عرش کے سائے تلے

ShaziaAndleebAllah sey mohabbatقسط نمبر 8
یہاں کا ماحول ، فضاء لوگ سب کچھ مکہّ شریف سے بہت مختلف تھا۔ عشاء کی نماز مسجد نبوی میں ادا کی۔ مسجد نبوی عشاء کے بعد بند کر دی جاتی ہے۔ یہ مسجد فن تعمیر کا نادر نمونہ ہے۔ اسکی تعمیر میں لکڑی ، شیشہ، اور سونا استعمال ہوا ہے۔ اسکی تزئین و آرائش دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اسکی چھتیں منقش لکڑی کی بنی ہوئی ہیں۔ یہ سلائیڈنگ چھتیں ہیں۔ میں نے چھتیں کھلنے اور بند ہونے کا منظر دیکھا جو کہ بہت ہی انوکھا لگا۔ اس مسجد میں کئی ستون ہیں اکثر ستونوں سے ازدواج مطہرات کی کوئی نہ کوئی یاد وابستہ ہے۔ اسی نسبت سے انکے نام بھی ہیں۔اس مسجد کی دیواروں میں سعودی حکومت نے امانتاًسونا بھرا ہوا ہے،تاکہ بوقت ضرورت اسے نکال سکیں۔ اسکی آخری مرتبہ تعمیر کا ٹھیکہ مشہور معمار اسامہ بن لادن کی کمپنی نے لیا۔ تھا۔یہاں عورتوں اور مردوں کے لیے الگ نماز کی جگہ ہے، جبکہ مکہ معظمہ میں سب اکٹھے نماز پڑھتے ہیں۔ رات عشاء کی نماز کے بعد خواتین اکیلی شاپنگ کرنے نہیں جا سکتی ہیں۔مسجد نبوی کے سامنے سونے کی جیولری کی دوکانیں ہیں جبکہ نیچے تہ خانوں میں عطریات کی دوکانیں ہیں۔
مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا اور ہی لظف تھا۔مزے اور لطف و کرم میں مکہّ شریف سے بالکل مختلف احساس۔ ایک ایساحسین احساس قرب خداوندی کہ جسے لفظوں میں بیان کرنے کی تاب نہیں۔وہاں نماز اور تسبیح کے بعد اکثر خواتین آپس میں ہاتھ ملاتیں اور تعارف کرتیں۔میں یہ دیکھ کر بے حد حیرانی ہوئی کہ میرے آس پاس اکثر پاکستانی خواتین ہی ملتیں۔ ایک کراچی کی لڑکی ملی جو مدینہ میں ہی رہتی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ پڑھتی ہو تو کہنے لگے ہاں مگر گھر میں ٹیوشن پہ ۔ اسلیے کہ غیر عربیوں کو یہاں کے اسکولوں میں داخلہ نہیں دیا جاتا۔ وہ لڑکی بلتستان کی تھی اور کراچی سے مدینہ آئی تھی اس بات پہ بہت دلگرفتہ تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ میں اآرٹیکلزلکھتی ہوں ۔ اس پہ اس نے مجھے کہا کہ اس بات کے بارے میں ضرور لکھیں کہ پاکستانیوں کو بھی مدینہ کے اسکولوں میں داخلہ دیا جائے۔ مجھے یہ سن کر بہت افسوس ہوا۔
یہاں ہمارے گروپ کا قیام فائیو اسٹار ہوٹل میں تھا۔ ہم چار خواتین کو نویں منزل پہ بیڈروم ملا۔ یہاں انٹرکام کی سہولت بھی تھی۔ ہوٹل خوبصورت تھا۔ ہوٹل کا لاؤنج سنگی پتھروں سے بنا تھا۔ لاؤنج کے
بیچو ں بیچ کاؤنٹر تھا۔کاؤنٹر کے بائیں جانب لفٹ کے دروازے تھے۔ اس سے ذرا آگے ویٹنگ روم تھا۔ یہاں دبیز قالینوں پہ آرام دہ صوفے رکھے تھے۔ کھڑکیوں پہ ریشمی پردے لہرا رہے تھے۔ اسکے اوپر گیلری تھی ۔ اس میں ڈائیننگ ہال تھا۔ ہوٹل کے لاؤنج کی دیواریں شیشے کی تھیں۔ انکے آر پار باہر کا نظارہ بخوبی دیکھا جا سکتا تھا۔
مدینہ پہنچنے کے دوسرے روزہملوگ اہم مقامات کی زیارتوں پہ گئے۔اس میں مسجد قبیٰ، احد کی پہاڑیاں شامل ہیں۔احد کی پہاڑی میں وہ جگہ بھی دیکھی جہاں مسلمان مال غنیمت لینے کی وجہ سے اپنی پوسٹ سے ہٹ گئے تھے اور ا نہوں نے کافی جانی نقصان اٹھایا۔ مسجد قبیٰ بھی سفید رنگ کی ایک دلکش مسجد ہے۔ وہاں وہ واقعہ بھی سنایا گیا کہ ایک امیر عورت نے نبی کریم کی ضیافت کی۔ وہ مقام بھی دیکھا جہاں اہل مدینہ نے نبی کریم کے قافلے کا استقبال کیا۔ راستے کے اطراف میں بچیاں دف لے کر استقبالی گیت گا رہی تھیں۔
اہل مدینہ کا اخلاق اور گفتار بے حد شیریں تھی۔وہاں ہوٹلوں کے بیرے ، دوکاندار سبھی نگاہیں فرش راہ کیے نظر آتے۔بے شک یہ سرورکائنات کے اخلاق کا عکس تھا کہ آج بھی یہاں ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں اورشیریں پانی ملتا ہے۔نبی کریم کی یہاں آمد سے پہلے یہ شہر بیماریوں کا گھر تھا،اور زمین سے کڑوا پانی نکلتا تھا۔آج اسکے کونے کونے سے رحمت برستی ہے۔کئی لوگ حج پہ مدینہ جانے کو ضروری خیال نہیں کرتے۔ وہ سخت غلطی پہ ہیں۔ اسلیے کہ جس کے دل میں نبیؐ پاک کی محبت نہیں اس کے دل میں ایمان نہیں۔ ایک ہفتہ اس شہر بے مثال میں کیسے گزرا پتہ بھی نہ چلا۔ روانگی کا دن آیا تو پتہ چلا کہ فلائٹ ایک روز لیٹ ہے۔ ہم سے پہلے ترکیوں کا جو قافلہ گیا تھا وہ ایک روز بعد بھی ائیر پورٹ پہ ہی آرام فرما رہا۔ ائیر پورٹ کے ٹائلٹس بند ہو چکے تھے اور ان مسافروں نے بنچوں پہ رات گزاری۔ترکی کے حاجی تو تھے بھی زیادہ تر عمر رسیدہ۔ انہوں نے ایک جیسے ہلکے سبز رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے۔ وہ لوگ لفٹ میں پھنس گئے۔ جب لفٹ کا دروازہ کھلتا انکے نکلنے سے پہلے ہی بند ہو جاتا۔انکی ایک جھلک نظر آتی ایسے لگتا جیسے سب کلوننگ شدہ ہیں۔ بالکل ایک جیسے لگ رہے تھے۔ وہ بلاں چوں چراں اوپر نیچے آجا رہے تھے روحوں کی طرح۔ انکی وجہ سے ہملوگ آدھا گھنٹہ لیٹ ہو گئے۔ ہم نے تو سمجھا کہ وہ جھولے لے رہے ہیں بعد میں پتہ چلا کہ انہیں دروازہ کھولنا نہیں آرہا تھا۔ جب ہم خواتین نیچے اتریں توہمارے مرد حضرات منہ پھلائے ملے۔ لاکھ سمجھایا کہ ہمارا قصور نہیں ، ہم اوپر اٹھکیلیاں نہیں کر رہی تھیں بلکہ انتظار کر رہی تھیں،کہ لفٹ خالی ہو تی تو ہم آتیں۔ مگر مردوں کو منانا آسان نہیں تھا۔ سو انکو انکے حال پہ چھوڑ دیا۔

اپنا تبصرہ لکھیں