طلاق کا مسئلہ ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

زبیر حسن شیخ

zubair.ezeesoft@gmail.com

طلاق کا مسئلہ دن بدن پیچیدہ ہوتا جارہا ہے اور اس پیچیدگی کے اسباب میں جہاں دینی تربیت اور تقوی کا فقدان ہے ونہیں معاشرہ میں ظہور پذیر ہونے والی تیز رفتار تبدیلی کا بھی بڑا ہاتھ ہے، جہاں طلاق کے محرکات اس تبدیلی کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی جارہے ہیں- …. طویل المدتی اجتہادی مراحل سے قطع نظر دیکھیں تو اس کا فوری حل یہی نظر آتا ہے کہ دونوں فریق کو ایک مفصل تحریری قرار داد اور عائلی نظام کے تربیتی مرحلہ کا پابند کر دیا جائے جہاں نکاح، مہر اور طلاق کے رموز و نقاط و لوازمات سے دونوں فریق کو اپنے اپنے مسلک کے تحت بہرہ مند کرایا جائے..اور جہیز، اسراف، خود نمائی جیسی لعنتوں کے متعلق معلومات بھی فراہم کی جائیں، اور اس قرار داد کو قانونی حیثیت بھی دی جائے. واللہ ھو عالم با الصواب…

اس میں کو ئی دو رائے نہیں ہے کہ طلاق کا مسئلہ پرانا ہے اور ماضی میں بھی معاشرہ اس سے ہمیشہ بر سر پیکار رہا ہے…. اور خلافت راشدہ میں بھی اسکے نظائر موجود ہیں … لیکن یہ بھی حقیقت ہے کے موجودہ دور میں مختلف مسائل کی موجودگی میں یہ ناقابل حل ہوتا جا رہا ہے …. اجتہاد کی اپنی پابندیاں ہیں اور علمائے کرام و مفتیان کرام اور اہل علم و دانش اس مسئلہ کے حل کے لئے کوشاں بھی ہیں- طلاق کا مسئلہ چونکہ عائلی نظام کا حصہ ہے اس لئے اسے انفرادی طور پر یا اس نظام کے دیگر مسائل سے الگ کر کے حل کرنا مشکل ہے….. تہذیب جدیدہ اور موجودہ معاشرہ کے پس منظر میں عائلی نظام مکمل طور سے اجتہاد کا متقاضی ہے اور نکاح و طلاق، حقوق و فرائض زوج کے ساتھ ساتھ دیگر عناصر کو بھی مد نظر رکھنا بے حد ضروری ہو گیا ہے… جب تک عائلی نظام کے اجتہادی مراحل طے ہوں، مذکورہ تجویز پر عمل در آمد کرنا مشکل نہیں ہے…. اور جس کے لئے طویل المدتی بحث و مباحثہ اور اجتہادی مراحل کی ضرورت بھی درپیش نہیں ہوگی ….اول تو یہ کہ مختلف مسلک کے معیار اور اصول و ضوابط کے تحت نکاح کی مفصل تحریری قرارداد بنائی جائے اورنکاح سے قبل دونوں فریق کو اسلامی عائلی نظام کی کم از کم اتنی تعلیم و تربیت دی جائے کہ دونوں اپنے اپنے حقوق و فرائض کے جائز و نا جائز اسستعمال سے بہرہ مند ہوجائیں اور پھر ازدواجی زندگی میں داخل ہوں – اسے ہر نکاح کے لئے لازمی قرار دیا جائے…… اور اگر خدا ناخواستہ یہ طریق کار نکاح میں نئی رسم کے اضافہ کا باعث بنکر بدعت کے دائرے میں آبھی جاتا ہے تو اسے خیر سے موسوم کیا جائے، کیونکہ یہ دیگر ہزاروں رائج بدعت سے بہتر ہے…..یہ ایک قسم کا تربیتی مرحلہ یا پروگرام ہو اور دونوں فریق طلاق کے مثبت اور منفی پہلووں سے نا یہ کہ صرف واقفیت حاصل کرلیں بلکہ تحریری قرار داد کی اہمیت کو قانونی طور پر بھی تسلیم کرلیں…….اس تجویز پر بھی بہت سے سوال اٹھ سکتے ہیں جس میں ایک تو بدعت کا پہلو ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، دوسرے یہ کہ لوگ اسے معیوب خیال کریں اور احتجاج کریں کے شادی کی مسرتوں کی بھیڑ میں کوئی احمق ہوگا جو طلاق اور حقوق و فرائض زوج کے متعلق تربیتی مرحلہ میں داخل ہوگا … کچھ لوگ یہ بھی کہیں گے کہ مہندی لگنے اور لگانے کے موسم میں آبلہ پائی کرنا چہ معنی، یا یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کسی کو جنت کی نوید ملے اوراسے بے وجہ ہی دوزخ کے نظارے بھی کرائے جائیں، وغیرہ وغیرہ…. اس کا صاف و سیدھا جواب تو یہی ہے کہ اول تو شادی و نکاح کو مکمل طور پر عبادت سمجھ کر انجام نہیں دیا جاتا اور نہ ہی نصف ایمان کا حصول سمجھا جاتا ہے…. دوم یہ کہ فریقین کو اس حقیقت سے واقفیت بے حد کم ہوتی ہے کہ نکاح و شادی جیسی رحمت و دولت کا ناجائز اور غیر ذمہ دارانہ استعمال زحمت اور مسائل کا با عث بن سکتا ہے…. اس لئے بہرحال یہ تجویز اس سے تو بہتر ہے جس کے امکانات طلاق کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں…..اللہ تعالی نے قران مجید میں جنت کی نوید کے ساتھ دوزخ کی روح فرسا خبر بھی دی ہے جس سے جنت کی اہمیت زیادہ واضح ہوتی ہے کہ یہ بھی یاد رہے کہ جنت کے حصول کے لئے دوزخ سے بچنا بھی ضروری ہے…… مذکورہ تجویز میں شاید ایک کامیاب ازدواجی زندگی کے امکانات ہوسکتے ہیں اور ناجائز اور غیر ضروری طلاق کا اوسط شاید کچھ کم ہوسکتا ہے…. وگرنہ ہر طرح کی طلاق سے نجات اور کامیاب ازدواجی زندگی کے لئے اول دینی تربیت اور تقوی ہی ہے جو ہر صورت میں لازمی ہے….. واللہ ھو عالم با الصواب
زبیر حسن شیخ

اپنا تبصرہ لکھیں