میں آپ زخمی ہوئے اور 21رمضان المبارک شب اتوار 40 ؁ ھ میں آپ کی وفات ہوئی ۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
چار برس آٹھ ماہ نو دن آپ نے امور خلافت کو انجام دیا اور ترسٹھ سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوا۔حضرت امام حسن ،حضرت امام حسین اور حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم نے آپ کو غسل دیا اور آپ کی نماز جنازہ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے پڑھائی ۔آپ کے دفن سے فارغ ہونے کے بعد امیر المؤمنین کے قاتل عبد الرحمن بن ملجم کو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے قتل کر دیا ۔
اقوال ذریں حضرت علی رضی اللہ عنہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بہت سے اقوال ہیں جو آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ان میں سے چندنظرقارئین ۔(1)علم مال سے بہتر ہے،علم تیری حفاظت کرتا ہے اور تو مال کی،علم حاکم ہے اور مال محکوم ،مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے اور علم خرچ کرنے سے بڑھتا ہے ۔(2)عالم وہی شخص ہے جو علم پر عمل بھی کرے اور اپنے عمل کو علم کے مطابق بنائے۔(3)حلال کی خواہش اسی شخص میں پیدا ہوتی ہے جو حرام کمائی چھوڑنے کی مکمل کوشش کرتا ہے ۔(4)تقدیر بہت گہرا سمند ر ہے اس میں غوطہ نہ لگاؤ۔(5)خوش اخلاقی بہترین دوست ہے اور ادب بہترین میراث ہے۔(6)جاہلوں کی دوستی سے بچو کہ بہت سے عقلمندوں کو انہوں نے تباہ کر دیا ہے ۔ (7)اپنا راز کسی پر ظاہر نہ کرو کہ ہر خیر خواہ کیلئے کوئی خیر خواہ ہوتا ہے ۔ (8)انصاف کرنے والے کو چاہئے کہ جو اپنے لئے پسند کرے وہی دوسروں کے لئے بھی پسند کرے۔

اپنا تبصرہ لکھیں