‘ عید میلاد’ کے موجِد

Selection of Sajida Perveen

(1) ‘عیدِ میلاد’ کی تاریخ

عید میلاد’ کے موجِد

عہدِ نبویﷺ،عہدِصحابہ ،نیزتابعینِ عظام اوراُن کے بعدکے ادوارمیں’عیدِمیلاد’ کاکوئی تصورنہیں تھا،بلکہ یہ بدعت بہت بعدمیں ایجادہوئی،یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کاانکارمیلاد منانے والے بھی نہیں کرسکتے ۔لہٰذاجب یہ بات مسلّم ہے کہ اس عمل کی ایجاد بعد میں ہوئی توہمیں یہ ضرور پتہ لگاناچاہیےکہ اس کی ایجاد کب ہوئی ؟اور اسے ایجاد کرنے والے کون لوگ تھے؟اس سلسلے میں جب ہم تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تومعلوم ہوتاہے کہ اس بدعت کی ایجاد فاطمی دور )362ھ – 567ھ ( میں ہوئی اور اسے ایجاد کرنے والے بھی فاطمی خلفاہی تھے،احمد بن علی بن عبد القادر(متوفی۸۴۵ھ) لکھتے ہیں:

وکان للخلفاء الفاطمیین في طول السنة أعیاد ومواسم وهي موسم رأس السنة، موسم أوّل العام، ویوم عاشورآء، ومولد النبي ﷺ…1

یعنی ”فاطمی خلفا کے یہاں سال بھرمیں کئی طرح کے جشن اورمحفلوں کاانعقاد ہوتاتھااوروہ یہ ہیں:سال کے اختتام کاجشن،نئے سال کاجشن،یوم عاشورا کا جشن،اورمیلاد النبیﷺکاجشن۔”

اور تقریباًیہی بات احمد بن علی بن احمد فزاری (متوفی:۸۲۱ھ)نے کچھ یوں نقل کی ہے:

اَلْجُلُوسُ الثَّالِث جُلُوسه فِي موْلدِ النَّبِیِّ ﷺ فِي الثَّانِي عَشرَ مِنْ شَهرِ رَبِیْعِ الأوَّلِ وَکَانَ عَادَتهُمْ فِیهِ أنْ یَّعمَلَ فِي دَارِ الْفِطْرةِ عِشرُونَ قِنطَارًا مِنَ السُّکَّرِ الفَائِقِ حلْویٰ مِنْ طَرَائِفِ الأصْنَافِ، وَتَعبّی فِي ثَلاثَ مِائَة صیْنِیة نُحَاسٍ. فَإذَا کَانَ لَیلَةُ ذٰلِكَ الـموْلِد، تَفَرَّقَ فِي أرْبَابِ الرُّسُوْمِ: کَقَاضِی الْقُضَاةِ، وَدَاعِي الدُّعَاةِ، وَقُرّاء الْحضرَةِ، وَالخُطبَاء، وَالمتصَدّرِینْ بِالجَوامِعِ القَاهِرَةِ وَمِصرَ، وَقَومة المُشَاهِدِ وَغَیْرهم مِمَّن لَه اسْم ثَابِت بِالدِّیوَانِ2

”تیسرا جلوس ربیع الاوّل کو میلاد النبیﷺکا نکالا جاتا تھا ۔اس جلوس میں ان کا طریقہ یہ تھا کہ ‘دار الفطرہ’ میں20قنطار عمدہ شکر سے مختلف قسم کا حلوہ تیار کیا جاتااور پیتل کے تین سو برتنوں میں ڈالا جاتا اور جب میلاد کی رات ہوتی تو اس حلوہ کو مختلف ذمہ داران مثلاًقاضی القُضاۃ ،داعی الدُعاۃ ،قرا، واعظین ،قاہر ہ اور مصرکی جامع مساجد کے صدور ،مزاروں کے مجاور ونگران اور دیگر ایسے لوگوں میں تقسیم کر دیا جاتا جن کا نام رجسٹرڈ ہوتا ۔”

مولانا سید سلیمان ندوی  لکھتے ہیں :

”اسلام میں میلاد کی مجلسو ں کارواج غالباًچوتھی صدی سے ہوا۔”3

مذکورہ حوالوں سے معلوم ہواکہ ‘عید میلاد’ فاطمی دور( 362ھ- 567ھ ) میں ایجاد ہوئی اور اسے ایجاد کرنے والے فاطمی خلفا ہی تھے۔4

فاطمی خلفا کی حقیقت

اب آیے دیکھتے ہیں کہ اس بدعت کوایجاد کرنے والے فاطمی خلفا حقیقت میں کون تھے ؟ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ فاطمی خلفا، آپ ﷺکی صاحبزادی سیدہ فاطمہ ؓ کی نسل سے ہرگز نہیں تھے ،بلکہ یہ لوگ یہودیوں اورمجوسیوں کی اولاد تھے اور اسلام کے کٹر دشمن تھے،اُنہوں نے اسلام کومٹانے کے لیے اسلام کالبادہ اوڑھ لیااور سراسر جھوٹ اور فریب کا سہارا لیتے ہوئے اپنے آپ کوفاطمی النسل ظاہرکیا،لیکن علماے وقت نے اُن کے اس جھوٹ کاپردہ چاک کردیااور صاف اعلان کردیا کہ یہ لوگ فاطمی النسل ہرگز نہیں ہیں ۔چنانچہ علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں:

وأهل العلم بالأنساب من المحققین ینکرون دعواه في النسب5

”ماہر انساب محقق علما نے ان کے فاطمی النسل ہونے کے دعوی کی تردید کی ہے۔”

بلکہ 402ھ میں تو اہل سنّت کے اکابرکا ایک اجلاس ہواجس میں چوٹی کے محدثین،فقہا ، قاضیوں اور دیگر بزرگان نے شرکت کی اور سب نے متفقہ طور پریہ فیصلہ دیا کہ خود کوفاطمی النسل ظاہر کرنے والے خلفا جھوٹے اورمکار ہیں، اہل بیت سے ان کاکوئی تعلق نہیں ہے، پھرعلما کے اس متفقہ فیصلہ کوتحریری شکل میں لکھاگیااورتمام لوگوں نے اس پردستخط 6کیے۔ علما کی اس متفقہ تحریر میں فاطمیوں کی حقیقت ان الفاظ میں واضح کی گئی:

هٰذا لحاکم بمصر-هو وسلفه- کفار فساق فجار، ملحدون زنادقة، معطلون، وللإسلام جاحدون، ولمذهب المجوسیة والثنویة معتقدون، قد عطلوا الحدود، وأباحو الفروج، وأحلوا الخمر، وسفکوا الدماء، وسبواالأنبیاء، ولعنوا السلف، وادعوا الربوبیة وکتب في سنة اثنتین وأربع مائة للهجرة، وقد کتب خطه في المحضر خلق کثیر7

”مصر کایہ بادشاہ حاکم اوراس کے تمام سابقہ سربراہان، کافر،فاجر،فاسق،ملحد، زندیق،فرقہ معطلہ سے تعلق رکھنے والے، اسلام کے منکر اورمذہبِ مجوسیت اورثنویت کے معتقد تھے۔ان تمام لوگو ں نے حدودِ شرعیہ کوبے کار اور حرام کاریوں کومباح کردیاتھا۔مسلمانوں کاخون بے دردی سے بہایا،انبیاے کرام کوگالیاں دیں ،اسلاف پرلعنتیں بھیجیں ،خدائی کے دعوے کیے۔ یہ ساری باتیں ۴۰۲ھ میں ہرطبقہ کے بے شمارآدمیوں کی موجودگی میں لکھی گئی ہیں اور بہت سے لوگو ں نے اس پردستخط کیے ہیں۔”

اسی پر بس نہیں بلکہ بعض علما نے اپنی بعض کتابوں میں ان کے کفروفسق پرخصوصی بحث کی ہے، مثلاً امام غزالی نے اپنی کتاب’فضائح الباطنیہ’ میں ایک خصوصی بحث کرتے ہوئے اُنہیں خالص کافر قرار دیا۔8

بلکہ بعض علما نے توان کے خلاف مستقل کتاب لکھ ڈالی ہے مثلاًامام قاضی ابوبکر باقلانی نےکشف الأستار وهتك الأستارنامی کتاب لکھی اور اس میں ثابت کیاکہ فاطمی، مجوسیوں کی اولاد ہیں اور ان کامذہب یہودونصاری کے مذہب سے بھی بدتر ہے ۔

یہ توعلماے اہل سنت کافیصلہ ہے۔لطف تو یہ ہے کہ وہ معتزلہ اور شیعہ جوسیدنا علی سے افضل کسی کو نہیں سمجھتے، اُنہوں نے بھی فاطمیوں کوکافر اورمنافق قرار دیاہے۔9

غرض یہ کہ جمہور اُمت نے انہیں کافروفاسق قرار دیاہے، علامہ ابن تیمیہ  لکھتے ہیں:

وکذلك النسب قد علم أن جمهور الأمة تطعن في نسبهم، ویذکرون أنهم من أولاد المجوس أو الیهود، هٰذا مشهور من شهادة علماء الطوائف من الحنفیة والمالکیة والشافعیة والحنابلة وأهل الحدیث وأهل الکلام، وعلماء النسب والعامة وغیرهم10

یعنی ”اسی طرح فاطمیوں کانسب بھی جھوٹا ہے اوریہ بات سب کومعلوم ہے کہ جمہور اُمّت فاطمیوں کے نسب کوغلط قراردیتے اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ مجوسیوں یا یہودیوں کی اولاد ہیں،یہ بات مشہور ومعروف ہے۔ اس کی گواہی حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ،حنابلہ،اہل حدیث ،اہل کلام کے علماےنسب کے ماہرین اورعوام وخواص سب دیتے ہیں۔”

مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ‘عید میلاد’ کی ایجاد کرنے والے مسلمان نہ تھے بلکہ یہ یہودیوں اور مجوسیوں کی ایجاد ہے، اُنہوں نے گہری سازش کرکے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اور اپنی حقیقت چھپانے کے لیے خود کوفاطمی النسل کہااور اپنے اس دعوٰی کومضبوط بنانے کے لئے’عید میلاد’ کاڈرامہ کھیلاتاکہ لوگوں کویقین ہوجائے کہ واقعی یہ لوگ اہل بیت میں سے ہیں اور نبی کریمﷺسے محبت کا ڈھونگ رچایا ۔

مسلمانوں میں اس بدعت کارواج

فاطمی دور کے مسلمانوں نے یہودیوں کی ایجادکردہ بدعت کوقبول نہیں کیااور یہ بدعت صرف فاطمی خلفا ہی تک محدود رہی ،لیکن تقریباًدوسوسال کے بعدعمربن محمد نام کاایک ملّااورمجہول الحال شخص ظاہر ہوااور اُس نے اس یہودی بدعت کی تجدیدکی ،اورابوسعید الملک المعظم مظفرالدین بن زین الدین کوکبوری نامی بادشاہ جوایک فضول خرچ اوربداخلاق بادشاہ تھا، لہوولعب، اور گانے باجے کارسیا تھا،بلکہ خودبھی ناچتا تھا ۔11

اس بدخلق بادشاہ نے اس بدعت کومسلمانوں میں رائج کیا۔اس کے بعد ابو الخطاب بن دحیہ نامی ایک کذاب اور بددماغ شخص نے بادشاہ کوخوش کرنے کے لیے اس موضوع پرایک کتاب لکھ ڈالی ۔ پوری دنیامیں اس موضوع پریہ پہلی کتاب ہے جسے اس کذاب نے تالیف کیا، اس مؤلف کو تمام ائمہ نے متفق ہوکر ‘ کذاب’ قرار دیا ہے ۔ابن نجار کہتے ہیں:

رأیت الناس مجتمعین علىٰ کذبه ووضعه وادعائه لسمع ما لم یسمعه ولقاء من لم یلقه12

”تمام لوگوں کااس بات پراتفاق ہے کہ ابن دحیۃ جھوٹااور حدیثیں گھڑنے والاہے اوریہ ایسے شخص سے سننے کادعوی کرتاہے جس سے ہرگز نہیں سنا اور ایسے شخص سے ملاقات کادعوی کرتاہے جن سے وہ ہرگز نہیں ملا۔”

اور حافظ ابن حجر اس کے بارے محدثین کافیصلہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

کثیرالوقیعة في الأئمة وفي السلف من العلماء، خبیث اللسان أحمق شدید الکبر13

”ابن دحیہ ائمہ اورعلماےسلف کی شان میں بہت زیادہ گستاخی کرنے والا، بدزبان، احمق اوربڑامتکبر تھا ۔”

اورعلامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:

”ابن دحیہ اپنی عقل سے فتوی دے دیتاپھراس کی دلیل تلاش کرنے لگ جاتااورجب اسے کوئی دلیل نہ ملتی تواپنی طرف سے حدیث گھڑ کے پیش کردیتا،مغرب میں قصر کرنے کی حدیث اُسی نے گھڑی ہے ۔”14

قارئین کرام! یہ ہے ‘عید میلاد’ کی تاریخ ،یہ یہودیوں کی ایجاد ہے اور اسے مسلمانوں میں ان لوگوں نے رائج کیاجوبداخلاق ،احمق اورکذاب تھے ،اگر کوئی صرف انہیں باتوں پرغور کرلے تووہ یقینا یہی فیصلہ کرے گاکہ اسلام میں اس بدعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

(2) ‘عید میلاد’ کی شرعی حیثیت
قرآن و حدیث کی رو سے اس بات میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے کہ ‘عیدمیلاد’ بدعات میں سے ایک بدترین بدعت ہے ۔بہت سارے لوگوں کویہ غلط فہمی ہے کہ قران وحدیث میں اگرعید میلاد کاحکم نہیں ہے تو اس کی ممانعت بھی نہیں ہے ،حالانکہ یہ غلط خیال ہے ،کیونکہ عید میلاد کی ممانعت اور اس کابطلان قرا ن وحدیث دونوں میں موجودہے ،لیکن قران وحدیث کی یہ دلیلیں دیکھنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ قران وحدیث میں بعض چیزوں کوعام طورپر باطل قرار دیاگیاہے اورکسی خاص چیز کانام نہیں لیاگیاہے ۔لہٰذا یہاں یہ نہیں سمجھناچاہیے کہ اس کی ممانعت قرآن وحدیث میں نہیں ہے،مثال کے طورپر پوری اُمّتِ اسلامیہ کے نزدیک کافرقرارپانے والے مرزاغلام احمدقادیانی کانام قران وحدیث میں کہیں نہیں ہے ،لیکن اس کے باوجود بھی پوری اُمت کامانناہے کہ قرآن وحدیث کی روسے قادیانی کی نبوت باطل ہے،کیونکہ قرآن میں جویہ کہاگیاکہ آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں،یعنی آپﷺکے بعد جوبھی نبوت کادعوی کرے گا،اس کی نبوت باطل ہے ،تواس بطلان میں مرزا قادیانی کی نبوت بھی شامل ہے ۔اسی طرح حدیث میں آپ ﷺ کاارشاد ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، یعنی آپ ﷺکے بعد جوبھی نبوت کادعوی کرے گا،اس کی نبوت باطل ہے تواس بطلان میں قادیانی کی نبوت بھی شامل ہے ۔ٹھیک اسی طرح عید میلاد بھی قرآن وحدیث کی رو سے باطل ہے چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ کاارشادہے :

”آج میں نے تمہارادین مکمل کردیا۔”15

یعنی اب اگرکوئی دین میں کسی نئی چیز کادعوی کرے گاتو وہ باطل ہے ،عید میلاد بھی دین میں نئی چیزہے لہٰذاقرآن کی اس آیت کی روشنی میں باطل ہے ۔اسی طرح آپ ﷺ کاارشاد ہے کہ ”جس نے بھی ہمارے دین میں کوئی نئی چیزایجاد کی، وہ مردود ہے ”16

اور عید میلادبھی دین میں نئی چیز ہے، لہٰذا اس حدیث کی روشنی میں باطل ہے ۔نیز اللّٰہ تعالیٰ کایہ بھی ارشاد ہے :

”اللّٰہ اور اس کے رسول ﷺ سے آگے مت بڑھو۔”17

یعنی دین میں جس عمل کاحکم اللّٰہ اور اُس کے رسول ﷺنہ دیں، اُسے مت کرو۔عیدمیلاد منانے کا حکم نہ اللّٰہ نے دیا،نہ اس کے رسول ﷺ نے۔ لہٰذاقرآن کی اس آیت میں عیدِمیلاد سے منع کیاگیاہے ۔ اسی طرح اللّٰہ کے رسول ﷺنے فرمایا:

”دین میں نئی چیزیں مت ایجاد کرو۔”18

یعنی دین میں جس عمل کاحکم نہ ہو،اسے مت کرو۔عیدمیلاد منانے کاحکم دین میں نہیں ہے لہٰذا اس حدیث میں بھی عیدمیلاد سے منع کیاگیا ہے ۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عید میلاد قرآن وحدیث کی روشنی میں باطل اور ممنوع ہے لہٰذا اب یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ عید میلاد منانے کاحکم نہیں ہے تواس سے منع بھی نہیں کیاگیاہے،کیونکہ قرآن و حدیث سے اس کابطلان اوراس کی ممانعت پیش کی جاچکی ہے۔ واضح رہے کہ جہاں تک رسول اکرم ﷺ سے محبت کاتعلق ہے تو اس سے کسی کوانکار نہیں ،بلکہ حدیثِ رسو لﷺکے مطابق ہماراعقیدہ تویہ ہے کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتاجب تک اللّٰہ کے رسول ﷺ اس کے نزدیک تمام چیزوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں،لیکن محبت کاطریقہ کتاب وسنت سے ثابت ہونا چاہیے ۔

(3) عید میلاد کے دلائل کاجائزہ
عیدمیلاد منانے والے ایک طرف تواسے’بدعتِ حسنہ ‘کہتے ہیں،یعنی یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اس کاحکم قران وحدیث میں نہیں ہے بلکہ یہ بعد کی ایجاد یعنی بدعت ہے، لیکن بدعتِ حسنہ ہے ،مگر دوسر ی طرف قرآن وحدیث سے اس کے دلائل بھی پیش کرتے ہیں ،یہ عجیب تضاد ہے !کیونکہ اگر اس کے دلائل قرآن وحدیث میں ہیں تو یہ بدعت حسنہ نہیں بلکہ سنت ہے ،اور اگر یہ بدعت ِحسنہ ہے تو قرآن وحدیث میں ا س کے دلائل کا ہوناممکن ہی نہیں ،صرف اسی بات پرغور کرلینے سے وہ تمام دلائل بے معنیٰ ہوجاتے ہیں جومیلاد کے جوازمیں پیش کیے جاتے ہیں ۔

اس کے علاوہ ایک اوربات قابل غور ہے کہ اگر قرآن وحدیث میں عید میلاد کاحکم ہے تویہ حکم سب سے پہلے کس کوملا؟ظاہر ہے کہ صحابہؓ کرام کو،پھر سوال یہ ہے کہ صحابہ کرام نے اس حکم پرعمل کیوں نہ کیا؟ اس کےدوہی جواب ہوسکتے ہیں: ایک یہ کہ صحابہ کرام نے اس حکم کی نافرمانی کی،یہ ماننے کی صور ت میں صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کاارتکاب ہوگا ونعوذبالله من ذلك۔اوردوسرایہ کہ قرآن وحدیث میں یہ حکم موجودہی نہیں ،اسی لیے صحابہ کرام نے اس پرعمل نہ کیا، یہ ماننے کی صورت میں صحابہ کی عظمت برقرار رہتی ہے ،لیکن پھر یہ دعوٰی غلط ثابت ہوتاہے کہ قرآن وحدیث میں اس کے دلائل ہیں ۔مگر افسوس ہے کہ کچھ لوگ اس سیدھی سادھی بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اور قرآن وحدیث سے زبردستی عید میلاد کے دلائل کشیدکرتے ہیں ۔اس قسم کے دلائل بہت پیش کیے جاتے ہیں ،مذکورہ تفصیل سے ایسے تمام دلائل کی حقیقت واضح ہوگئی ،ان پرمزید کچھ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے ،لیکن پھربھی ہم بعض دلائل پرخصوصی بحث کرتے ہیں تاکہ بات مزید واضح ہوجائے ۔

غلط فہمی نمبر1

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿قُل بِفَضلِ اللَّهِ وَبِرَ‌حمَتِهِ فَبِذ‌ٰلِكَ فَليَفرَ‌حوا هُوَ خَيرٌ‌ مِمّا يَجمَعونَ ﴿٥٨﴾… سورة يونس

”کہہ دیجیے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے فضل ورحمت کے ساتھ،پس اس کے ساتھ وہ خوش ہوجائیں ، وہ اس سے بہتر ہے جسے یہ جمع کرتے ہیں ۔”

اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ اپنی رحمت پر خوش ہونے کا حکم دے رہے ہیں اور نبی کریمﷺتو رحمۃ للعالمین ہیں، لہٰذا اُن کی آمد پر سب سے زیادہ خوشی منانی چاہیے ۔

وضاحت

اوّلاً: اس آیت میں آپ ﷺکی ولادت باسعادت کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے ۔ہاں اس سے پچھلی آیت میں نزول قرآن اور نزولِ ہدایت کا ذکر ضرور ہے ۔

ثانیاً:اس آیت میں جس فضل ورحمت کا تذکرہ ہے،سیدنا عمرفاروق نے اس سے مراد کتاب وسنت کو بتلایا ہے ۔ جناب ایفع بن عبد سے مروی ہے کہ

لَماَّ قَدِمَ خَرَاجُ الْعِرَاقِ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَرَجَ عُمَرُ وَمَوْلًى لَهُ، فَجَعَلَ عُمَرُ یَعُدُّ الْإِبِلَ، فَإِذَا هِيَ أَکْثَرُ مِنْ ذَلِكَ، وَجَعَلَ عُمَرُ یَقُولُ: الْحَمْدُ لِلهِ وَجَعَلَ مَوْلَاهُ یَقُولُ: یَا أَمِیرَ المُؤْمِنِینَ، هَذَا وَاللهِ مِنْ فَضْلِ اللهِ وَرَحْمَتِهِ، فَقَالَ عُمَرُ: کَذَبْتَ، لَیْسَ هُوَ هَذَا، یَقُولُ اللهُ تَعَالَى:﴿قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا١ؕ﴾ یَقُولُ:بِالْهُدَی وَالسُّنَّةِ وَالْقُرْآنِ، فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوا، هُوَ خَیْرٌ مِمَّا یَجْمَعُونَ، وَهَذَا مِمَّا یَجْمَعُونَ19

” جب عراق کاخراج عمرفاروق کے پاس آیا تو عمر فاروق اپنے ایک غلام کے ساتھ نکلے اور اونٹوں کاشمارکرنے لگے جو بہت زیادہ تھے۔عمرفاروق کہنے لگے:”اللّٰہ کاشکر ہے۔”اوران کا غلام بولا:”اے امیر المؤمنین ! اللّٰہ کی قسم! یہ اللّٰہ کافضل اوراُس کی رحمت ہے۔” تو عمرفاروق نے کہا:”تو نے غلط کہا ،ایسا نہیں ہے ،اللّٰہ تعالیٰ تو فرماتاہے:”کہہ دیجیےکہ اللّٰہ تعالیٰ کے فضل ورحمت کے ساتھ، پس اس کے ساتھ وہ خوش ہوجائیں۔”یعنی ہدایت، سنت اورقرآن سے خوش ہوجائیں،اس لیے اسی ہدایت ، سنت اورقرآن سے خوش ہو جاؤاوریہ(ہدایت اور قرآ ن وسنت ) تمہاری جمع کردہ چیزوں سے بہترہے۔اوریہ (اونٹ وغیرہ تو) وہ ہیں جنہیں لوگ جمع کرتے ہیں۔”

ثالثاً: لغتِ عرب میں فرحت، خوشی محسوس کرنے کو کہتے ہیں ، خوشی یا جشن منانے کو نہیں۔خوش ہونا اور چیز ہے، اور خوشی یا جشن منانا اور چیز ہے۔ ان دونوں باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مثلاً ا للہ تعالیٰ نے سورہ توبہ میں غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے منافقین کے بارے میں فرمایا ہے: ﴿فَرِ‌حَ المُخَلَّفونَ بِمَقعَدِهِم خِلـٰفَ رَ‌سولِ اللَّ…﴿٨١﴾… سورةالتوبة

”رسول اللّٰہ ﷺ (کے ساتھ غزوہ تبوک پر جانے کے بجائے آپ ﷺ) سے پیچھے رہنے والے خوش ہوئے۔”

تو کیا منافقین نے جشن منایا اور ریلیاں نکالی تھیں یا دلی خوشی محسوس کی تھی ؟

رابعاً: اگر یہ آیت واقعی جشن منانے کی دلیل ہے تو پھر رسول اللّٰہ ﷺ،صحابہ کرام، تابعین و تبع تابعین وائمہ دین نے اس پر عمل کیوں نہیں کیا ؟

غلط فہمی نمبر2

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿قالَ عيسَى ابنُ مَر‌يَمَ اللَّهُمَّ رَ‌بَّنا أَنزِل عَلَينا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ تَكونُ لَنا عيدًا لِأَوَّلِنا وَءاخِرِ‌نا وَءايَةً مِنكَ ۖ وَار‌زُقنا وَأَنتَ خَيرُ‌ الرّ‌ٰ‌زِقينَ ﴿١١٤﴾… سورة المائدة

”عیسیٰ بن مریم نے کہا:اے اللّٰہ ! اے ہمارے ربّ ! ہم پر آسمان سے کھانا نازل فرما جوہمارے اوّل و آخر سب کے لیے عید ہو جائے اور تیری طرف سے نشانی ہو ۔ اور ہمیں رزق دے اور تو ہی سب رزق دینے والوں میں بہترین رزق دینے والا ہے۔”

اس آیت میں عیسیٰ بن مریم مائدہ کے نازل ہونے کے دن کو عید کا دن قرار دے رہے ہیں ۔ تو ہم آمد رسولﷺکے دن کو عید کا دن کیوں نہیں قرار دے سکتے ؟

وضاحت

اس آیت کو عید میلاد النبیﷺپر دلیل بنانا غلط ہے ،کیونکہ

اوّلاً: عیسیٰ بن مریم مائدہ کو عید قرار دے رہے ہیں، نہ کہ مائدہ نازل ہونے کے دن کو ، کیونکہ﴿ تَكُوْنُ لَنَا عِيْدًا ﴾میں کلمہ تَـکُون واحد مؤنث کا صیغہ ہے جس کا مرجع مائدہ ہےاور مائدہ کا نزول باعثِ خوشی ہے نہ کہ باعثِ جشن۔

ثانیا ً: اگر یہاں سے عید مراد لے بھی لی جائے تو پھر ہر مائدہ کے نزول پر عید منانا لازم آتا ہے اورنزولِ مائدہ والا یہ کام توروزانہ بلا ناغہ صبح وشام ہوتا تھا ۔ اور پھر عید منانے اور جشن منانے میں بہت فرق ہے ۔ مسلمانوں کی عید ین یعنی عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن بھی رسول اللّٰہﷺسے جشن منانا یا ریلیاں اور جلوس نکالنا ثابت نہیں، فتدبّر…!

غلط فہمی نمبر3

کہاجاتاہے کہ ابولہب کے مرنے کے بعد اس کے کسی رشتہ دار نے اُسے بہت بری حالت میں دیکھا اور پوچھا تیراکیاحال ہے ؟ابولہب نے کہا:تم سے جداہوکر میں نے کوئی راحت نہ پائی سوائے اِس کے کہ مجھے پیر کے دن انگوٹھے اورشہادت کی اُنگلی کے بیچ سے کچھ پینے کومل جاتاہے بعض لوگو ں کا خیال ہے کہ یہ چیز دودھ اورشہد تھی۔

وضاحت

اوّلاً: یہ روایت صحیح نہیں ہے ۔اس کی کئی وجوہات ہیں:

پہلی وجہ یہ ہے کہ اس روایت کوعروہ نے بیان کیاہے، لیکن اُنہوں نے یہ نہیں بتایاکہ اُنہیں یہ روایت کہاں سے ملی ؟ اور کس سے سنا؟…لہٰذا یہ روایت منقطع یعنی ضعیف ہے ۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ روایت قرآ نی بیان کے خلاف ہے ،کیونکہ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کے ہاتھ اور اُس کی انگلیاں صحیح سلامت ہیں بلکہ کوئی چیز پینے کے بھی قابل ہیں، جب کہ قرآن کریم کابیان ہے کہ ﴿تَبَّت يَدا أَبى لَهَبٍ وَتَبَّ ﴿١﴾… سورةالمسد

مولانااحمدرِضاصاحب اس آیت کاترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”تباہ ہوجائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ ہوہی گیا۔”20

اور پیرمحمد کرم شاہ سجادہ نشین اس آیت کاترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”ٹوٹ جائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ اوروہ تباہ وبرباد ہو گیا۔”21

غور کیجیے کہ جب قرآنی بیان کے مطابق ابولہب کے دونوں ہاتھ تباہ وبرباد ہوچکے ہیں تو پھراسے دودھ اورشہد پینے کے لئے ہاتھ اور انگلیاں کہاں سے نصیب ہوگئیں؟اب کس کابیان صحیح ہے…. مذکور ہ روایت کایاقرآن مجید کا؟

(۳) تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ روایت شرعی احکام کے بھی خلاف ہے ،کیونکہ شریعت کی نظر میں بعض جرائم ایسے ہیں کہ ان کاارتکاب کرنے والے شخص کے سارے اعمال برباد ہوجاتے ہیں اور اسے کسی بھی عمل کاکوئی فائدہ نہیں ملتا، مثلاًشرک اتنابڑاجرم ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انبیا﷩ کے بارے میں فرمایا:

”اگر فرضاً یہ حضرا ت بھی شرک کرتے توجوکچھ یہ اعمال کرتے تھے، وہ سب اکارت ہوجاتے۔”22

بلکہ امام الانبیاﷺکے بارے میں بھی فرمایا:

”اگر آپ نے شرک کیاتوآپ کاعمل بھی ضائع ہوجائے گا۔”23

اور اس میں کسی کوشک نہیں کہ ابو لہب نے شرک جیسے عظیم جرم کاارتکاب کیا ۔اسی طرح ابولہب نے کفربھی کیااور یہ جرم بھی اعمال کو برباد کردیتاہے ،اللّٰہ تعالیٰ کاارشاد ہے :

”جوایمان کامنکروکافر ہے، اس کے اعمال ضائع اور برباد ہیں۔”24

اسی طرح ابولہب نے اللّٰہ کی وحی کوناپسندکیااوریہ جرم بھی اعمال کو برباد کردیتاہے ،اللّٰہ تعالیٰ کاارشاد ہے :”یہ اس لیے کہ وہ اللّٰہ کی نازل کردہ چیزوں کوناپسند کرتے ہیں ،پس اللّٰہ نے ان کے اعمال ضائع وبرباد کردیے۔”25

اسی طرح ابولہب نے اللّٰہ کے رسول ﷺ سے دشمنی کی ہے اوریہ جرم بھی اعمال کو برباد کردیتاہے ، اللّٰہ تعالیٰ کاارشاد ہے :

”جن لوگوں نے کفر کیا،اللّٰہ کی راہ سے لوگوں کوروکااوررسول کی مخالفت کی اس کے بعد کہ ان کے لیے ہدایت ظاہر ہوچکی۔ یہ ہرگز ہرگز اللّٰہ کاکچھ نہیں بگاڑسکیں گے اوراللّٰہ ایسے لوگو ں کے اعمال برباد کردے گا۔”26

اسی طرح ابولہب نے اللّٰہ کے رسول ﷺ کے سامنے آواز بلندکی ہے اوریہ جرم بھی اعمال کو برباد کردیتاہے ،اللّٰہ تعالیٰ کاارشاد ہے :

”اے ایما ن والو!اپنی آوازیں نبی کی آوازسے اوپرنہ کرواور نہ ان سے اونچی آوازسے بات کرو،جیسے آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہو،کہیں (ایسانہ ہوکہ )تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔”27

غور کیجیے کہ مذکورہ جرائم میں سے جب صرف کسی ایک کے ارتکاب سے سار ے اعمال برباد ہو جاتے ہیں توابولہب جیساملعون شخص تو ان سارے جرائم کامرتکب ہے،ایسے بھیانک مجرم کی تو پہاڑ و سمندر جیسی نیکیاں بھی برباد ہوجائیں گی، چہ جائے کہ ایک پل کی اظہارِخوشی اسے کوئی فائدہ پہنچاسکے ! معلوم ہواکہ شریعت کی روسے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ابولہب کواس کے کسی بھی عمل کاکوئی فائدہ پہنچ سکے، لہٰذا مذکورہ روایت صحیح ہوہی نہیں سکتی ۔

(۴) چوتھی وجہ یہ ہے کہ یہ روایت تاریخی حقیقت کے بھی خلاف ہے ،کیونکہ اس میں یہ بیان ہواہے کہ ابولہب نے آپ ﷺ کی پیدائش کے وقت اپنی لونڈی ثویبیہ کوآزاد کیا جبکہ تاریخی بیان یہ ہے کہ ابولہب نے ثویبیہ کو آپ ﷺ کی پیدائش کے پچاس سال کے بعد آزادکیا،حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں :

واعتقها أبولهب بعد ما هاجر النبی ﷺ إلى المدینة28

”ابولہب نے اپنی لونڈی ثویبیہ کو آپؐ کے مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آزاد کیا۔”

علامہ ابو الفرج عبد الرحمٰن ابن الجوزی لکھتے ہیں:

”جب آپ ﷺ نے اُمّ المؤمنین سیدہ خدیجہؓ سے شادی کی تو ثویبیہ ابھی تک لونڈی تھیں۔ وہ آپ ﷺ کے پاس آتیں اور آپ ﷺ اور اُمّ المؤمنین خدیجہ ؓان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ۔”29

بلکہ اُمّ المؤمنین خدیجہ ؓنے جب دیکھا کہ آپ ﷺابولہب کی لونڈی ثویبیہ کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں تو اُنہوں نے آپ ﷺکی دل جوئی کی خاطر ابولہب سے ثویبیہ کوخریدکرآزاد کرنا چاہا ،لیکن ملعون ابولہب نے اسے بیچنے سے انکار کردیااور جب آپ ﷺ مکہ چھوڑ کرمدینہ ہجرت کر گئے تب ابولہب نے ثویبیہ کوآزاد کیا۔30

اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ مذکورہ روایت تاریخی حقائق کے بھی خلاف ہے،لہٰذا یہ قطعاً صحیح نہیں ۔

ثانیاً: مذکورہ خواب جس نے بھی دیکھاہے،ظن غالب ہے کہ اسے کفر کی حالت میں دیکھاہے اورغیر مسلم کاخواب تودرکنارشریعت میں اس کابیان بھی حجت نہیں ۔

ثالثاً: مذکورہ روایت میں جوواقعہ ہے، وہ شریعتِ اسلامیہ کے نزول سے پہلے کاواقعہ ہے اور شریعتِ اسلامیہ کے آنے کے بعد جب تورات،زبوراورانجیل جیسی آسمانی کتابیں ہمارے لیےحجت نہیں ہیں تو پھر ابولہب جیسے کافروملعون کاعمل ہمارے لیے کیسے حجت ہوسکتاہے ۔

رابعاً:مذکورہ روایت میں اگر میلادکی دلیل ہوتی تواللّٰہ کے نبیﷺاورآپ کے صحابہ بھی اس پرعمل کرتے۔عہدِ نبوی ،عہدِ صحابہ اور اس کے بعدکے اَدوار میں اس پرعمل نہ ہونا اس بات کاثبوت ہے کہ اس روایت میں ‘عیدِمیلاد’کی کوئی دلیل نہیں ہے ۔

غلط فہمی نمبر 4

کہاجاتاہے کہ آ پ ﷺپیر کے دن روزہ رکھتے تھے اور اس بار ے میں آپؐ سے پوچھاگیا توآپ ﷺ نے فرمایا:”اسی دن میری پیدائش ہوئی ہے اور اسی دن مجھے رسالت ملی ہے ۔

وضاحت

اوّلاً: اس حدیث سے عیدِ میلاد کے جوازکے بجائے اس کی تردید ثابت ہوتی ہے ،کیونکہ آپ ﷺ نے اس دن روزہ رکھاہے اوراگریہ عید کادن ہوتاتوآپﷺ ہرگزہرگزروزہ نہ رکھتے ،کیونکہ عید کے دن روزہ رکھناحرام ہے۔31

معلوم ہواکہ آپﷺنے اپنی پیدائش کے دن روزہ رکھاہے ،لہٰذا آپﷺکی پیدائش کادن ‘عیدمیلاد’ یاکسی بھی طرح کی عیدکادن نہیں ہوسکتا۔

ثانیاً: آپﷺنے اپنی ولادت کی تاریخ(9یا12ربیع الاول)کونہیں بلکہ ولادت کے دن (پیر) کوروزہ رکھاہے ،خواہ اس دن کوئی بھی تاریخ ہویایہ دن کسی بھی ہفتہ یاکسی بھی مہینہ میں ہو لہٰذا جوشخص پورے سال کوچھوڑکرصرف ایک مہینہ اور اس میں بھی صرف ایک ہی ہفتے اور اس میں بھی صرف ایک ہی دن کواہمیت دیتاہے توگویاکہ وہ آپ ﷺکی سنت کی اصلاح کررہاہے اوریہ بہت بڑی جسارت ہے ۔

ثالثاً:آپ ﷺ نے مذکورہ حدیث میں پیرکے دن روزہ رکھنے کے دو سبب بتلاے ہیں ،ایک یہ کہ آپ ﷺ اسی دن پیداہوئے اوردوسرا یہ کہ اس دن آپ ﷺکورسالت ملی ،یہ دونوں چیزیں ایک ہی دن واقع ہوئی ہیں ،لیکن دونوں کی تاریخ الگ الگ ہے،چنانچہ آپ ﷺ کی ولادت 9یا12ربیع الاول کوہوئی اورآپﷺ کورسالت21؍رمضان کوملی، لہٰذا اگر پیدائش کی تاریخ کو’عید میلاد’ منانا چاہیے تورسالت کی تاریخ کو’عید رسالت’ بھی مناناچاہیے بلکہ اس پرتوزیادہ زوردیناچاہیے، کیونکہ رسالت ہی آپ ﷺکی عظمت کاسبب ہے، نیز اس کااقرار ہمارے کلمہ کاایک حصہ بھی ہے ! اوراگر ‘عیدِ رسالت ‘منانادرست نہیں تو ‘عید میلاد’ منانابھی غیردرست ہے ۔

رابعاً:آپﷺ صرف پیرہی کاروزہ علیحدہ طورپرنہیں رکھتے تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جمعرات کابھی روزہ رکھتے تھے ،لہٰذا سنت کے آدھے حصّے کواہم سمجھنااور دوسرے آدھے کوفراموش کردیناسنّتِ رسول کو بدلنا ہے اوریہ ناجائزہے ۔

خامساً:آپ ﷺنے پیر کے دن روزہ رکھنے کی یہ وجہ بھی بتلائی ہے کہ اسی دن بندوں کے اعمال ربِّ جلیل کی بارگاہ میں پیش ہوتے ہیں۔32

ظاہرہے کہ یہ خصوصیت پیرکے دن کوحاصل ہے نہ کہ12ربیع الاول کی تاریخ کو،کیونکہ یہ تاریخ تو ہرسال پیرکے علاوہ دوسرے دنوں میں پڑتی رہتی ہے بلکہ بسااوقات یہ تاریخ جمعہ کوبھی آجاتی ہے ،اب جس وجہ سے آپ ﷺ پیرکاروزہ رکھتے تھے (یعنی اعمال کابارگاہِ الٰہی میں پیش ہونا) یہ وجہ جمعہ کے دن ہرگز نہیں پائی جاتی نیزجمعہ کے دن خصوصی روزہ رکھنابھی حرام ہے۔اس سے واضح ہوگیاکہ آپ ﷺ روزہ رکھنے میں پیر کے دن کااہتمام کرتے تھے نہ کہ کسی تاریخ کا،خواہ اس میں کوئی بھی دن آئے، پس دن کوچھوڑکرتاریخ کااہتمام کرناسنّتِ رسول کے سراسرخلاف ہے ۔

سادساً:آپ ﷺنے اپنی پیدائش کے دن جوعمل کیاہے، وہ ہے:”روزہ رکھنا”لیکن عید میلاد میں اس کے بالکل خلاف عمل ہوتاہے۔میلاد منانے والے نہ صرف یہ کہ روزہ نہیں رکھتے بلکہ اس دن وہ کھانے کاجو اہتمام کرتے ہیں، ایسا شایدہی کسی اوردن ہو۔اب سوچیے کہ یہ آپ ﷺ سے محبت ہے یا آپ ﷺسے عداوت ہے۔

سابعاً:مذکورہ روایت میں اگر میلادکی دلیل ہوتی تواللّٰہ کے نبی ﷺاورآپ کے صحابہ بھی اس پرعمل کرتے۔عہدِ نبوی ،عہد صحابہ اور اس کے بعدکے ادوار میں اس پرعمل نہ ہونا اس بات کاثبوت ہے کہ اس روایت میں’عیدمیلاد’کی دلیل نہیں ہے ۔

غلط فہمی نمبر5

کہاجاتاہے کہ آپﷺ یوم عاشورا کاروزہ رکھتے تھے اور اس کاحکم بھی فرماتے تھے، کیونکہ اس دن اللّٰہ تعالیٰ نے حضر ت موسیٰ اور ان کی قوم کوفرعون اور اس کے لشکر سے نجات دلائی تھی اور ہمیں بالاولیٰ چاہیے کہ آپ ﷺ کی ولادت کے بابرکت دن کاروزہ رکھیں ۔

وضاحت

اوّلاً: اس حدیث سے بھی عید میلاد کے جوازکے بجائے اس کی تردید ثابت ہوتی ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے موسیٰ کی فتح کے دن روزہ رکھاہے ،عید نہیں منائی ہے۔کیونکہ اگر عید مناتے توآپ ﷺاس دن ہرگز ہرگزروزہ نہ رکھتے، اس لیے کہ عید کے دن روزہ رکھناحرام ہے33۔ غور کیجیے کہ آپﷺ توروزہ رکھیں اورہم عیدمنائیں۔یہ آپﷺکی مخالفت نہیں تواور کیاہے ؟

ثانیاً:آپ ﷺ نے عاشورا کے روزہ کی فضیلت میں موسیٰ کی فتح کاحوالہ دیاہے، نہ کہ موسیٰ کی پیدائش کا۔اب یوم فتح کایوم پیدائش سے کیاتعلق؟غور کیجیے کہ جس طرح فرعون سے نجات ،موسیٰ کی فتح ہے ،اسی طرح فتح مکہ بھی آپ ﷺ کی عظیم فتح ہے ،لیکن اس مماثلت کے باوجود بھی فتح مکہ کے د ن ایساکوئی اہتمام جائز نہیں ہے،توپھریوم پیدائش جس کااس حدیث سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ،اس کاجواز اس حدیث سے کیونکر نکل سکتاہے ؟

ثالثا ً:آپ ﷺ کے عاشورا کاروزہ رکھنے کی یہ وجہ نہیں تھی کہ اس دن موسیٰ کی فتح ہوئی ہے بلکہ آپ ﷺ مکہ میں شروع ہی سے عاشورا کاروزہ رکھتے چلے آرہے تھے ،البتہ جب مدینہ پہنچ کر آپ ﷺ کومعلوم ہواکہ یہود بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں توآپﷺ نے اس کاتاکیدی حکم صادر فرما دیااور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو یہ حکم بھی منسوخ ہوگیا،البتہ اس کے استحبا ب کوآپﷺ نے باقی رکھا۔34

معلوم ہواکہ عاشورا کے روزہ کی اصل وجہ موسیٰ کی فتح نہیں تھی،البتہ آپ ﷺ نے اس روزہ کی فضیلت میں یہ بات بھی شامل کرلی تھی ۔

رابعاً:آپ ﷺنے صحابہ کے مشورے پریہ تعلیم بھی دی کہ یوم عاشورا کے ساتھ ساتھ ایک دن کاروزہ اوررکھاجائے تاکہ یہود کی مشابہت نہ ہو۔35

غور کیجیے کہ جب اس حدیث میں مذکوراصل سنت ایک دن کی نہیں ہے تواس حدیث سے ایک روزہ عید میلاد کاثبوت کہاں سے نکل سکتاہے جس کااس حدیث سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے ۔

خامساً:دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکور ہ حدیث میں جواصل تعلیم ہے وہ ہے عاشورا کے دن روزہ رکھنا،لیکن افسوس ہے کہ میلاد منانے والوں نے بڑی بے دردی سے اس سنت کاگلاگھونٹ دیاہے، چنانچہ جب محرم میں عاشورا کایہ دن آتاہے تو یہ لوگ اس دن روزہ رکھنے کے بجائے کھانے پینے کا کچھ زیادہ ہی اہتمام کرتے ہیں بلکہ لوگوں کو پکڑپکڑ کرشربت پلاتے ہیں اور اس دن اُنہیں یہ حدیث یاد نہیں آتی ،بلکہ یاددلانے پربھی اس طرف متوجہ نہیں ہوتے ،لیکن حیرت ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں یہی حدیث اُن کی نظر میں بہت اہم ہوجاتی ہے ،حالانکہ اس مہینے سے اس حدیث کاکوئی تعلق ہی نہیں ہے!سوال یہ ہے کہ جن کی نظرمیں مذکورہ حدیث کی اصل تعلیم قابل عمل نہیں ہے، وہ اسی حدیث سے دیگر چیزیں ثابت کرنے کی جرات کیسے کرتے ہیں ۔

سادساً:مذکورہ روایت میں اگر میلادکی دلیل ہوتی تواللّٰہ کے نبیﷺاورآپ کے صحابہ بھی اس پرعمل کرتے۔عہد نبوی،عہد صحابہ اور اس کے بعدکے اَدوار میں اس پرعمل نہ ہونا اس بات کاثبوت ہے کہ اس روایت میں ‘عیدمیلاد’کی دلیل نہیں ہے

بشکریہ: محدث میگزین۔ مضمون نگار کفایت الله سنابلی

اپنا تبصرہ لکھیں