عرش کے سائے تلے

Qist number 22مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارے گروپ لیڈر نے ہم سے ٹکٹ کی رقم تو وصول کر لی مگر ٹکٹ کئی یاد دہانیوں کے باوجود عنائیت نہ کی ۔کیونکہ یہ بکنگ کسی جاننے والے کے ذریعے ہوئی تھی۔ہمارا واحد رابطہ کا ذریعہ انکا موبائیل تھا۔نہ کوئی اتہ نہ پتہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ انکا آفس خلاء میں ہے۔اصل میں انکا آفس تو ایک لیب ٹاپ کمپیوٹر میں واقع تھا ۔ جہاں کمپیوٹر کھولتے وہاں آفس کھل جاتا۔کاغذات کی عدم موجودگی کی وجہ سے خدشہ تھا کہ وہ کہیں عام پاکستانیوں کی طرح غچہ نہ دے جائیں۔ کیونکہ ہم پاکستانی تو ایسی وارداتوں کے عادی ہیں۔اگر فلائٹ وقت پہ آتی تب تو ٹھیک تھا لیکن فلائٹ کی تاخیر اندیشوں کو ہوا دے رہی تھی۔ مگر دور کہیں امید کا اک دیا روشن تھا۔ یہ تو اعتبار کے سلسلے تھے اللہ مالک ہے یہ سوچ کر دل ناداں کو تسلی دی۔تھوڑی دیر بعد اطلاع ملی کہ فلائٹ ایک بجے نہیں تین بجے آئے گی۔میرا دل ایک دفعہ پھر ڈوب کر ابھرا۔ ماتھا ٹھنکا۔ میں پھر سنبھل کر اعتبار کی کڑیاں جوڑنے لگی، کیونکہ میری نگاہیں لاؤنج میں کئی شناسا چہرے دیکھ رہی تھیں۔ سب ہماری طرح بے ٹکٹے تھے۔ ایک تو کسی ائیر لائن کے انجینیر تھے۔ انہیں دیکھ کر خاصی تسلی ہوئی، کیونکہ وہ نہائیت ذھین اور بذلہ سنج شخص تھے۔ ان سے اکثر پاکستانیوں کی معروف آرگنائزیشن پف کے فنکشنز میں آمنا سامنا ہو جاتا تھا۔ وہ خود جس قدر ہنس مکھ تھے بیگم اسی قدر ریزرو رہتی تھیں۔ بہت سوچ سمجھ کر، احتیاط سے بلکہ کنجوسی سے مسکراتی تھیں۔وہ صرف سہیلیوں سے گفتگو کرنا پسند کرتی تھیں ۔ اسلیے بات علیک سلیک سے آگے نہ بڑھ سکی۔ابھی ہم لوگ لاؤنج میں بیٹھے ہی تھے کہ ہمارے گروپ میں ایک نرالی سی ہلچل مچ گئی۔ انکشاف ہوا کہ ہمارے گروپ لیڈر کا بالآخر ظہور ہو چکا ہے۔ایک، پھرتیلا، باریش، بوٹا سا شخص سر پہ ٹویی اور، آنکھوں پہ عینک جما ئے گروپ کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔مجھے بتایا گیا کہ یہ صاحب ہمارے حج گروپ کے لیڈر یعنی سالار قافلہ ہیں۔انہوں نے حال ہی میں سعودی عرب سے عالم کا کورس مکمل کیا تھا۔عربی زبان پہ خاصا عبور تھا۔ نارویجن زبان بھی عربی لحجے میں ہی بولتے۔اسلامی سنٹر میں درس دینے کیلیے تو انکا علم بہت کار آمد تھا لیکن فاتح عالم سکندراعظم کے ہم نام کو ٹریولنگ کورس بھی کرنا چاہییے تھا۔ جس کا احساس دوران سفر بہت ہوا۔ اس کورس کی کمی کی وجہ سے دوران حج زیادہ وقت لوگ انہیں ڈھونڈتے رہے تھے۔ لیکن یہ نہائیت ہشیاری سے لوگوں کی نگاہوں سے بچے رہے۔ بس دو چار مرتبہ اچانک انکا ظہور ہوا اور پھر یہ غائب ہو گئے۔ اس قافلے میں دو لیڈر تھے۔دوسرے لیڈربلے پتلے ادھیڑ عمر کے ہنس مکھ شخص تھے۔ وہ تمام حج کے دوران نظر آتے رہے۔ وہ اتنے ہنس مکھ تھے کہ بات کرتے تو لگتا کہ لطیفہ سنا رہے ہیں۔ پہلے لیڈر بات کرتے تو لگتا کہ خطبہ دے رہے ہیں۔وہ کافی سنجیدہ مزاج تھے۔ رویہ حاکما نہ تھا۔ کئی لوگوں سے انکا یہ رعب برداشت نہ ہو سکا اور وہ ان سے لڑ پڑے۔ کئی خواتین نے ان کے ظاہر ہوتے ہی انہیں بے نقط سنا ڈالیں۔ایک خاتون نے انہیں شریعت کی خلا ف ورزی پہ خوب سنائیں۔ غرض یہ کہ وہ جتنا چھپتے لوگ اسی قدر انکی تاک میں رہتے۔ یہ آنکھ مچولی سارے حج کے دوران چلتی رہی۔

میں نے دیکھاائیرپورٹ پہ ہمارے پف تنظیم کے ممبر بھٹہ صاحب ہوائی چپل پہنے ضیا کو آہستہ آہستہ کچھ سمجھاتے ہوئے چلے آ رہے ہیںَ۔ ضیاء آہستہ آہستہ سر ہلاتے ہوئے آ رہے تھے۔۔ میرے پاس آ کر پریشانی سے بولے شازیہ احرام پہن لو بھٹہصاحب کہ رہے ہیں حج شروع ہو چکا ہے۔ یہ سن کر میرے بدن میں ایک خوشی کی لہر سی دوڑ گئی۔ میں نے گرم جیکٹ اتاری اور احرام اوڑھ لیا۔۔ میں نے ضیاء کو بھی احرام نکال کر دیا۔انہوں نے احرام باندھا ذرا مشکل تھا۔ضیاء کو ایکدم سے گرم سوٹ سے نکل کر احرام میں دیکھ کر میری ہنسی چھوٹنے لگی۔مگر میں نے بھٹہ صاحب کے لحاظ سے ضبط کر لی۔وہ احرام باندھنے میں ضیاء کی مدد کر رہے تھے۔کئی اور مرد حضرات کو بھی احرام درست کرتے دیکھا۔ کئی خواتین بھی اپنے اپنے مردوں کی مدد کر رہی تھیں۔ ان میں سے بیشتر خواتین اپنی ساڑھی باندھنے کا تجربہ بروئے کار لا رہی تھیں۔

میں نے اپنے آس پاس نظر دوڑائی کچھ خوش اخلاق خواتین بھی نظر آئیں۔ میں نے ان سے اپنا تعارف کروایا۔ انہوں نے کچھ مسائل بتائے۔ پھر ہم سب نے مل کر نماز پڑھی۔اتنے میں اطلاع آئی کہ جہاز دوگھنٹے بعد آئے گا۔ شکر کیا کہ ایک گھنٹہ گزر گیا۔ اب بھوک سخت لگی تھی۔کھانے کا انتظام اس نامعلوم ایئر لائن نے کیا جس میں ہم سب نے جانا تھا۔بھٹہ صاحب ہم سب کو کاؤنٹر پہ لے گئے اور پوچھنے لگے کہ کیا کھانا ہے۔پھر خود ہی مشورہ دیا کہ جھینگوں کے برگر لے لیں۔جھینگوں میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ گوڈے گوڈے نمک ہوتا ہے۔ حج میں کام آئے گا۔ سب مسکرا دیے اور جھینگوں کا آرڈر دے دیا گیا۔سب کاؤنٹر سے اپنی اپنی ٹرے لے کر کھانا کھانے لگے۔

اپنا تبصرہ لکھیں