غضب خداوندی کو دعوت !

ایم ودودساجد

دفعہ 377ایک بار پھر زیر بحث ہے۔یہ دفعہ ہندوستان میں ہم جنس پرستی کو ’’جرم‘‘قرار دیتی ہے جو مستوجب سزا ہے۔اس دفعہ کے خلاف مختلف اقسام کے ہم جنس پرست ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ تک جاچکے ہیں ۔دہلی ہائی کورٹ اس دفعہ کی روسے ہم جنس پرستی کو مستوجب سزا جرم قرار دے چکی ہے جس کوسپریم کورٹ ماضی میں جائز ٹھہرا چکی ہے۔لیکن اب سپریم کورٹ میں دوبارہ ہم جنس پرستوں نے فریاد کی ہے اور اس کے فیصلہ پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔عام طورپریہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی اپیلوں کو جنہیں انگریزی میں ’’کیوریٹوپٹیشن‘‘کہا جاتا ہے‘سپریم کورٹ کاایک جج یا ایک سے زیادہ جج اپنے پرائیویٹ چیمبرمیں سرسری جائزہ کے بعدمستردکردیتے ہیں۔لیکن اس معاملہ میں یہ نہیں ہوا بلکہ سپریم کورٹ نے اس معاملہ کو پانچ رکنی آئینی بنچ کے سپرد کردیا ہے۔اس سے حوصلہ پاکرہم جنس پرست اور ان کے حامی خوشی سے سرشار ہیں اور انہوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ بس اب سپریم کورٹ جلد ہی ان کے ’’حق‘‘کو تسلیم کرلے گی اور ہم جنس پرستی کو جرم کے زمرہ سے نکال کر فرد کے ذاتی اورجائزحق میں تبدیل کردے گی۔
اس سلسلہ میں مجھے یاد ہے کہ جولائی 2011میں اس وقت کے مرکزی وزیر صحت غلام نبی آزاد نے ہم جنس پرستی کی روز افزوں وبا پر ایک بیان دیا تھا کہ یہ سراسر غیر اخلاقی اور غیر فطری عمل ہے اور اس کے نتیجہ میں نہ صرف معاشرتی مسائل سر اٹھاتے ہیں بلکہ بہت سے مہلک امراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔مگر خود ان کی جماعت میں موجود’ہم جنس پرستی کے حامیوں‘ نے انہیں اپنے بیان کی مختلف تاویلیں گڑھنے اور آخرکار اس سے منحرف ہوجانے پرمجبور کردیاتھا۔یہ ایک تاریخ ہے کہ ہم جنس پرستی کے اس فعل پرقائم رہنے کے نتیجہ میں عہد قدیم کی ایک پوری قوم عذاب خداوندی میں مبتلا ہوکر تباہ وبرباد ہوچکی ہے۔اس کا ذکر قرآن کریم میں ایک سے زائد مقامات پر موجود ہے اور لوطؑ نامی جس نبی کے زمانہ میں یہ قوم ‘ عذاب خداوندی کا شکار ہوئی اسی کے نام پر اس مذموم فعل کے مرتکبین آج تک پکارے جاتے ہیں۔لوط ؑ کو خاص اسی مرض کی شکار قوم کی طرف مبعوث کیا گیا تھاتاکہ وہ اسے باز رکھیں اور اس پر اللہ کے غضب سے انہیں آگاہ کردیں۔اس فعل قبیح پر‘ سمجھانے کے باوجود قائم رہنے کی پاداش میں خدا نے قوم لوط کو ایک بھیانک عذاب میں مبتلا کردیا۔ جو افراد لوط علیہ السلام کے ساتھ بستی سے باہر نکل گئے وہ عذاب سے محفوظ رہے ۔ لوطؑ کی کوشش کے باوجود ان کی بیوی ان کے ساتھ نہ نکلی اور وہ بھی عذاب خداوندی کا شکار ہوگئی۔ان کی بیوی مخالفین کے لئے مخبری کیا کرتی تھی‘ اس نے عذاب والے دن بھی شوہر کی نافرمانی کی اور پیچھے رہ گئی۔
واقعہ یہ ہے کہ یہ فعل ‘گناہ سے بھرپورایک بیماری ہے جس کا دوہرا اثر معاشرہ پر پڑتا ہے۔اس کے نتیجہ میں مہلک امراض تو پیدا ہوتے ہی ہیں ساتھ ہی یہ غضب خداوندی کو بھی دعوت دیتا ہے۔ہمارا ملک پہلے ہی ایڈز کے خوفناک اعداد وشمار کا سامنا کر رہا ہے۔ایسے میں ہم جنس پرستی کو فروغ دینا ہندوستانی شہریوں کو ایڈز جیسا مہلک مرض خریدنے پرمجبور کرنے کے مترادف ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ہندوستان میں ایڈز زدگان کی تعداد35لاکھ سے اوپر پہنچ چکی ہے۔اور کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ وہ کس تیزی کے ساتھ فروغ پارہی ہے۔اس لئے کہ نہ تو حکومت کے طبی ادارے آخری ایڈز زدہ فرد تک پہنچنے کا دعوی کر سکتے ہیں اور نہ ہی ایڈز سے متاثر ہر فرد طبی ادارے تک پہنچتا ہے۔اس کے برخلاف ہم جنس پرست کھل کراپنی ادت اور شوق کا فخریہ اظہار کر رہے ہیں اور اس کو انسانی آزادی کا لبادہ اوڑھاکرجائز قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس مردود فعل کی بانی قوم لوط ہی تھی ‘اس سے پہلے اس مرض میں کوئی دوسری قوم مبتلا نہیں ہوئی تھی۔اسی لئے لوطؑ نے اپنی قوم کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ تم ایسا فحش کام کیوں کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا ۔تم عورتوں(بیویوں) کی بجائے مردوں سے شہوت کرتے ہو۔لوط ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے تھے جو ان کے ساتھ عراق سے ہجرت کرکے ملک شام آئے تھے۔ان کو سدوم اور اس کے گردونواح کی بستیوں کی طرف بھیجا گیا تاکہ وہ اس فعل قبیح میں ملوث لوگوں کو عذاب خداوندی سے ڈرائیں۔ لیکن انہوں نے اپنے نبی کا مذاق اڑایا اور آخر کار انہوں نے کہہ دیا کہ تم اتنے پاک صاف بنتے ہو تو تمہارا ہماری بستی میں کیا کام ہے۔اس سلسلہ میں قرآن پاک میں جو تفصیل ملتی ہے اس کی تلخیص یہ ہے کہ ایک روز خدا کے فرشتے لوط ؑ کے گھر انسانوں کی شکل میں آگئے ۔اس سے قبل وہ حضرت ابراہیم ؑ کے گھر ہوکر آئے تھے اور ان کو بتادیا تھا کہ ہم قوم لوط پر عذاب مسلط کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ابراہیم ؑ نرم دل نبی تھے ‘انہوں نے فریاد کی کہ خداوندا ایسا نہ کیا جائے لیکن خدانے کہہ دیا کہ فیصلہ تو ہوچکا ہے اور اب آپ اس معاملہ میں نہ پڑیں۔خوش شکل نوجوانوں کی صورت میں جب فرشتوں کی جماعت لوط کے گھر پہنچی تو وہ گھبراگئے کہ اب بستی کے لوگ میرے مہمانوں کی بے حرمتی کریں گے۔ ان کی قوم دوڑی ہوئی آئی اور ان نوجوانوں کو حوالے کرنے کا مطالبہ کرنے لگی۔ لوط نے کہا کہ’ لوگو یہ میری بیٹیاں(بغرض نکاح) تمہارے لئے پاک ہیں‘اللہ سے ڈرو اور مجھے مہمانوں کے سامنے رسوا نہ کرو‘کیا تم میں کوئی ایک بھی نیک چلن مرد نہیں ہے‘ان مردود لوگوں نے جواب دیا کہ ہمیں آپ کی بیٹیوں سے کوئی غرض نہیں ‘آپ کو معلوم ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں۔اس پر لوطؑ نے بے بسی کے ساتھ کہا کہ کاش میں تمہارے مقابلہ میں طاقتور ہوتا یا کسی محفوظ پناہ گاہ میں جابیٹھتا۔فرشتوں نے لوط ؑ کی بے بسی دیکھی تو انہوں نے کہہ دیا کہ اے لوط مت گھبراؤ‘ہم خدا کے بھیجے ہوئے آئے ہیں۔وہ لوگ آپ تک نہیں پہنچ سکیں گے اور آپ صبح کے قریب بستی سے نکل جائیے اور مڑکر نہ دیکھئے۔لیکن آپ کی بیوی کو بھی وہی پہنچ کر رہے گا جو آپ کی قوم کو پہنچے گا۔اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور ملک شام میں آج بھی وہ بستی اپنی ہیبت ناکی کے ساتھ موجود ہے۔اس بستی کو قرآن کے الفاظ میں تہہ وبالا کردیا گیااور اس پر پتھروں کی بارش کردی گئی۔
افسوس اس بات کا ہے کہ35لاکھ سے زیادہ ایڈز زدگان کا ملک ہونے کے باوجود ہندوستان کا میڈیا اور روشن خیال طبقات اس مذموم فعل اور اس قبیح عادت میں ملوث گروپوں کی خیر خواہی میں اٹھاپٹخ مچارہے ہیں۔رشی منیوں اور صوفی سنتوں کے اس قدیم ملک میں یہ بھی دیکھنا پڑا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک بدفعل پروفیسر کی حمایت میں یہی نام نہاد طبقات سامنے آگئے اور ملت کی اس عظیم دانش گاہ کو ہم جنس پرستوں کا اکھاڑہ بنانے کی کوشش کی۔ایک اچھی بات یہ ہے کہ عدالت عظمی میں جہاں دیگر مختلف مذہبی گروپوں نے ہم جنس پرستوں کی اپیل پر اپنے اعتراضات داخل کئے ہیں وہیں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ بھی ایک فریق کی حیثیت سے موجود ہے۔یہ معاملہ صرف مسلمانوں یا اسلام کا نہیں ہے بلکہ یہ معاملہ ہندوستان کی اقداروروایات کے تحفظ کا بھی ہے۔جس ملک میں بدعملی کی انتہا ’’نربھیا‘‘کی شکل میں سامنے آگئی ہووہاں اس فعل قبیح کے حامی گروپوں کا ساتھ دینے والے دانشوروں کا اس شدت سے سامنے آنا بہت اکھرتا ہے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم اس ملک کو کہاں لے کر جارہے ہیں۔اب سارا دارومدار سپریم کورٹ کی آئینی بنچ پر ہے۔جہاں تک فرد کی انسانی آزادی اور ذاتی زندگی کا سوال ہے تو بلا شبہ یہ اس کا حق ہے کہ وہ بند دروازوں اور دیواروں کے پیچھے جو چاہے کرے۔اس حق کو بہر حال کسی بھی قانون کے تحت نہیں چھینا جاسکتا لیکن ننگے ہوکر اور سڑکوں پر شور مچاکر اس مذموم فعل میں سرعام ملوث ہونے کا حق مانگنامعاشرہ کو تباہی کی طرف دھکیلنے کے سوا اور کچھ نہیں۔کیا ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اس صورت کو قبول کرلے گا؟

اپنا تبصرہ لکھیں