عقیدہ ختم نبوت اور جھوٹے مدعیان نبوت کا انجام

علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال موبائل نمبر0300-6491308
اللہ تعالیٰ کے یہاں دین حق اسلام ہی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ان الدین عند اللّٰہ الاسلام۔(پارہ 3سورة آل عمران)اور اس دین کے علاوہ اس کے یہاں کوئی دین قبول نہیں چنانچہ فرمایا ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ ج وھو فی الآخرة من الخٰسرین ۔(پارہ3آل عمران) نیز مومن وہی ہے جو اس دین اسلام پر سچے دل سے ایمان لائے اور اس کی تصدیق کرے جیسا کہ ارشاد ہوا ۔ ”ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ۖ پر ایمان لائے پھر شک نہ کیا اور اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہی سچے ہیں۔”(پارہ 26سورة الحجرات)
ایمان اسے کہتے ہیں کہ سچے دل سے ان سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریات دین سے ہیں اور کسی ایک ضرورت دینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں اگر چہ باقی تمام ضرورریات کی تصدیق کرتا ہو ۔ ضروریات دین وہ مسائل دینیہ ہیں جن کو ہر خاص و عام جانتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ،انبیاء کرام کی نبوت ، جنت ودوزخ ،حشر و نشر وغیرہا مثلاً یہ اعتقاد کہ حضرت محمد مصطفےٰ ۖ آخری نبی ہیں ۔حضور اکرم ۖ کے زمانے میں یا آپ ۖ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی سچی اور آخری کتاب میں ارشاد فرمایا ہے ”(اے لوگو) حضرت محمد ۖ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہاں وہ اللہ تعالیٰ کے رسول اور سب نبیوں میں پچھلے (سب سے آخری نبی)ہیں اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے ۔”(پارہ 22سورة الاحزاب)اور دوسرے مقام پر ارشاد ہوا ۔ ”اور جو ایمان لائے ہیں اس پر ( اے حبیب ۖ) جو اتارا گیا ہے آپ پر اور جو اتارا گیا آپ ۖ سے پہلے اور نیز آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں۔”(پارہ 1سورة البقرہ)
ارشادباری تعالیٰ ہے ۔اور (جو) مسلمان ہیں ایمان لاتے ہیں اس پر جو اتارا گیا آپ کی طرف اور جو اتارا گیا آپ سے پہلے ۔”(پارہ 6سورة النساء )
آخری کی مذکورہ دونوں آیتیں بھی حضور اکرم ۖ کی ختم نبوت کی بین دلیل ہیں کیونکہ وحی جس پر ایمان لانا ضروری ہے وہ یا تو حضور اکرم ۖ پر نازل ہوئی یا آپ ۖ سے پہلے انبیاء کرام میں سے کسی نبی پر ۔اگر حضور اکرم ۖ کے بعد بھی سلسلۂ نبوت جاری رہتا یا کسی نئے نبی کا ہونا ممکن ہوتا تو ایمان کا انحصار صرف حضور اکرم ۖ اور انبیاء سابقین پر نازل شدہ وحی پر نہ ہوتا بلکہ عبارت مثلاً یوں ہوتی وما انزل من قبلک وما ینزل من بعدک ۔ان آیات کی مزید تفسیر احادیث مبارکہ سے واضح ہو جاتی ہے ۔حضرت محمد مصطفےٰ ۖ کا ارشاد پاک ہے ۔”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی آدمی نے گھر بنایا اور اس کے سجانے اور سنوارنے میں کوئی کمی نہ چھوڑی مگر کسی گوشے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی ۔لوگ اس کے گرد پھرتے اور تعجب سے کہتے ،بھلا یہ ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی ؟ فرمایا (ۖ) وہ اینٹ میں ہوں اور میں ہی آخری نبی ہوں۔”(صحیح بخاری، صحیح مسلم شریف)
”حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا میری اور انبیاء (سابقین ) کی مثال ایسی ہے جیسے کسی آدمی نے گھر بنایا اور اس کے مکمل اور کامل ہونے میں کوئی کمی نہ چھوڑی مگر کسی گوشے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھو ڑدی۔ لوگ اس کے گرد پھرتے اور تعجب سے کہتے ! بھلا یہ ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی ؟ رسول ۖ نے فرمایا میں اس اینٹ کی جگہ آیا ہوں اور میں نے انبیاء (کی آمد) کو ختم کر دیا ۔”(صحیح مسلم شریف )
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا ۔۔مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا اور مجھ پر نبوت ختم کر دی گئی ۔”(صحیح مسلم شریف)
”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا بے شک رسالت و نبوت ختم ہو گئی میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ ہی نبی ۔”(جامع ترمذی شریف)
”حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖنے ہمیں خطبہ دیا ۔۔۔ اور میں تمام انبیاء کے اخیر میں ہوں اور تم بھی آخری امت ہو ۔ ”(سنن ابن ماجہ شریف)
”حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب ہوتا۔ ”(جامع ترمذی شریف)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔”(صحیح مسلم شریف،جامع ترمذی شریف)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نے رسول اللہ ۖ سے سنا ۔آپ ۖ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے گفتگو فرما رہے تھے آ پ ۖ نے انہیں کسی غزوہ کے موقعہ پر اپنا نائب مقرر کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ۖ آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تم میرے نزدیک ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے ۔لیکن تحقیق میرے بعد نبوت نہیں ۔ ”(جامع ترمذی شریف)
نبی کریم ۖ نے فرمایا بنو اسرائیل میں حکومت پیغمبر کیا کرتے تھے جب ایک نبی کا وصال ہوتا تو دوسرا نبی اس کا خلیفہ ہوتا ۔لیکن یاد رکھو میرے بعد ہر گز کوئی نبی نہیں ہے ۔ہاں عنقریب خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے ۔(صحیح بخاری شریف)
ان احادیث مبارکہ کی روشنی میں بھی بالکل واضح ہو گیا کہ حضور اکرم ۖ آخری نبی ہیں آپ کے زمانہ میں اور آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا ۔ مگر تاریخ پر نظر دوڑائیں تو کچھ نام ایسے ملتے ہیں جنہوں نے آخری نبی حضرت محمد مصطفےٰ ۖ کے زمانہ میں اور آپ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد اپنے آپ کو نبی سمجھا تو یہ کون لوگ ہیں ؟ آئیں احادیث مبارکہ کی روشنی میں ان لوگوں کا جائزہ لیتے ہیں چنانچہ نبی غیب داں عالم ما یکون و ماکان حضور ختم المرسلین خاتم النبیین احمد مجبتیٰ حضرت سیدنا محمد مصطفےٰ ۖ ارشاد فرماتے ہیں :”حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا اور عنقریب میری امت میں تیس کذاب (جھوٹے) ہوں گے ہر ایک نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا حالانکہ میں سب سے آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔ ”(سنن ابی دائود)
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی یہانتک کہ بہت جھوٹے دجال نکل آئیں جو تیس (30)کے قریب ہوں گے ان میں سے ہر ایک رسول اللہ ہونے کا دعویٰ کرے گا۔”(صحیح بخاری شریف ، صحیح مسلم شریف)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ کے عہد کرامت میں مسیلمہ کذاب آکر کہنے لگا اگر محمدۖ مجھے اپنا جانشین مقرر کر دیں تو میں ان کی پیروی کرنے کے لئے تیار ہوں اور اپنی قوم کے بہت سے آدمی لے آیا پس رسول اللہ ۖ اس کی طرف گئے اور آپ کے ساتھ حضرت ثابت بن قیس تھے اور رسول اللہ ۖ کے دست اقدس میں ایک چھوٹی سی لکڑی تھی یہانتک کہ آپ مسیلمہ اور اس کے ساتھیوں کے پاس پہنچے اور فرمایا اگر تم مجھ سے اس لکڑی کے برابر بھی کوئی چیز مانگو تو تمہیں نہیں دوں گا تیرے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ غلط نہیں ہو سکتا اگر تم نے پیٹھ پھیری (اسلام سے)تو اللہ تعالیٰ تمہیں تباہ و برباد کر دے گا اور بے شک میں تمہیں وہی کچھ دیکھ رہا ہوں جو خواب میں دکھایا گیا تھا ۔راوی کا بیان ہے کہ مجھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتایا رسول اللہ ۖ نے فرمایا میں سویا ہوا تھا کہ میں نے اپنے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن دیکھے ،انہیں دیکھ کر مجھے فکر لاحق ہوئی اس خواب میں میری طرف وحی فرمائی گئی کہ ان پر پھونک ماری تو وہ اڑ گئے ۔پس میں نے اس خواب کی تعبیر دو کذاب ٹھہرائے جو میرے بعد نکلیں گے ان میں سے ایک عنسی (اسود) اور دوسرایمامہ کارہنے والا مسیلمہ کذاب ہے ۔”(صحیح بخاری )
امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اپنی صحیح البخاری میں مسیلمہ کذاب اور اسودعنسی کے متعلق احادیث کتاب المغازی ،کتاب التعبیر اور کتاب التوحید میں ذکر کی ہیں ۔
اسود عنسی کو فیروز نے قتل کیا اور مسیلمہ کذاب نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو امیر المؤمنین خلیفہ رسول حضر ت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نتائج کی پرواہ کئے بغیر اس کے خلاف لشکر کشی کی اور تب چین کا سانس لیا جب اس جھوٹے نبی کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ بے شک اس جہاد میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان شہید ہوئے جن میں سینکڑوں حفاظ قرآن اور جلیل المرتبت صحابہ تھے لیکن امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ نے اتنی قربانی دے کر بھی اس فتنے کو کچلنا ضروری سمجھا ۔ آپ نور صدیقیت سے دیکھ رہے تھے کہ اگر ذرا بھی تساہل برتاتو یہ امت سینکڑوں گروہوں میں نہیں سینکڑوں امتوں میں بٹ جائے گی ہر امت کا اپنا نبی ہو گا اور ہر ہر امت اپنے اپنے نبی کی منہ بولی شریعت کو اپنائے گی ۔قارئین کو یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہئے کہ مسیلمہ کذاب ،آخری نبی حضرت محمد مصطفےٰ ۖ کی نبوت کا منکر نہیں تھا بلکہ اپنے دعویٰ نبوت کے ساتھ ساتھ وہ حضور اکرم ۖ کی رسالت کو بھی تسلیم کرتا تھا ۔ چنانچہ حضرت محمد مصطفےٰ ۖ کی ظاہری زندگی کے آخری ایام میں اس نے جو عریضہ ارسال خدمت کیا تھا ،اس کے الفاظ یہ ہیں ۔
”من مسیلمة الرسول الی محمد رسول اللہ ”
”کہ یہ خط مسیلمہ کی طرف سے جو اللہ کا رسول ہے محمد رسول اللہ کی طرف لکھا جا رہا ہے ”
علامہ طبری نے اس امر کی بھی تصریح کی ہے کہ اس کے ہاں جو اذان مروج تھی اس میں اشھد ان محمد الرسول اللہ بھی کہا جاتا تھا بایں ہمہ خلیفہ رسول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کو مرتد اور واجب القتل یقین کر کے اس پر لشکر کشی کی اور اس کو واصل جہنم کر کے آرام کا سانس لیا ۔
جھوٹے مدعیان نبوت کا انجام:
احادیث مبارک کی روشنی میں قیامت تک مختلف ادوار میں نبوت کا دعویٰ کرنیوالے کذاب (جھوٹے ) ظاہر ہوں گے ۔ لہٰذا ہر دور میں ایسے کذاب پیدا ہوئے اور فدائیان ختم نبوت نے ان کذابوں کی گردنیں اڑا کر ان کو واصل جہنم کیا ۔
1۔ اسود عنسی (١١ھ) نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ۔فیروز دیلمی نے محل میں گھس کر اس کی گردن توڑ کر ہلاک کیا ۔
2۔ مسیلمہ کذاب (١٢ھ)نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ۔حضرت وحشی رضی اللہ عنہ نے جنگ یمامہ میں اس کو نیزہ مارکر ہلاک کیا ۔
3۔ مختار ثقفی (٢٧ھ) نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ۔حضرت مصعب بن زبیر رحمة اللہ علیہ سے جنگ میں مارا گیا ۔
4۔ حارث کذاب دمشقی (٦٩ھ) نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ۔خلیفہ عبد الملک مروان کے حکم پر ہلاک کیا گیا ۔
5۔ مغیرہ عجلی(١١٩ھ) نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ۔خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے دور میں امیر عراق خالد بن عبد اللہ قسری نے اسے زندہ جلا کر راکھ کر دیا ۔
6۔ بیان بن سمعان تمیمی (١١٩ھ) نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ۔ امیر عراق خالد بن عبد اللہ قسری نے اسے زندہ جلا کر راکھ کر دیا ۔
7۔ بہا فرید نیشا پوری نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ،عبد اللہ بن شعبہ رحمة اللہ علیہ نے اسے گرفتار کر کے ابو مسلم خراسانی کے دربار میں پیش کیا جنہوں نے تلوار سے اس کا سر قلم کر دیا ۔
8۔ اسحا ق اخرس مغربی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ۔خلیفہ ابو جعفر منصور کی فوج سے شکست کھا کر ہلاک ہوا ۔
9۔ استاد سیس خراسانی نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ۔خلیفہ ابو جعفر منصور کے حکم پر خازم بن خزیمہ نے اس کی فوج کو شکست دی اور اس کو گرفتار کر کے اس کی گردن اڑا دی۔
10۔ علی بن محمد خارجی (٢٠٧ھ)نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ۔خلیفہ معتمد کے زمانے میں موفق نے اس کی فوج کو شکست دے کر اس کا سر کاٹ کر نیزوں پر چڑھایا ۔
11۔ بابک بن عبد اللہ (٢٢٢ھ)نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ۔خلیفہ معتصم کے حکم پر اس کا ایک ایک عضو کاٹ کر الگ کرکے ہلاک کر دیا۔
12۔ علی بن فضل یمنی (٣٠٣ھ) نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ۔بغداد کے لوگوں نے اُ س کو زہر دے کر ہلاک کر دیا۔
13۔ عبد العزیز باسندی (٣٢٢ھ) نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ۔لشکر اسلامی نے محاصرہ کر کے شکست دی اور سر کاٹ کر خلیفہ المسلمین کو بھیجوا دیا ۔
14۔ حامیم مجلسی (٣٢٩ھ) نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ۔قبیلہ معمودہ سے احواز کے مقام پر ایک لڑائی میں مارا گیا ۔
15۔ ابو منصور عسبی بر غواطی (٣٦٩ھ)نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ۔بلکین بن زہری سے جنگ میں شکست ہوئی اور ہلاک ہوا۔
16۔ اصغر تغلبی (٤٣٩ھ)نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ۔حاکم نصر الدولہ بن مروان نے ایک دستہ بھیج کر اس کو گرفتار کروایا اور جیل میں ڈال دیا جہاں یہ ہلاک ہوا۔
17۔ احمد بن قسی (٥٦٠ھ) نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ۔حاکم عبد المومن نے گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا جہاں یہ ہلاک ہو ا۔
18۔ عبد الحق مرسی (٦٦٨ھ) نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ۔اس نے ایک روز فصد کھلوایا ۔قہر الہٰی سے خون بہتا رہا ۔یہاں تک کہ ہلاک ہوا ۔
19۔ عبد العزیز طرابلسی (٧١٧ھ) نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ،حاکم طرابلس کے حکم پر ایک لشکر نے اس کو گرفتار کر کے قتل کر دیا ۔
سابقہ چاروں صدیوں میں سلاطین اسلام کے باہمی انتشار اور دین سے دوری کی بناء پر ممالک اسلامیہ میں فرنگیوں کا تسلط بڑھ گیا ۔ اس وجہ سے بایزید روشن ٩٩٠ھ بہاء اللہ نور ی ١٣٠٨ھ اور غلا م احمد قادیانی ١٣٢٦ھ وغیرہ کذاب (جھوٹے مدعی نبوت) سزائے موت سے بچے رہے البتہ قہر الہٰی سے بے نام و نشان مٹ گئے ۔

اپنا تبصرہ لکھیں