عرش کے سائے تلے

شازیہ عندلیبArsh k Front page..1

قسط نمبر۵
طواف کرنے بعد ایک انوکھی سی تازگی کا احساس دل میں ہلکورے لینے لگا۔جیسے کسی بہت ہی محبت کرنے والی ہستی سے ملاقات کے بعد ہوتا ہے۔
اس شہر بے مثل کی راہوں پہ چلتے ہوئے یہ دل خوش کن احساس ہوتا کہ ان راہوں پہ نبی کریم بھی چلتے ہونگے، انکا بچپن آپکی جوانی ،آپکا دور رسالت ان فضاؤں نے دیکھا ہو گا۔یہ کائنات ، یہ چاند ستارے جس ہستی کے لیے پیدا کیے گئے یہ شہر اسی ہستی کا ہے۔ آپﷺ یہیں پیدا ہوئے۔یہ علاقہ جو ایک لق و دق صحراء تھا اب بلند و بالا پر شکوہ عمارات سے مزین ہے ۔ اسکی فضاؤں میں فرشتے ہر وقت رحمتیں برساتے رہتے ہیں۔تصور کی آنکھ سے ہی اس شہنشاہ کائنات رب عظیم کا گھر دیکھ کر بے خودی سی چھا جاتی تھی۔ آج یہ گناہگار آنکھیں انہیں خود دیکھنے جا رہی تھیں۔ہملوگ دوپہر کو مکہ شریف پہنچے اور شام کو عمرہ کرنے جانا تھا۔پھر خانہ کعبہ کا نظارہ کرنا تھا، یہ دل خوشی سے دھڑک اٹھا۔بدن میں سرور،و خوشی کی لہریں ہلکورے لے رہی تھیں۔سرشام ہی ہمارا گروپ، گروپ لیڈر کے ساتھ حرم شریف کی جانب روانہ ہو گیا۔مسجد حرم سے پہلے نبی کریم کے گھر پہ نظر پڑی تو یہ نگاہیں عقیدت سے جھک گئیں۔پھر یہ قافلہ باب اسلام سے اندر داخل ہوا۔مسجد حرام کی پر شکوہ عمارت دیکھ کر دل حیران رہ گیا۔ اسکی عظمت بھی نرالی ہے۔یہ دنیا کی سب سے بڑی عبادت گاہ ہے۔ ایسی بابرکت عمارت کہ جس کے کونے کونے سے رحمتیں برس رہی تھیں۔سالار قافلہ نے سب ضروری ہدایات دے کر ساتھ لیا۔خانہ خدا کے مشتاقان نظارہ محرابیں پار کرتے ہوئے آگے بڑھے۔لبوں پہ اللہ کے ناموں کا ورد خود بخود جاری ہو گیا۔جیسے ہی سالار قافلہ نے کعبہ کی آمد کی خبر دی میں نے وفور جزبات سے آنکھین میچ لیں۔اگلے لمحے آنکھیں کھولیں تو خانہ خدا کو حقیقت میں سامنے پایا۔ جیسے کھلی آنکھوں نے کوئی سہانہ سپنا دیکھ لیا ہو۔ اس کائنات کا سب سے زیادہ رحمت والا مقام سامنے تھا جہاں سے کوئی خالی ہاتھ نہیں جاتا۔دل کی دھڑکن خوشی سے معمور ہو گئی۔نگاہیں اس نظارہ سے سیراب ہونے لگیں۔، روح خوشی سے ہلکورے لینے لگی۔ساری کائنات کا نور اس ایک نقطہ پر آ کر منجمد ہو گیا۔ جی تو چاہتا تھا کہ یہ گھڑی کبھی ختم نہ ہو ۔مگر وقت سرکنے لگا اور قدم اٹھنے لگے۔گروپ اس مرکز تجلیات کی جانب بڑھا۔ہم لوگوں نے سب سے زیادہ انوار و تجلیات کے گھر کا طواف کیا۔پھر سعی کی یہ وقت بھی پر لگا کر اڑ گیا۔ وقت کا پنچھی پر لگا کر اڑ گیا۔ طواف کرنے بعد ایک انوکھی سی تازگی کا احساس دل میں ہلکورے لینے لگا۔جیسے کسی بہت ہی محبت کرنے والی ہستی سے ملاقات کے بعد ہوتا ہے۔دو دن کے تھکا دینے والے صبر آزما سفر کے باوجود طواف میں تھکن کا احساس بالکل نہ ہوا۔ورنہ عام حالات میں تو آٹھ گھنٹے کے ہوائی سفر کے بعد انسان بری طرح سے تھک جاتا ہے۔ اللہ کا یہ مبارک گھر جو کئی صدیوں سے ایستادہ ہے، اسکے دیدار کی آرزو پوری ہو چکی تھی۔ دل اک عجیب سی خوشی سے بھر گیا تھا۔ خوابوں میں ، تصوروں میں اور خیالوں میں نظر آنے والے مقدس مناظر حقیقت کا روپ دھار چکے تھے۔اس رات بہت میٹھی اور پیاری نیند آئی۔صبے کے وقت ضیاء جگا کر مسجد حرام لے گئے۔ وہاں کا نظارہ بھی عجب رنگینی لیے ہوا تھا۔ سب مسجد کو بھاگے جا رہے تھے۔ ابھی فجر کی نماز میں آدھ گھنٹہ باقی تھا مگر مسجد کی جانب لگ جوق درجوق بھاگے جا رہے تھے۔ مسجد کے باہر ہمیں جگہ ملی۔ دو تین روز ایسا ہی رش تھا کہ ہم لوگ مسجد کے باہر ہی نماز پڑھ کر آ جاتے۔بعد میں پتہ چلا کہ مسجد کے صحن میں بہت جگہ خالی ہوتی ہے لوگ صرف اس لیے کہ نماز پڑھتے ہی جلدی سے اپنی اقامت پہ پہنچیں ۔ تب سے ہم لوگوں نے مسجد کے صحن میں جاکر نماز پڑھنی شروع کر دی۔نماز پڑھنے کے بعد ہوٹل جا کر ہملوگ سو جاتے پھر دس بجے کے قریب اٹھ کر ناشتہ کرتے۔ناشتہ کے بعد بازار بھی گھومنے گئے، خریدداری کا کوئیے ارادہ نہ تھا کیونکہ ابھی پہلے جس مقصد کے لیے آئے تھے، یعنی فریضہء حج سے فراغت ضروری تھی۔ابھی حج میں ایک ہفتہ باقی تھا۔میں اپنی تمام توجہ کا مرکز صرف حج ، اور دیگر عبادات کو ہی دینا چاہتی تھی۔ شاپنگ کے لیے بہت وقت پڑا تھا۔ پھر یہ چیزیں جمع کرنے کی ہوس تو کبھی ختم ہونے والی نہ تھی۔ زندگی ختم ہو جاتی ہے مگرطمع ختم نہیں ہوتی۔اکثر لوگوں کے نزدیک شاپنگ اور بازاروں میں گھومنا تفریح ہے۔ اس مقدس سفر پہ بھی کئی لوگ اپنا یہ مشغلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ اب انسان عبادت کرے یا چیزیں سنبھالے۔ پھر واپسی پہ سامان کا وزن زیادہ ہونے کی صورت میں الگ مصیبت۔ میں اپنی ایک روم میٹ خاتوں کے ساتھ کبھی کبھی نماز پڑھنے چلی جاتی تھی۔ انکا مشغلہ بھی شاپنگ ہی تھا۔ چوائس بھی انکی اچھی تھی۔ مگر مسلہء یہ تھا کہ وہ جہاں کھڑی ہوتیں وہاں بہت دیر لگا دیتی تھیں۔ میں نے اس مسلہء کا یہ حل نکالا کہ انہیں مسجد سے واپسی پہ ایسے راستے سے لاتی جہاں کوئی دکان نہ تھی۔ جب میں پہلی بار انہیں ان تنگ گلیوں سے لائی جہاں صرف اشیائے خور دو نوش کی ہی دوکانیں یھیں تو ہم لوگ ہوٹل جلدی لوٹ آئے۔ تب اسماء بڑی حیران ہوئیں پوچھنے لگیں ارے آج اتنی جلدی کیسے آگئیں تم دونوں۔ میں نے انہیں چپکے سے بتایا کہ میں انہیں ایسی گلیوں سے گزار کے لائی ہوں جہاں کپڑے زیور کی

کوئی دوکان نہ تھی تو اسماء بہت ہنسی۔ میری یہ روم میٹ زیبالنساء ایک دراز قد اور خوبصورت خاتون تھیں۔ انہوں نے وہاں سے ایک عربی فیروزی چغہ خرید کر پہنا جو ان پہ بہت جچ رہا تھا۔ انہیں چغہ میں ملبوس دیکھ کر اکثر پاکستانی دوکاندار پوچھتے آپ کہاں سے آئی ہیں۔ وہ بتاتیں کہ میں پاکستانی ہوں۔ تب دوکاندارپوچھتے نہیں تم کس ملک سے آیا ہے۔ امریکہ سے یا کنیڈا سے تب میں کہتی یہ آپکے چغہ کاکمال ہے کہ آپ امریکی لگ رہی ہیں۔ اسی طرح انہوں نے ایک ٹوپی خریدی کالی۔ وہ ایک صومالین عورت چھابڑی پہ سڑک کے کنارے بیچ رہی تھی۔ مجھ سے زیب النساء پوچھنے لگیں کہ ہیں کیسی لگ رہی ہوں۔ میں نے کہا اچھی لگ رہی ہے۔ اتنے میں چھابڑی فروش عورت بولی کیا یہ تمہاری کون ہے میں نے کہا دوست ہے۔ زیب النساء اکثر مجھے اپنی ہونے والی بہو کے بارے میں بتاتیں تھیں اور کہتی تھیں کہ وہ بھی تمہارے جیسی ہے، وہ بھی تمہاری طرح ہی سچے خواب دیکھتی ہے۔حج کے بعد میں نے زیادہ شاپنگ انہی کے ساتھ کی ۔ بہت مزہ آیا۔ شاپنگ میں میری چیزیں کم اور تحفے تحائف زیادہ تھے۔مدینہ میں بھی یہ میری ہم نوا رہیں۔مجھے خریدداری کا کوئی خاص شوق تو نہ تھا البتہ مکہ کے قدیم بازار دیکھنے کا شوق ضرور تھا۔اگر آپ نبی کریم کے گھر والی سائیڈ سے مسجد حرام میں داخل ہوں اسکے بائیں جانب بلندو بالا جدید طرز تعمیر کی عمارتیں ہیں۔ جبکہ مسجد کے بائیں جانب کا دروازہ ابو جہل کے گھر کے سامنے کھلتا ہے۔ وہاں اب بیت الخلا ء تعمیر کر دیے گئے ہیں۔ ان سے آگے کپڑے کی اور اشیائے خوردو نوش کی دوکانیں اور ریستوران ہیں۔اسی بازار میں حضرت خدیجۃالکبریٰ کا گھر بھی واقع ہے۔مسجد کے زیادہ دروازہ بازاروں میں ہی کھلتے ہیں۔ان بازاروں میں گھومتے وقت محسوس ہوتا ہے جیسے قدیم زمانے میں آ گئے ہیں۔میں نے ایک لمحہ کیلیے محسوس کیا کہ میں قدیم زمانے کے شہر مکہ میں کھڑی ہوں، اور ابھی صحابہ کرام کے جلو میں نبی کریم ادھر سے گزریں گے۔کئی نگاہیں دیدار کی تمنا لیے ہوئے انکی منتظر ہیں۔ یہ تصور جلد ہی انسانوں کی بھیڑ میں گم ہو گیا اور میں پھر اپنے زمانے میں لوٹ آئی۔مکہ میں تین چار روز ہم لوگون نے اہم مقامات کی زیارت کی ۔ کچھ لوگ غار حرا بھی گئے۔ وہاں ہم لوگ گروپ کے ساتھ جاتے اور جہاں جہاں اہم واقعات پیش آئے ان مقامات کی زیارت کی۔ قدیم قبرستان جنتابقیع دیکھا جہاں اکثر انبیاء اور انکے احباب دفن ہیں۔وہ غار بھی دیکھا جہاں نبی کریم نے دشمنوں سے بچنے کے لیے پناہ لی تھی اورر اس دشمن کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس جاتے تھے۔ پھر وہ ڈر کر بھاگ گیا تھا۔ وہ غار بھی دیکھا جہاں مکڑی نے جالا بنا تھا۔
مجھے جب نماز اور قرآن کی تلاوت سے وقت ملتا میں اپنے سفر نامہ کے لیے اور اپنے قارئین کے لیے اس میں باتیں نوٹ کر لیتی۔ اپنی ڈائری کے کچھ حصے پیش خدمت ہیں۔

ہملوگ تین روز تک مقامنی ٰکے خیموں میں رہے۔ یہں پہ تو فریصہء حج ادا کرنا تھا اور شیطان کو پتھر بھی مارنے تھے۔ یہ بے حد مشکل وقت ہوتا ہے یہاں ہر سال کئی لوگ حدژہ کا شکار ہو کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔خیموں میں رہنے کے لیے ہملوگ اپنا سفری بستر، کمبل اور چند ضروری اشیاء لے گئے۔میرے علاوہ جو چار روم میٹس اسماء، فرحت، زیب انساء اور ژریا تھیں ہم سب کی آپس میں خاصی دوستی ہو گئی تھی۔ بلکہ اتنی انڈرسٹینڈنگ ہو گئی کہ اب ہم لوگ ہر جگہ اکٹھی رہنا چاہتی تھیں۔ لیکن یہ ممکن نہ تھا۔ کیونکہ وہاں ہم نے دیکھا کہ گروپ لیڈر کئی لوگوں کو الگ کر کے جدائیاں ڈال رہے تھے۔ میں نے کئی خواتین کو دکھی ہوتے ہوئے اور روتے ہوئے ھی دیکھا۔ ہم پانچوں بھی خیمے میں ایک جانب دبک کر بیٹھ گئین کہ کہیں ہم بھی جدا نہ کر دی جائیں۔ لیکن خدا نے ہماری یہ محبت بھری دعا سن لی اور ہمارا گروپ ٹوٹنے سے بچ گیا۔
یہ بات تو ہمیں قدم قدم پہ محسوس ہوتی رہی۔یہاں منیٰ کے کیمپ میں ہم لوگوں نے ساتھ ساتھ بستر بچھائیہی تھے کہ مسلم کلچر گروپ والوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ سب لو گاپن یگروپس کے لحاظ سے خیمے لیں۔میں اور اسماء دل ہی د میں دعا کرنے لگیں کہ کہیں ہم نہ الگ ہو جائیں۔ہم پانچ تھیں ، ہمارے علاوہ پورے خیمے میں بیس پچیس خواتین اور بھی تھیں۔ہم وہیں بیٹھی رہیں اور سب کے خیمے تبدیل ہو گئے۔ہم دونوں بہت خوش ہوئیں کہ اللہ میاں نے ہمارا کتنا خیال رکھا ۔تب اسماء کہنے لگیں دیکھا اللہ میاں ہم سے کتنا لاڈ کر رہے ہیں۔یہ خیمہ بہت آراستہ و پیراستہ تھے۔ ان کی زمین پہ خوبصورت قالین بچھے تھے اور ائیر کنڈیشن لگے ہوئے تھے۔اسکے علاوہ لائٹننگ کا بھی انتظام تھا۔ غرض یہ کہ صحرا میں نخلستان تھا۔ درحقیقت کچی زمیں پہ بچھے قالین پ سونا ایک مشکل کام تھا، مگر ہمارے دلوں میں خدا کی رضاحاصل کرنے کا جذبہ ایسا تھا کہ وہ روھ کی گہرائیوں تک کو تراوٹ اور سرور کی کیفیت دے رہا تھا۔اسلیے یہ تکالیف کچھ معنی نہ رکھتی تھیں۔یہاں سب لوگ زیادہ تر تلاوت میں ہی مشغول رہے۔
اگلے روز شیطان کو کنکریاں مارنی تھیں۔یہاں ہر سال بھگدڑ کی وجہ سے کئی لوگ مر جاتے ہیں۔ یہ سوچ کر کبھی کبھی دل میں اک خوف کی لہر بھی اٹھٹی جو جلد ہی خدا کی رحمت میں جذب ہو جاتی۔پھر ہم لوگ کنکریاں چننے مزدلفہ گئے ۔ یہ ایک بلند اور سنگلاخ پہاڑوں میں گھری وادی ہے۔یہ جا بجا کاغذوں ، کوڑے اور کھڈوں سے پرھی ہ میلوں کے رقبہ پہ پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں ہمیں شب بسری کرنی تھی۔یہاں آ کر انسان کو اپنی بے سروسامانے کا احساس ہوتا تھا۔ایک حشر کا سا سماں تھا۔ہر کسی کو اپنی پڑی تھی۔پھر ہم لوگ اپنے گروپ سے بچھڑ گئے۔بڑی مشکل سے کھڈے پار کرتے ہوئے میدان کے دوسرے جانب پہنچے۔ وہاں سڑک کے کنارے بستر پہ دراز ہوئے۔گاڑیاں اور بسیں ہارن بجاتی ، دھوان پھیلاتی ہوئی آ جا رہی تھیں۔اس فضاء میں زکام ، اور نزلہ زکام کو خوب پھولنے پھلنے کا موقعہ ملا۔اس بے سرو سامانی میں سوائے ورد کے اور کچھ عبادت کا موقع نہ ملا۔کچھ دیر بعد اپنے کیمپ کے کچھ لوگوں کا بھی سراغ مل گیا۔ ہم لوگوں کے جہاں بستر تھے وہاں سڑک کاکنارہ تھا۔جہاں گھاس بھی اگی ہوئی تھی اور پتھر ، کنکریاں اور سنگریزے بھی تھے۔ کچھ لوگ کنکریاں چن رہے تھے اور کچھ لوگ پتھر توڑ کر کنکریاں بنا رہے تھے۔رات کے دو بجے ہم لوگ سنگلاخ زمین پہ بچھے بستر پر نیند کی آغوش میں چلے گئے۔د لمیں بے گھر لوگوں کے احساس جاگ اٹھا۔ صبح فضر کے ٹائم پہ آنکھ کھلی۔ہزاروں لوگوں کے لیے گنتی کے چند ٹائلٹس اور وضو خانے تھے۔چنانچہ ٹائلٹس کے اہر طویل قطاریں تھیں۔یہ انتہائی صبر آزما لمحات تھے۔ کئی خواتین کو بے صبری کے مظاہرہ بھی کرتے دیکھا ۔ وہ اپنی اپنی زبان میں برہمی کا اظہار کر رہی تھیں۔
کنکریاں لے کر ہملوگ اپنے خیموں میں واپس پہنچے۔ اس خیمہ بستی میں ہم لوگوں نے تین چار روز قیام کرنا تھا۔ تین روز کنکریاں مارنی تھیں۔پہلے روزہمارے پہنچنے س پہلے وہاں حادثہ ہو گیا کئی لوگ بھگدڑ میں جان دے بیٹھے۔اور ہاں اس کے بعد موسلا دھار بارش بھی ہوئی۔ بارش رکی تو ہمارے گروپ لیڈر نے ہمیں اکٹھا کیا اور بس کے انتظار میں کھڑے ہو گئے۔ کئی لوگ پیدل بھی جا رہے تھے، لیکن اب پیدل جانے کا حوصلہ نہیں تھا۔ دو تین بسیں آئیں مگر بات نہ بنی کیونکہ وہ کرایہ زیادہ مانگ رہا تھا۔ہم لوگ ہر بس کے رکنے پر پر امید ہو جاتے کہ اب تو ہم ضرور پہنچ جائیں گے، وہاں جا کر ہم لوگ شیطان کو سبق سکھائیں گے۔ پھر میں اور اسماء مذاق کرتیں لائن میں کھڑے کھڑے ہماری ہنسی چھوٹ جاتی۔ پھر بس ہمیں چھوڑ جاتی۔ نہ جانے کتنی بار ایسا ہوا، مین نے اور اسماء نے نفل مانے۔ پھر توبہ کی کہ اب ہم نہیں ہنسیں گے۔ اللہ میاں تو ہم سے ناراض ہو جاتے ہیں ۔ پیچھے کھڑی ایک عمر رسیدہ عورت نے مجھے ٹہوکا دیتے ہوئے کہا، کیوں ہنس رہی ہو تم اسی لیے کہتے ہیں چھوٹی عمرمیں حج نہیں کرنا چاہیے۔ جب خوب پکی اور سمجھداری کی عمر ہو جائے تب حج کرنا چاہیے۔ خیر خدا خدا کر کے کنکریاں مارنے پہنچے۔ ہمارے گروپ کے مردوں نے بڑی حفاظت سے عورتوں کو اپنے حلقے میں لے کر کنکریاں پھینکوائیں۔ تمام کام بخیر و خوبی تہ پا گیا۔مکہ پہنچنے کے بعد پہلی مرتبہ ہمارے گروپ لیڈر نے ذمہ داری کا ثبوت دیا ۔ورنہ وہاں جان کا بہت خطرہ تھا۔ایمتو وہاں سب چپل پہن کر جاتے ۔ اگر ہوائی چپل کسی کے پاؤں سے نکل جاتی اور وہ اسے اٹھانے جھک جاتا تو پورا ہجوم اسکے اوپر جا گرتا۔ اسطرح بھگدڑ مچ جاتی اور حادثہ ہو جاتا۔ دوسری وجہ حادثہ کی وہ لوگ بنتے جو کہ رمی کرنے والے یعنی کنکریاں مارنے والے میدان میں خیمے لگا کر بیٹھے تھے۔ سمجھ نہیں آتی کہ یہاں خیمہ لگانے کی کیا تک تھی۔ خیمہ بھی وہ جو تفریحی ہوتے ہیں اور ٹورز پہ لگائے جاتے ہیں۔ انکی وجہ سے کنکریاں مارنے والوں کے راستے میں رکاوٹ کھڑی ہو جاتی۔ حادثہ کے بعد پولیس نے انہیں مار مار کر بھگایا۔جب پہلے روز بار ش ہوئی تو ہماری روم میٹ فرحت بھی وہاں موجود تھیں۔ انہوں نے سارا حادثہ دیکھا۔ انکے سامنے ایک ریت کی پہاڑی دھماکے سے پھٹ گئی۔ بارش بہت موسلا دھار ہواور طوفانی تھی۔ اسی دوران حادثہ بھی ہوا۔ فرحت کا کہنا ہے کہ میں نے حادثہ کے وقت کئی خوفناک چہرے والے لوگ دیکھے جو ہجوم کے اوپر چھلانگیں لگا رہے تھے۔ انکا خیال تھا کہ یہ شیطان کے چیلے تھے۔ فرحت بہت نیک اور نرم مزاج خاتون تھیں۔ وہ ہر وقت اللہ کے ناموں کا ورد کرتی رہتی تھیں۔ انہوں نے خانہ کعبہ میں فانوسوں سے نور کی بارش بھی دیکھی تھی۔ اس حادثہ کی وجہ سے ہمارے گروپ لیڈر نے پہلے دن ہم لوگون کو بڑی احتیاط سے رمی کروائی۔ ہم لوگون نے انکے اس کام کی تعریف کی حالانکہ یہ تو انکا فرض تھا۔ مگر انہیں اس تعریف کی ایسی نظر لگی کہ وہ پھر دو دن نظر ہی نہ آئے۔دوسرے روز خود ہی کنکریاں ماریں اور تیسرے روز اسماء کے چچا جو کنیڈا کے حج گرپ کے لیڈر تھے انکی مدد سے کنکریاں ماریں۔ اب ہم لوگوں نے مکہ روانہ ہونا تھا۔ وہاں سے پھر خیموں میں واپس آنا تھا۔طہ یہ پایا کہ وہاں سے پیدل ہی چلا جائے، کیونکہ رش کی وجہ سے بس مین تین چار گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ آج ہم لوگ بہت خوش تھے اسلیے مکہ کی جانب پیدل ہی چل پڑے۔ہم لوگوں نے یہ سفر پیدل پنتالیس منٹوں میں طہ کر لیا۔تیز موسلا دھار بارش نے سارے پہاڑ اورسبزہ کو دھو دیا تھا۔ اب سورج چمک رہا تھا۔سڑکوں پر ریت اور مٹی کے ڈھیر تھے۔ ٹریفک چار پانچ گھنٹے رکی رہی۔ہملوگ مزے سے کھاتے پیتے پیدل ہوٹل پہنچ گئے۔راستے میں لوگ مشروبات اور پھل لے کر کھڑے تھے۔ حج سے آنے والوں کو دوڑ دوڑ کر کیلے کینو ، مالٹے اور امرود پیش کرتے۔ ایک لڑکا راستے میں میری جانب دوڑا آیاکیلے لے کر۔ میں نے دل میں کہا اللہ میاں مجھے پہلے ہی زکام ہے کیلوں سے اور زیادہ ہو جائے گا، میرا تو جی چاہ رہا ہے کینو کھانے کویہ سوچنا تھا کہ فوراً دوسری جانب سے ایک لڑکا کینو لیے دوڑا آیا اور مجھے دو کینو دیے۔ میں نے آج تک ایسے لذیز کینو نہیں کھائے۔ اس گھڑی تو میں من و صلویٰ کی تمنا کرتی تو وہ بھی مل جاتا۔بس اس کے بعد تو وہ طویل مسافت جیسے تاروں پہ چل کے طہ ہوئی۔ سارے راستے کہکشائیں بن گئے۔ پنتالیس منٹ کی مسافت پل بھر میں طہ ہو گئی۔ مجھے لگا کہ میں پیدل نہیں اڑ کر منزل پہ جا پہنچی۔جو لوگ بسوں پہ آئے تھے وہ تین سے چار گھنٹے کی تاخیر سے پہنچے۔

اس برس بھی تین سو افراد لقمہ اجل بنے اور وہ بھی عین اس وقت جب ہم نے جانا تھا، مگر ایک گروپ ممبر کی وجہ سے لیٹ ہو گئے۔ بعد میں سب لوگ اس لیٹ ہونے والے کے بہت شکر گزار ہوئے۔
تیسرے روز تو اس خیمہ بستی پہ ایسی بارش برسی کہ سارا صحرا جل تھل ہو گیا،سامان بہ گیا اور خیمہ بستیاں زیر آب آ گئیں۔سیلاب کی وجہ سے لوگ کیمپوں میں محصور ہو گئے۔جب بارش کا زور ٹوٹا تو لوگ اپنے اپنے گروپوں کی خبر لینے نکلے۔ میں نے ضیاء سے رابطہ کرنا چاہا تو رابطہ نہ ہو سکا، بہت پریشانی ہوئی۔ اتنے میں انکے خیمے میں رہنے والا ایک شخص نظر آیا ۔میں نے اس سے ضیاء کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا مجھے نہیں پتہ اور اپنی فیملی کو لے کر چلتا بنا۔وہ آدمی بھی ضیاء کے خیمے میں ہی تھا اور اکثر راستے میں زیارتوں اور احادیث کے بارے میں بتاتا رہتا تھا۔ اس مشکل گھڑی میں اسکی رکھائی اور بے رخی دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ کیا یہی اخلاق ہے ایک مسلمان بھائی کا کہ جب مصیبت پڑےء تو منہ ہی موڑ لے؟؟خیر تھوڑی دیر بعد ضیاء بھی آ گئے ہم لوگ اسماء وغیرہ کے ساتھ سامان اٹھا کر ہوٹل چلے گئے۔راستے میں سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھیں۔ لوگوں کے بستر اور سامان بہہ رہے تھے صحرا ئی ریت اور مٹی نے بہت سی چیزوں کو ملیا میٹ کر دیا تھا۔ہمارا نقصان اس لیے کم ہوا کہ ہمارے خیمے بلندی پہ نصب تھے۔

اپنا تبصرہ لکھیں