عشق ممنوع‘‘

عشق ممنوع

Profilbildet til Yousaf Alamgirian

‘‘

تحریر: یوسف عالمگیرین

ملک عشق ممنوع کی سی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ ترکی کے ڈرامے’ عشق ممنوع‘ نے جس طرح سے کھل کھلا کر عشقیہ کارناموں کی حوصلہ افزائی کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اداکار فیصل قریشی سم متع سینئراور سکہ بند اداکار غیرملکی ڈراموں کی پاکستان میں درآمدگی اور پھر ان کی تشہیر پر تحفظات رکھتے ہیں۔ پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کے ساتھ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں لوگ مختلف جہتوں سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کے گھر چل رہے ہیں۔ اب اگر یہ روش چل پڑتی ہے تو پھر یہاں ڈرامے ظاہر ہے کم بنیں گے اور غیرملکی ڈرامے پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کو بھی کھا پی جائیں گے۔ مالیاتی پہلو تو اپنی جگہ ہر سوسائٹی کا اپنا ایک کلچر اور رکھ رکھاؤ ہوتا ہے۔ ہمارا کلچر بھی وہ نہیں ہے جو ہمارے ہاں کے بعض ڈرامے دکھاتے ہیں اور ترکی یا کسی اور ملک میں بسنے والے ڈرامے تو خیر کسی بھی طرح سے ہمارے ہاں کی تہذیب اور اخلاقی اقدار کے ساتھ میل جول نہیں رکھتے۔ ترکی کبھی امت مسلمہ کی خلافت کے حوالے سے شناخت رکھتا تھا۔ لیکن کمال اتاترک کے ترکی ماڈل کے بعد سے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے دلوں میں پایا جانے والا خلافت سے متعلق جو نظریہ تھا وہ اس سے صریحاً مختلف ہے۔
ہمارے ہاں اس سے قبل پڑوسی ملک بھارت کی فلمیں نمائش کے لئے پیش کی جاتی ہیں جس سے پاکستان فلم انڈسٹری جس پر پہلے ہی مردنی چھائی ہوئی تھی مزید سہم گئی ہے۔ انٹرٹینمنٹ کے نام پر جس طرح بھارتی فلموں میں ہندو کلچر اور رسم و رواج کو پروموٹ کیا جاتا ہے وہ یقیناًایک لمحہ فکریہ ہے۔ عشق ممنوع جیسے ڈراموں کی بدولت ہمارے ہاں وہ رشتے جو عزت و وقار کی جگہ پر ہوتے ہیں میں عشق کی پینگیں بڑھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔اب اس کے بعد وہ ’’عشق جو اب ممنوع نہ رہا‘‘ کے نام سے ایک اور ڈرامہ جس کا اصل نام مناہل اور خلیل ہے ایک اور چینل پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے جب ایک چینل اس قسم کے ڈراموں کے ذریعے سے نوٹ چھاپ رہا ہے تو دوسرا بھلا کیوں کر پیچھے رہے گا۔ ہمارے ہاں پیسے کی گویا دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اس دوڑ میں یوں لگتا ہے جیسے ملک کی عزت‘ وقار‘ معاشرہ اور نظریہ شاید کہیں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہمارے معاشرے میں بڑے بڑے ناموں والے لوگ مالی حوالے سے غریب ہوتے تھے لیکن عزت میں کم نہیں ہوتے تھے کہ ان کی زندگی کرپشن‘ لوٹ مار اور گندے حربوں سے پیسہ بنانے جیسی قبیح وارداتوں سے مبراء ہوتی تھی۔ آج بہت سے لوگوں کے پاس بہت کچھ ہے لیکن عزت نہیں ہے۔ کہتے ہیں بازار حسن میں کسی طوائف سے ملنے اس کا کوئی مداح گیا اس نے اس کے حسن کی تعریف کے پل باندھ دیئے اور کہا کہ آپ اتنی خوبصورت ہیں آپ کسی فلم میں کام کیوں نہیں کرتیں۔ تو اس پر طوائف نے کہا مجھے یہاں عزت کی روٹی مل رہی ہے۔ میں نے اس گند میں ضرور جانا ہے۔
لہٰذا ہر کسی کا کسی معاملے یا شعبے کے حوالے سے متعلق Perception مختلف ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بہرکیف نہیں لیا سکتا کہ وہ چیز واقعتا خراب بھی ہو۔ ہمارے معاشرے میں تو ویسے بھی فلم و ثقافت کے حوالے سے تنگ نظری پائی جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے فلم انڈسٹری یہاں پر اس انداز سے ترقی نہ کر سکی جو اس کا حق تھا۔ اب ایک سید نور کب تک نامساعد حالات سے مقابلہ کر کے فلمیں بنا پائے گا۔ ہمارے ہاں تفریح کو بھی مختلف قدغنیں لگا کر مہذب اور غیرمہذب کے پیرائے میں ڈال دیا گیا۔ گویا لوگ پیسے جیب میں لے کر پھر رہے ہیں۔ لیکن وہ مارکیٹ میں کوئی اچھی فلم نہیں دیکھ سکتے۔ اچھی فلم دیکھنے کے لئے اچھی فلم بنائی جانا ضروری ہے۔
بالکل اسی طرح جس طرح لوگ مارے مارے پھرتے ہیں۔ لیکن انہیں نقد پیسے دے کر بھی سی این جی نہیں مل رہی۔ ہمارے معاشرے کے لئے سی این جی بھی عشق ممنوع سے کم تو نہیں۔ عشق ممنوع بھی آگ لگاتا ہے۔ سی این جی بھی آگ لگا دیتی ہے۔ پیٹرول تو جلا کر بھسم ہی کر دیتا ہے۔ سو اب پیٹرول بھی ممنوع ہو گیا ہے۔ زندگی تنگ ہوتی جا رہی ہے ۔ زندگی تو اتنی ہی ہے جتنی اﷲ نے لکھی ہوتی ہے۔ لیکن اس زندگی کی کوالٹی تو بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ سی این جی اور پیٹرول مل رہا تھا تو زندگی چل رہی تھی۔ اب جل رہی ہے۔ گویا یہاں تو سبھی دل جلے ہیں۔یہ قوم آٹے کی لائینیں بھی دیکھ چکی ہے۔ پاکستان میں صرف ایک لائن خالی ہے اور وہ ریلوے لائن ہے۔ لوگ اب لائنوں سے اتنے ترٹھے ہوئے ہیں کہ وہ کسی سے لائن مارنے کا رِسک لینے سے بھی ڈرتے ہیں۔ سی این جی کی لائین لگنا تو خیر اب ختم ہو گئی ہیں کیونکہ اب ہر جگہ سی این جی ندارد کا بورڈ لگ چکا ہے۔ گھروں کے اندر بھی گیس کا پریشیر کم ہے۔ لوگ کھانا پکانے سے قاصر ہیں۔ اتنے بڑے بڑے محکمے اور بھاری معاوضوں پر رکھے گئے اہلکار‘ لیکن جس کام کے لئے یہ محکمہ بنائے گئے ہیں جب وہی نہیں تو پھر اسی ’’شبھ شبھا‘‘ کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ یہ محکمے بند کر دیں اور ہر محلے کو سرکاری خرچ پر ایک ایک ’’کھوتی ریڑھی‘‘ الاٹ کی جائے جس سے محلے بھر کے لئے کسی ٹال سے لکڑیاں لانے کا کام لیا جائے۔ خدانخواستہ محلے میں کوئی بیمار ہو جائے تو کھوتی ریڑھی ایمبولینس کی جگہ بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ ایمولینس تو سی این جی اور پیٹرول سے چلتی ہے۔ گدھا‘ گدھا ہونے کے باوجود دنیاوی سہارے نہیں ڈھونڈتااور خود چلتا ہے اور اﷲ کی مخلوق کے کام بھی آتا ہے۔ گدھا جتنا بھی کام کرے اسے یہ طعنے نہیں سننا پڑتے کہ وہ گدھے کی طرح کام کرتا ہے۔ یہ ایک قسم کا خراج تحسین ہے اگر کسی کو کہا جائے کہ وہ گدھے کی طرح کام کرتا ہے۔ گویا وہ صبح و شام محنت کرتا ہے۔ یہ قوم بھی صبح شام جُٹی ہوئی ہے۔ ہر شخص محنت کرتا ہے اور دنیاوی اور حکومتی سہارے ڈھونڈے بغیر اپنے بچوں کے پیٹ پالنے کے لئے جتن کرتا ہے۔ پھر بھی ہر جگہ چونکہ ’’کھوتی ریڑھی‘‘ پر نہیں جایا جا سکتا لہٰذا عوام کو کبھی کبھار سی این جی اور پیٹرول کی ضرورت پڑ ہی جاتی ہے۔اس کے لئے ذمہ دار حکام سے درخواست ہے کہ لوگوں سے ایڈوانس پیسے وصول کر کے انہیں یہ سہولت مہیا کر دی جائے۔ معاملہ عشق ممنوع تک رہے تو ٹھیک ہے سی این جی اور پیٹرول تو ’’شجر ممنوع ‘‘بنتے جا رہے ہیں۔


اپنا تبصرہ لکھیں