عرش کے سائے تلے

تحریر ،شازیہ عندلیب

 8قسط نمبر
اس خالق کائنات کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔ وہ سب جانداروں میں انسانوں سے سب س زیادہ پیار کرتا ہے۔پھر جب یہ انسان خلوص دل سے اس گھر کے مہمان بنتے ہیں تو وہ مالک حقیقی ہر شخص سے اسکی اوقات اور تقویٰ کی حیثیت سے سلوک کرتا ہے۔جو شخص اللہ کی مخلوق سے جتنی محت کرے گا اللہ تعالیٰ بھی اس سے اتنی ہی محبت سے پیش آتا ہے۔کچھ لوگوں کی تو اللہ میاں سے مکہ معظمہ میں جا کر ڈائریکٹ ڈائیلنگ ہو جاتی ہے۔اسی طرح میرا ایک بھانجہ اسکے بعد عمرہ پہ گیا۔ میں نے اس سے کہا کہ میر لیے دعا مانگنا کہ میں یونیورسٹی کے امتحان میں پاس ہو جاؤں۔ وہ کہنے لگا میں دعا مانگوں گا کہ آپ فسٹ آئیں۔ میں نے کہا نہیں اب میں اتنی بھی لائق نہیں۔ مگرمیں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ جب رزلٹ آیا تو میری واقعی فسٹ ڈوین تھی۔
اب ہمارے گروپ کی مدینہ روانگی کا وقت قریب تھا۔ کعبہ شریف پہ الوداعی نظر ڈالی۔ اب ایک جانب خانہ خدا کیے دیدار سے بچھڑنے کا قلق تھا تو دوسری جانب محبوب خدا کے شہر مدینہ جانے کی خوشی بھی تھی۔ خوشی اور غم کے اسی ملے جلے احساس کے ساتھ ہملوگ مدینہ کی جانب عازم سفر ہوئے۔کانوں میں قدیم قافلوں کی صدائے جرس رس گھولتی تھی۔صحرا میں دور کہیں اونٹوں کی قطاریں تصور میں نظر آتی تھیں۔
مدینہ شریف مکہ معظمہ سے آٹھ گھنٹے کی مسافت پہ وقع ہے۔میں تو ہمیشہ انہیں جڑواں شہر سمجھتی تھی، کیونکہ انکا نام ہمیشہ اکٹھا لیا جاتا ہے۔راستے میں ایک چھوٹے سے قصبے میں عصر اور ظہر کی نماز ایک زیر تعمیر مسجد میں پڑھی۔
شہر مدینہ جدید اور قدیم طرز تعمیر کا نمونہ ہے۔تاہم کچھ جدید طرز کے پلازہ بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ لیکن قدیم بازاروں کی تو کیا ہی بات ہے۔ اکثر دوکاندار پاکستانی ہیں۔ وہ دیکھتے ہی پوچھتے ہیں کہ آپ ہیں تو پاکستانی مگر آئے کہاں سے ہیں۔ یہ سن کربہت تعجب ہوا کہ جب ہم اردو بول رہے ہیں تو پھر کیوں پوچھ رہے ہیں کہ کہاں سے آئے ہو، ظاہر ہے پاکستانی ہیں تو پاکستان سے ہی آئے ہیں۔ لیکن نہیں وہ ضد کرتے کہ اس ملک کا نام بتائیں جہاں سے آپ آئے ہیں۔ بعد میں تحقیق پر پتہ چلا کہ پاکستان کی کرنسی

اپنا تبصرہ لکھیں