علامہ اقبال اور اجتہاد

عارف محمود کسانہ
علامہ اقبال کے مطابق اسلام کا تصور حیات متحرک ہے اور یہ جامد نہیں ہے۔اپنے زمانے کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی غرض سے علامہ اجتہاد میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ان کے شہرہ آفاق خطبات The Reconstruction of Religious Thought in Islam میں چھٹا خطبہ ” اجتہاد فی الاسلام ” The Principle of Movement in the Structure of Islam انہوں نے اسی حوالے سے پیش کیا۔ اس پر بعض قدامت پرست علماء نے ان کے خلاف کفر کا فتوی صادر کیا لیکن علامہ اپنی فکر پر قائم رہے اور انہوں نے اپنی شاعری اور خطبات میں اجتہاد کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ علامہ اجتہاد کا دروازہ کھولنا چاہتے تھے اور فقہ کہ تشکیل نو چاہتے تھے تاکہ زندگی کے مسائل سے نبردآزما ہوسکے۔ علامہ کا یہ مطالبہ بالکل درست ہے اور یہ دور جدید کی ضرورت ہے۔
آج کے دور ہمیں بہت سے مسائل درپیش ہیں جن کا اپنی کسی بھی فقہ میں حل موجود نہیں۔ وجہ یہ ہے ہماری تمام فقہیں بارہ سو سال قبل عرب میں تشکیل پائی تھیں۔ آج اسلام، شمالی یورپ، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان تک پہنچ چکا ہے۔ شمالی یورپ جہاں گرمیوں میں چوبیس گھنٹے سورج چمکتا ہے جبکہ سردیوں میں مسلسل رات ہوتی ہے وہاں کسی بھی فقہ کے تحت نمازاور روزہ کے اوقات متعین نہیں کئے جاسکتے۔ ہمارے معاشی و سماجی مسائل، طب، اعضا کی پیوند کاری، ٹشو ٹرانسپلانٹ بے اولاد جوڑوں کے لئے سیلز ڈونیشن، غیر مسلم ممالک مسلمانوں کے مسائل، رویت ہلال، مشینی ذبیحہ، آئینی مسائل، ٹیکس اور زکوٰۃ، نماز قصر اور دوسرے ایسے کئی مسائل ہمارے آئمہ کے دور میں موجود نہیں تھے اس لئے وہ فقہ کی کتابوں میں بھی موجود نہیں۔ کوئی ایک فقہ ان مسائل کے حل پیش نہ کرسکے اس لئے ایک تو ہمیں ایک فقہی پیراڈائم سے نکل کر دوسرے میں جانے کی ضرورت ہے اور دوسرا اجتہاد کاراستہ اپنانے کی ضرورت ہے۔
علامہ اقبال اجتہاد کا کام پارلیمان کو سونپنا چاہتے تھے۔علامہ قرآن حکیم کے ارشادات وشاورھم فی الامر اور وامرھم شوری بینھم کا حوالہ دیتے ہیں اور خلافت راشدہ میں یہی اصول کارفرما تھا۔ علامہ اجماع کو جمہوری روح سمجھتے تھے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آج تک ہمارے ہاں کوئی باقاعدہ اجماع نہیں ہوا اور نہ ہی اس کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود ہے۔ اجماع امت کے حوالے علامہ کے پیش نظر تین سوالات تھے۔ کیا اجماع قرآنی احکامات کو منسوخ کرسکتا ہے؟ اس کا جوان انہوں نے نفی میں دیا ہے قرآن حرف آخر ہے اس کی حیثیت سپریم ہے اور کوئی حکمران یا پارلیمنٹ کے سو فیصد اراکین بھی ان کو منسوخ نہیں کرسکتے۔ دوسرا سوال آایا کہ ایک دور میں ہونے والااجماع بعدمیں آنے والوں کو پابندکرتا ہے کہ وہ اس کی پیروری کریں۔ علامہ کے نزدیک اگر اس پر عمل پیرا ہوا جاسکے تو بالکل عمل کرنا چاہیے بصورت دیگر یہ لازم نہیں۔ تیسرا علامہ اجتہاد اور اجماع کا حق کسی فرد واحد، یا گروہ کی بجائے مسلمانوں کے منتخب نمائندوں کو دینا چاہتے ہیں۔ چونکہ اسلام کی روح جمہوری ہے اسی لئے علامہ کے نزدیک اجماع کا ادارہ مسلم مجلس قانون ساز ہونا چاہیے۔ علامہ کہتے ہیں کہ ہمارے آئمہ نے کبھی اپنی تحقیق کو دوسروں پر مسلط نہیں کیا۔ جب امام ابوحنیفہ اور امام مالک کی فقہ کو سرکاری طور پر نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو دونوں آئمہ نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ اجتہاد کے حوالے سے علامہ ایک حدیث نبویﷺ پیش کرتے ہیں جو ایک سنہرا اورقابل عمل اصول ہے۔ جب رسول اکرم ﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا حاکم مقرر کیا تو آپ ؐ نے دریافت کیا کہ معاذؓ تم وہاں فیصلے کیسے کرو گے تو انہوں نے عرض یاررسول اللہ ﷺ اگر قرآن اور اسوہ حسنہ سے مجھے راہنمائی نہ ملی تو میں اجتہاد کروں گا اور اپنی رائے کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ رسول اکرم ﷺ حضرت معاذؐ کے اس جواب سے بہت خوش ہوئے۔ یہ زریں اصول ہم سب کے لئے بھی اور قیامت تک جاری رہے گا۔ اجتہاد کا طریقہ کاریوں ہو سکتا ہے کہ اگر انفرادی اور اجتماعی حوالے سے قانون سازی کی ضرورت پیش آئے تو قرآن حکیم اور اسوہ حسنہ کی طرف رجوع کریں اور جن معاملات میں راہنمائی موجود ہے ان کی پیروی کرنے چاہیے جن معاملات میں قرآن و سنت خاموش ہے وہاں انسانوں کو اپنی عقل و بصیرت کو استعمال کرکے رائے قائم کرنی چاہیے۔
علامہ نے رموز خودی میں لکھاانحطاط اور دور زوال میں اجتہاد قوم کا شیرازہ بکھیر دیتا ہے کوتاہ نظر عالموں کے اجتہاد سے اسلاف کی پیروی زیادہ محفوظ ہے اسی لئے بغداد میں مسلم حکومت کے خاتمہ کے بعد ایک طویل عرصہ تک انحطاط کا دور رہا اور ایک طرح سے اجتہاد کا دوازہ بند تھا لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس دروزے کا کھولا جائے۔ وہ لکھتے ہیں
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی
علامہ قرآنی تعلیمات اور اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں زندگی کے نئے مسائل کل حل تلاش کرنے اور جدید علوم کی افادیت کو پیش نظر رکھ کر اسلام کی نئی تعبیر کی سعی کرنے کے حق میں تھے۔ قرآن بار بار غوروفکر اور تدبر کا حکم دیتا ہے اور جو لوگ تدبر اور تفکر نہیں کرتے انہیں جانوروں سے بد تر قرار دیتا ہے۔ بقول علامہ یہ مرحلہ بہت مشکل ہوتا ہے۔
آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کھٹن ہے قوموں کی زندگی میں

اپنا تبصرہ لکھیں