غرناطہ کی جامع مسجد، سپین میں احیائے اسلام کی مظہر

عارف محمود کسانہ۔

سویڈن
غرناطہ شہر میں الحمراء کے بالکل مقابل مسلمانوں کا محلہ ہوا کرتا تھا جہاں پھر سے کچھ مسلم گھرانے آباد ہیں۔ یہیں پر 2003ء جامع مسجد غرناطہ تعمیر کی گئی ہے۔ا سی غرناطہ سے پھر اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہورہی ہیں جسے پانچ صدیاں پہلے جبراََ بند کردیا گیا تھا۔ آج اسپین ماضی کے اس اسپین سے مختلف ہے۔ اب یہاں اسلام دوسرا بڑا مذہب ہے اوریہاں ایک ہزار کے قریب مساجد ہیں جن میں تیرہ بڑی اور شاندار مساجد ہیں۔ غرناطہ کی اس مسجد سے جب اللہ اکبر کی صدابلند ہوتی ہے تو الحمراء کے در و ویوار اسے اسے سن کر عہد ماضی کو یاد کرتے ہوں گے۔ اس مسجد کی تعمیر کی اجازت دے کر گویا اہل ہسپانیہ نے ماضی کے جبر کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس مسجد کی محراب، مسجد قرطبہ میں مشہور محراب کی عین مطابق ہے اور جس کے سامنے کھڑے ہوکر مسجد قرطبہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ مسجد کے قبلہ کھڑکیاں استنبول کی نیلی مسجد کی کھڑکیوں کا ہو بہو عکس ہیں۔ مسجد کا فورا مراکش کے شہر فیض کے ماہر کاریگروں نے ایک ہزار سال پرانے اوراندلسی ڈیزائن اور تکنیک کے مطابق تیار کیا ہے۔ مسجد کو دیواروں دیودار کی لکڑی کے پینل پر ہاتھ سے کندہ قرآن کی آیات وہی منظر پیش کرتی ہیں جو اندلس میں ماضی کی عظیم عمارتوں میں نظرآتا ہے۔ مسجد کے کثیر رنگ کی سنگ مر مر کی ٹائل یروشلم کی مسجد اقصیٰ کی طرح ہیں۔مسجد کے صحن میں ولا غالب الا اللہ کی تختی آویزاں ہے جو ناصری پیلس الحمرا میں کثرت سے دیواروں پر کندہ ہے۔ گویا ایک پیغام دیا گیا ہے کہ چھ صدیوں بعد بھی اس سرزمین میں اللہ کی کبریائی کا اعلان ہے۔
مسجد کا مینار اگرچہ زیادہ بلند نہیں لیکن پوری شان کے ساتھ کھڑا ہے جہاں سے پانچ وقت اذان دی جاتی ہے، اس اذان کی صدا جب یہاں تو بلند ہوتی ہے الحمراء کے درودیوار وجد میں آجاتے ہیں اور انہیں وہی سرور آتا ہوگا جب وہاں سے کبھی اذان کی صدائیں بلند ہوتی تھیں – مسجد کا مینارجو اندلس میں مسلم دور کے البیازین انداز میں ڈیزائن اور تعمیر کیا گیا ہے۔گویا اس مسجد کی تعمیر میں پورے اندلس میں مسلمانوں نے شاندار ماضی اور تاریخی ورثہ کو ایک جگہ یکجا کردیا گیا ہے۔مسجد کا مینار قریب بہنے والے ریائے دارو کی وادی میں ساتھ کھڑے الحمراا ورسیرا نیواڈا کی چوٹیوں کے ساتھ بڑی شان سے کھڑا ہے۔مسجد کے امام کا کہنا ہے کہ ہم نے فیصلہ کیا کہ اذان لاوڈ سپیکر کے بغیر دی جائے گی تاکہ مقامی آبادی کو گراں نہ گذرے لیکن پھر بھی ہمیں کچھ خدشات تھے کہ جب یہاں اذان کی آواز بلند ہوگی تو کہیں منفی رد عمل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہمیں اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب اذان کی آواز بلند ہوئی تو مقامی آبادی جس میں بہت سے غیر مسلم ہیں، اپنے گھر کی کھڑیوں اور بالکونیوں سے سننے لگے اور کسی قسم کا اعتراض نہ کیا۔ میں یہاں سویڈن میں پاکستان کے سابق سفیر جناب طارق ضمیر کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے ہمیں اس مسجد کا دورہ کرنے کو کہا۔ اگر ہم اسے نہ دیکھتے تو بہت افسوس ہوتا۔
گریناڈا کی مسجد تین اہم حصوں پر مشتمل ہے یعنی نماز ادا کرنے کے لئے ہال، مرکز برائے علوم اسلامیہ جس میں سیمنار ہال بھی ہے اور مسجد کا باغ۔ مسجد کا باغ بھی الحمراء کا عکس ہے اور یہاں پائن، زیتون، انار، اورنج اور لیموں لگائے گئے ہیں۔ مسجد کے صحن میں الحمراء کی یاد کو تازہ کرنے کے لئے اسی طرز کے دو فوارے لگائے گئے ہیں۔ سال 2003 کے موسم گرما میں گریناڈا کی مسجد کا افتتاح ایک تاریخی واقعہ ہے جسے ری یونین کا جشن قرار دیا گیا کیونکہ یہ الحمرا ا اور سیرا نیواڈا کے ساتھ بڑے شاہانہ اور پروقار انداز میں نظر آتی ہے۔ یہ عظیم مسجد الحمراا کی روح کو لئے ہوئے ہے اور اس کی تزئین اسی انداز میں کی گئی ہے۔یہ مسجد، 500 سال کے وقفے کے بعد فکر اسلامی کے گمشدہ روابط کی بحالی کا عظیم فریضہ سر انجام دے رہی ہے۔ یہ محض ایک مسجد نہیں بلکہ چھ صدیوں کے بعد اسی عظمت رفتتہ کا دور یاد دلاتی ہے جس میں، انسانی ترقی اور سرگرمی کے تمام شعبوں میں بھرپور شراکت موجود تھی۔
گریناڈا کی مسجد اسلام میں پائے جانے والے پیغمبرانہ پیغام کویورپ اور مغربی دنیا میں عکاسی کرتی ہے۔جہاں یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے وہ مسلم علاقہ کہلاتا تھا۔
مسجد کے سینٹر فار اسلامک سٹڈیز میں ایک لائبریری ہے جس میں عربی، ہسپانوی، انگریزی اور دیگر زبانوں میں اسلام پرکتب موجود ہیں۔مسجد میں روزانہ پانچ نمازیں اور جمعہ کی نمازیں ہوتی ہیں۔ یہ روزانہ تلاوت اور قرآن کا مطالعہ بھی کرتا ہے۔سپین میں اگرچہ ایک ہزار سے زائد مساجد موجود ہیں جن میں تیرہ بڑی مساجد ہیں لیکن اس مسجد کی شان نرالی ہے۔ اس میں مسلم دور کے اندلس کی روح کو سمودیا گیا ہے اور یہاں آکر ایک لمحے کے لئے یہی احساس ہوتا ہے کہ ہم چھ صدیاں پیچھے چلے گئے ہیں۔ یہ مسجد عام سیاحوں کے لئے بھی دن گیا رہ بجے سے کھول دی جاتی ہے اور اکثر سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں۔ یہ خوش آئند ہے کہ مسجد انتظامیہ نے غیرمسلم سیاحوں کو بھی یہاں آنے کی عام اجازت دے رکھی ہے۔ اس مسجد ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس کا انتظام مسلم تارکین وطن کی بجائے مقامی ہسپانوی مسلمانوں کے پاس ہے اور وہ اسے ماضی کی روایت سے جوڑتے ہوئے مستقبل کی جانب گامزن ہیں۔ مسجد کے دورہ کے موقع پر نماز کا وقت تو نہیں تھا لیکن جبین پہ سجدے تڑپ رہے تھے اس لئے نوافل ادا کرکے دلی اطمینان حاصل کیا۔ غرناطہ کے دورہ کے دوران اگر اس مسجد کا دورہ نہیں کیا تو سمجھیں کی دورہ مکمل نہیں۔الحمراء کو دیکھنے کے بعد جو دل بوجھل اور دکھی ہوتا ہے، اس کا مداوا یہاں آکر ہوجاتا ہے۔ غرناطہ دیکھنے کے بعد ہم جبرالٹر کی جانب محو سفر ہوئے۔ اگلی قسط میں اس سفر کا احوال اور جبل الطارق کے دورہ کی تفصیل قارئین پڑھ سکیں گے۔
جب

اپنا تبصرہ لکھیں