عرش کے سائے تلے

قسط نمبر ۴
پنے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے معنی خیز انداز میں بولے کہ مجھے تو اپنے گروپ کی ہر عورت کا نام یاد ہے مگر مردون کا نہیں ۔ جی صرف عورتوں کا میں
نے استفار کیا تو کہنے لگے نہیں اپنے گروپ کے دو سو ممبروں کا نام یاد ہے، مگر۔۔۔۔۔
چونکہ ضیا کو نویں منز پہ دوسرے مرد حضرات کت ساتھ کمرہ ملاتھا اس لیے خواتین کے کمروں کے سامنے مرد حضرات کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔اسلیے کہ وہاں انٹرکام اور فون کی سہولت موجود نہیں تھی۔اگر مرد حضرات کا کمرہ اسی منزل پہ ہوتا تو کم ازکم کچھ تو سہولت ہو تی رابطہ میں۔ بکنگ کے وقت جس فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام کا زکر کیا گیا تھا۔ وہ مدینہ میں تھا۔ گروپ لیڈر وہاں پہنچنے کے دو روز تک تو کاؤنٹر کے آس پاس نظر آتے رہے ، مگر شکایات سے گھبرا کر جلد ہی منظر سے غائب ہو گئے۔میں بھی اپنے گروپ لیڈر سے شکائیت کے لیے گئی کاؤنٹر پہ۔ وہ تو نہ ملے البتہ دوسرے گروپ کے لیڈر مل گئے۔ میں نے ان سے مدعا عرض کیا کہ مجھے ضیاء سے رابطے میں مشکل ہوتی ہے کوئی انٹرکام وغیرہ کا بندوبست کریں۔ وہ کہنے لگے کہ میں تو ضیاء کو نہیں جانتا۔ حالانکہ میں نے کئی مرتبہ انہیں ضیاء سے باتیں کرتے دیکھا تھا۔ میں نے انہیں حلیہ وغیرہ سمجھایا کہ وہ جو سفید رنگت اور ہنس مکھ چہرے والے ہیں، مگر توبہ ہے جو وہ سمجھنے کی کوشش کرتے۔ اپنے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے معنی خیز انداز میں بولے کہ مجھے تو اپنے گروپ کی ہر عورت کا نام یاد ہے مگر مردون کا نہیں ۔ جی صرف عورتوں کا میں نے استفار کیا تو کہنے لگینہیں اپنے گروپ کے دو سو ممبروں کا نام یاد ہے، مگر ضیاء صاحب تو میرے گروپ میں نہیں ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپکو اپنے گروپ کے دو سو نام یاد ہیں تو اب دو سو ایک نام یاد کر لیں ضیاء سمیت۔اسلیے کہ ہمارے گروپ لیڈر کا تو دیدار نصیب ہونا مشکل ہے اسلیے آپ ہی ہمارے مسائل حل کریں۔ میں یہ کہ کر زیبن آنٹی کے ساتھ چلی گئی۔ زیبن آنٹی کہنے لگیں تم نے بڑی جرآت سے اسے جواب دیا ۔ کیسی باتیں کر رہا تھا کہ صرف عورتوں کے نام یاد ہیں۔
مکہ معظمہ میں ہمارے گروپ نے پندرہ روز قیام کیا۔ وہ شب و روز زندگی کے یادگار دن بن گئے۔حالانکہ ان میں بہت کٹھن اور صبر آزما مراحل شامل تھے۔احساس قرب خداوندی نے طبیعت میں ایک عجیب سی سرشاری اور سرور کی سی کیفیت بھر دی تھی۔کبھی کبھی خدائے ذولجلال خود پر خصوصی مہربان محسوس ہوتا تو جسم کا رواں رواں احساس قرب کی آنچ سے مہکنے لگتا۔ویسے تو یہ احساس اور لوگوں کو بھی ضرور ہوتا ہے ۔ مجھے تو قدم قدم پہ یہ احساس ہوتا تھا۔ایک انجانا سا غیر مرعی سا احساس قدم قدم پر دل کے تاروں کو چھیڑ دیتا تھا۔میں مکہ کی قدیم گلیوں اور بازاروں سے گزرتی تو مجھے نہ جانے کیوں ایسا لگتا کہ میں یہاں پہلی بار نہیں آئی۔ میں یہاں اس سے پہلے بھی آ چکی ہوں۔یک عجیب سا انسیت کا احساس اس شہر کی فضاؤں میں بسا ہوا تھا۔میں ان گلیوں بازاروں میں چلتے وقت اپنی خوشقسمتی کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کرتی۔یہ سوچ کر ہی مجھے سرشاری کی سی کیفیت محسوس ہوتی کہ اس شہر بے مثال کی فضائیں پیارے نبی آخر زماں ﷺ کی سانسوں سے معطر ہوتی ہونگی۔ان پہاڑیوں نے پیارے نبی کا دیدار کیا ہو گا۔اس زمین کی مٹی نے پیارے نبی کے قدموں کو چھو ا ہو گا، انہیں چوما ہو گا، انہیں محسوس کیا ہو گا۔
ہماری رہائشگاہ خانہ کعبہ سے دو گلیاں چھوڑ کر تھی۔ہوٹل والی گلی سے دو موڑ مڑ کر سامنے نبی کریم کا گھر نظر آتا اور اس کے ساتھ ہی بادشاہ کے محل کی بلند عمارت اور محل کی دیوار کے ساتھ مسجد حرام اور مسجد حرام کے حلقہ میں کائنات کا سب سے زیادہ بابرکت مقام خانہ کعبہ واقع ہے۔ہمارے ہوٹل کے سامنے مختلف استعمال کی اشیاع کی دوکانیں تھیں ۔ہوٹل کے بالکل سامنے سوٹ کیس ، کمبل اور گرم مسالے والے کی دوکان تھی۔ جب اس گلی سے مڑ کر دائیں جانب جائیں تو وہاں مرغیاں گرل کرنے والے دوکان تھی۔ اسی قطار میں اور بھی اشیائے خوردو نوش کی دوکانیں تھیں۔ اس کی آخری دوکان کاسمیٹک اور دواؤں کی تھی۔اسکے بالکل سامنے ایک ایرانی ہوٹل تھا۔ اس سے پہلے برتنوں اور بیڈ شیٹس کی دوکانیں تھیںَیہ گلی پار کر کے بڑی سڑک آ جاتی ہے۔ یہاں زیادہ دوکانیں کپڑوں کی ہیں۔ اور کئی چھوٹی گلیاں بڑے شاپنگ سنٹرز اور بازاروں میں نکلتی تھیں۔یہی سڑک نبی پاک کے گھر کی جانب جاتی ہے۔ اس جانب گھر کی پچھلی سائیڈہے اور وہاں چھوٹی پہاڑیاں ہیں۔ قیاس ہے کہ یہ وہی پہاڑیاں ہیں جہاں چڑھ کر نبی کریم نے اہل مکہ کو وہ تاریخی اعلان نبوت کیا تھا جس کی گونج آج بھی ان پہاڑیوں کے قرب و جوار میں سنائی دیتی ہے کہِ
249اے اہل مکہ اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے ایک لشکر ہے تو کیا تم مان لو گے۔ سب اہل مکہ نے یک زبان ہو کر کہا تھا ہاں ہم مان لیں گے اس لیے کہآپ صادق اور امین ہیں آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ تو پھر نبی کریم نے اعلان نبوت کیا اور اسلام پر ایمان لانے کی دعوت دی مگر کفار مکہ ایمان نہ لائے۔ صرف نبی پاک کے چچا ابو طالب اور زوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ ہی ایمان لا ئے اور اسلام پر ایمان لانے والے پہلے مسلمان کہلائے۔اس کے بعد تو مکہ کی معاشرت میں ایک طوفان برپاء ہو گیا۔ ہر طرف حق اور باطل کی خونریز جنگ پھیل گئی۔ پھر اسی آسمان مکہ نے اسلام کو پھیلتے، اور پھلتے پھولتے دیکھا۔پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اسلام کا دیا ایک ایسی قندیل میں تبدیل ہو گیا جس کی روشنی سے سارا جہاں منور ہو گیا۔ اس روشنی نے دلوں کی سیاہیاں دھو ڈالیں اور روح تک کو منور کر دیا۔آج ایک بار پھر اسلام کی شمع کو زمانے کے طوفانوں اور تھپیڑوں کا سامنا ہے کون ہے جو آگے بڑھ کر اس ے طوفانی ہواؤں سے بچائے گا۔ کہاں گئی ہمارے دلوں میں جگمگاتی شمع ایمان؟، کہاں ہے؟ ہماری غیرت ملی؟، کہاں ہے ہمارا جزبہ محبت؟، کہاں ہیں وہ سرفروشان اسلام جن کی ایک آواز پہ پورا عالم اسلام لبیک کہ اٹھتا تھا۔ آج اسلام صرف مسجد اور کعبہ تک ہی محدود ہو کے رہ گیا ہے۔ عملی زندگی میں اسکا عمل دخل ختم ہو چکا ہے۔ ہمیں ایک مرتبی پھر اسلام کے پلیٹ فارم پہ متحد ہونے کی ضرورت ہے۔

Back to Conversion Tool

اپنا تبصرہ لکھیں