طیارے کے اندر کیا ہوا

میاں منیر احمد
امارات ایئرلائن 612 کا تاریخی سفر مکمل ہوا۔ یقینا امارات کے طیار ے کو اس

سے قبل نہ ایسی منزل ملی ہوگی اور نہ ہی ایسے مسافر۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری کینیڈا سے لندن اور پھر وہاں سے دبئی سے ہوتے ہوئے اسلام آباد پہنچنا چاہتے تھے۔ کینیڈا سے لندن اور پھر وہاں سے دبئی تک کا سفر تو پرامن رہا لیکن اسلام آباد کی زمین نے ان کے طیارے کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیا اور
طیارے کو لاہور میں لینڈ کرنا پڑا۔
جب
پائلٹ نے اعلان کیا کہ اسے اسلام آباد میں اترنے کی اجازت نہیں
مل رہی اور طیارہ اب لاہور میں لینڈ کرے گا تو عینی شاہدین کے مطابق طاہرالقادری بہت پریشان ہوئے، اسی پریشانی میں انہوں نے جہاز کے عملہ کو دبائو میں لانے کے لیے اپنے کارکنوں کو شدید مزاحمت کرنے کی ہدایت کی، جس پر طاہرالقادری کے پیروکاروں نے خوب احتجاج کیا اور تمام کارکن اپنی نشستوں کو چھوڑ کر بزنس کلاس میں آگئے جہاں آکسیجن کم ہونے کے باعث ایک مسافر کی طبیعت خراب ہوگئی اور اسے جہاز کے اندر عملہ نے طبی امداد بھی دی۔
اس
دوران طاہرالقادری کے کارکن جہاز کے عملہ سے بھی باقاعدہ گتھم گتھا ہوتے رہے، جس پر پائلٹ اور عملہ کے ارکان خوف زدہ ہوگئے کہ انہیں اس سے قبل نہ ایسے مسافر ملے تھے اور نہ کبھی کسی مسافر نے انہیں پکڑ کر بھینچا تھا۔ عملہ کی خواتین اور مرد حضرات التجا کرتے رہے کہ دھکم پیل نہ کی جائے۔ مسلم لیگ نواز کے چیئرمین راجا محمد ظفرالحق بھی اسی طیارے میں سوار تھے، وہ سعودی عرب میں او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کے بعد وطن واپس آرہے تھے۔ انہوں نے بھی طاہر القادری سے درخواست کی کہ اپنے کارکنوں کو جہاز کے عملہ سے دھکم پیل کرنے سے منع کریں، لیکن کارکن یہ سب کچھ کرنے کے لیے اشارے تو وہیں سے لے رہے تھے، اس لیے ان کی درخواست بھی رائیگاں گئی۔
امارات ائیرلائن انتظامیہ
نے طاہرالقادری پر اپنی ائیرلائن کے ذریعے سفر پر تاحیات پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ طاہر القادری کو امارات ائیرلائن کی جانب سے قانونی کارروائی کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق لاہور ایئرپورٹ پر طیارے اترنے کے بعد بھی طاہرالقادری طیارے میں بیٹھے رہے، انہوں نے نہ کسی کو اترنے دیا نہ کسی کو اندر آنے دیا بلکہ جہاز کے دروازوں کے سامنے کھڑے ہوکر مسافروں کو اترنے سے روکتے رہے۔ امارات ائیرلائن حکام کی رائے میں طاہر القادری کا اس طرح سے طیارے کو روکے رکھنا اور اس میں بیٹھے رہنا ہائی جیکنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ جہاز میں ہونے والے اس پورے واقعہ کے راجا محمد ظفرالحق عینی شاہد ہیں۔ اس جہاز میں کچھ کشمیری رہنما اور کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں ایک بڑی کمپنی چلانے والے بزنس مین سجاد سرور بھی تھے۔ جب سجاد سرور سے استفسار کیا تو انہوں نے ان تمام واقعات کی تصدیق کی اور رابطہ کرنے پر فرائیڈے اسپیشل کا شکریہ بھی ادا کیا۔
طاہرالقادری جب دبئی سے سوار ہوئے تو وہ مسلم لیگ قاف کے رہنمائوں سمیت دیگر لوگوں سے رابطے میں رہے اور لمحہ بہ لمحہ صورت حال معلوم کرتے رہے۔
اسلام آباد میں طیارہ اتارنے کی اجازت نہ دے کر حکومت نے طاہرالقادری کا مسلسل سفر کرتے ہوئے تین روز میں اسلام آباد سے لاہور پہنچنے کا پروگرام تو ختم کردیا، تاہم اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہری رکاوٹوں کے باعث محصور ہوکر رہ گئے، اور پولیس اور عوامی تحریک کے کارکنوں کی جھڑپوں کے باعث دونوں شہروں کی سڑکیں میدانِ جنگ کا منظر پیش کررہی تھیں۔
طاہرالقادری کا یہ کمال ہے کہ وہ سیاست عوامی تحریک کے پلیٹ فارم سے کرتے ہیں جبکہ کارکن این جی او منہاج القرآن کے استعمال ہوتے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق گزشتہ سال اسلام آباد دھرنے کے دوران منہاج القرآن کے غیر ملکی کرنسی بینک اکائونٹ سے 2 لاکھ 65 ہزار پائونڈ اور پاکستانی کرنسی اکائونٹ سے12کروڑ روپے نکالے گئے۔ اس پروگرام پر کتنے اخراجات ہوئے، اس کا ابھی اندازہ نہیں ہوا۔
اسلام آباد میں کھنہ پل، کرال چوک اور اسلام آباد ایئرپورٹ کے قریب جھڑپوں میں ایک سو سے زائد پولیس اہل کار زخمی ہوئے۔ عوامی تحریک کے کارکن پتھرائو کے لیے خاص طور پر نوکیلے پتھروں سے بھری بوریاں اور ہزاروں خصوصی ڈنڈے تیار کرواکر گاڑیوں میں بھر کر لائے تھے۔
پمز، پولی کلینک اور دوسرے ہسپتالوں میں زیر علاج زخمی پولیس اہلکاروں نے بتایا کہ عوامی تحریک کے کارکن پرتشدد کارروائیوں کی مکمل تیاریوں کے ساتھ آئے تھے، ہمیں تو سخت ہدایات تھیں، ہم نے اپنے جسم پر زخم سہے لیکن کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ نہیں ہونے دیا۔ اس وقت تو لگتا تھا کہ قدرت بھی ہمارے اوپر نامہربان ہے، ہمارے پاس اپنے دفاع کا کوئی اور آپشن نہیں تھا جب ہزاروں افراد چاروں طرف سے ہمیں گھیر کر پتھرائو شروع کرتے تھے۔
عوامی تحریک کے کارکنوں نے جس طرح سے سرعام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر تشدد کیا اس پر ریاستی اداروں کی خاموشی معنی خیز ہے۔ اگر تحریک طالبان پاکستان سمیت کوئی بھی کالعدم تنظیم مسلح افواج کے جوانوں اور ملکی املاک پر حملہ کرے تو اسے دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔
لیکن اگر ایک کینیڈین شہری کی تنظیم پاکستان میں سرعام سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنائے تو اسے جمہوری انقلاب کا نام دیا جاتا ہے۔
لہذا شہدا فائونڈیشن آف پاکستان ریاست کے تمام اداروں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ پاکستان عوامی تحریک کو فوری طور پر دہشت گرد تنظیم قرار دے کر اس کے کارکنوں کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ شہدا فائونڈیشن آف پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی طرف سے پاکستان آمد کے بعد غیر ملکی طیارے کو مسافروں سمیت تقریبا چھ گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھنے کی بھی شدید مذمت کرتی ہے۔
یہ بیان موجودہ حالات میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ شاید اسی کے پیش نظر اعلان کے باوجود شیخ رشید طاہر القادری کے استقبال کے لیے ایئرپورٹ نہیں گئے، کیونکہ وہ اب تک لال مسجد آپریشن کے نتائج بھگت رہے ہیں۔

میاں منیر احمد

Posted by: Overseas Pakistanis <overseas.pakistanis@gmail.com>
.
_,_._,_

اپنا تبصرہ لکھیں