غیرملکی مجرموں کی وطن واپسی

اس برس پچھلے سال کی نسبت آٹھ ایسے مجرم کم تعداد میں اپنے ملکوں کو واپس بھیجے گئے جنہیں ناروے میں جرم کی سزا سنائی گئی۔یہ ایک توجہ طلب کام ہے ۔جبکہ پچھلے برس ایسے مجرموں کی تعداد اڑتیس تھی۔یہ وہ مجرم ہیں و کہ بااقی سزاء اپنے ملکوں میں پوری کریں گے۔
ہم نہیں سمجھتے کہ مجرموں کو ان کے ممالک تک پہنچانے کاکام تسلی بخش ہے۔اس کام میں مزید محنت کی ضرورت ہے۔یہ بات وزارت انصاف کیاسٹیٹ سیکرٹری وداربرائن کارلسن نے ایک اخبای بیان میں کہی۔ Vidar Brein-Karlsen۔اس کے علاوہ نارویجن جیلوں کی حالت مجرموں کے ممالک کی نسبت بہت بہترہیاس لیے بہترہے کہ یہ مجرم اپنے ملکوں کی جیلوں میں سزاء بھگتیں۔اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ناروے میں جرم کرنا اتنا آسان نہیں۔
مجرموں کی ان کے ممالک میں منتقلی سے مقامی جیلوں میں جگہ بھی خالی ہوجاتی ہے۔تاہم یہ ایک مشکل کام ہے۔اس لیے کہ ایسے کیسز نبٹانے میں بہت وقت لگ جاتا ہے۔جبکہ حکومت نے سالانہ مجرموں کی اپنے ملکوں کی جانب ٹرانسفر کا ہدف ایک سو رکھا ہوا ہے۔سب سے بڑا چیلنج مجرم وصول کیے جانے والے ممالک میں کیس کو کم وقت میں نبٹانا ہے۔ایک تجویز یہ بھی زیر غور ہے کہ مجرموں کے ممالک کو ان کی قید کے اخراجات کی ادائیگی بھی کی جائے۔
NTB/UFN

اپنا تبصرہ لکھیں