صنف نازک پہ اپنی مغلوبیت کیوں ؟

| گھریلو تشدد کے دلدوز واقعات لمحۂ فکریہ

بنت حوا

 تاریخ    15 اپریل 2021

بلال احمد پرے

بنت ِ حوا کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنا کر موت کی نیند سلانے کے واقعات آئے روز بڑھتے چلے جا رہے ہیں جو سماج کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ایسی متاثرہ صنف نازک کی اس خاموش آواز کو کوئی نہیں سنتا۔ محکمہ پولیس و عدلیہ میں کوئی ان کا حامی نہیں، سماج میں ان کا کوئی ہمدرد نہیں ۔درد دل کے واسطے ان کا کوئی یار و مددگار نہیں۔محکمہ طِب میں ان کے لیے مفت علاج میسر نہیں ۔

آئین ہند کے تحت سال 1983 میں دفعہ 498-A کو اسی لیے ضم کیا گیا کہ اس بے بس و لاچار بیٹی کو سْسرال والوں کی طرف سے ہو رہے گھریلو تشدد اور دیگر ظلم و جبر کے قہر سے بچایا جائے جس میں تین سال تک کی جیل اور جرمانہ بھی مشخص رکھا گیا ہے۔ یہ تشدد اس عورت کے ساتھ چاہیے جسمانی، ذہنی یا طبعی طور پر ہو، اْس سے تنگ و طلب کر کے شوہر و دیگر رشتہ داروں کی طرف سے غیر قانونی طور پر مال و دولت جیسی پیدا شدہ ضرورت پوری کرانا مطلوب ہو،جہیز کے نام پر مال و دولت وغیرہ کا مطالبہ کرنے پر ہی صنف نازک خودکشی جیسے حرام و سنگین اقدام کو بھی بلا خوف و خطر کے اْٹھا لیتی ہے ۔

گھریلو تشدد سے پیدا شدہ صورتحال خود ایک درد دل کی داستان بیان کر رہا ہے۔ اس کمزور طبقہ پر کسی کو انصاف نہیں ۔ایسی تشدد کی شکار ہوئی خواتین کے جو کیس چل رہے ہیں، انکی فاسٹ ٹریک بنیادوں پر سماعت ہونی چاہیے۔ روایتی عدالتوں میں ان کیسوں کو نپٹانے میں کئی برس لگ جاتے ہیں اور متاثرین کو انصاف ملنا مشکل ترین بن جاتا ہے ۔ایسے کیسوں کو نپٹانے کیلئے سرعت سے سماعت ہونی چاہئے۔

حال ہی میں اس ضمن میں چونکا دینے والی ایک تازہ رپورٹ شائع ہوئی جو سماج کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس قسم کے حادثات وادیٔ کشمیر کے شمال و جنوب اور سنٹرل میں برابر کی تعداد میں آئے روز دیکھنے کو ملتے ہیں ۔نکاح ازدواجی زندگی شروع کرنے کی پہلی کڑی ہے۔نکاح کرنے سے صرف شوہر اور بیوی کا رشتہ ہی طے نہیں پاتا بلکہ یہ ایک دوسرے کے لئے شریک ِ حیات جس میں خوشی و غم ساتھ ساتھ گزارتے چلے جاتے ہیں ۔اس طرح سے یہ رشتہ اتنا وسیع ہے جتنی کہ زندگی ہے۔

گھریلو تشدد کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مرد اپنی برتری کو درست ثابت کرنے کیلئے قرآن و حدیث کے حوالے دے دیتا ہے، اس پہلو سے قطع نظر کہ ہاتھ اٹھانے کی اجازت کس صورت اور تناظر میں دی گئی ہے۔ اس ضمن میں سورۃ النساء کی آیت نمبر 34 کا ذکر ضروری ہے جس میں بہترین راہ نمائی فرمائی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ مرد عورتوں پر نگہبان ہیں اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو نیک عورتیں (شوہروں کی) اطاعت کرنے والی (اور) ان کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت و توفیق سے حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور (نہ سمجھنے کی صورت میں) ان سے اپنا بستر الگ کرلو اور (پھر نہ سمجھنے پر) انہیں مارو پھر اگر وہ تمھاری اطاعت کرلیں تو (اب) ان پر (زیادتی کرنے کا) راستہ تلاش نہ کرو۔ بے شک اللہ بہت بلند، بہت بڑا ہے۔ (ترجمہ سورۃ النساء ؛ 34)

اس آیت مبارکہ کی تفسیر حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نے ’’معارف القرآن‘‘ جلد دوم میں بہترین انداز میں کی ہے ۔اِن جیسے علماء کا بیان اس آیت کو بہت اچھے سے سمجھنے کیلئے کافی ہے۔ اس آیت میں وضاحت کی گئی ہے کہ مرد، عورت پر نگہبان کا درجہ رکھتے ہیں، وہ ان کی مالی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ پھر اس میں صالح بیوی کی صفات بیان کرنے کے بعد نافرمان عورتوں کا ذکر کیا گیا اور ساتھ ہی ان کے سدْھارنے کا طریقہ بڑے احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس طریقے کو تین مراحل میں تقسیم کیا گیا ہے۔

پہلا مرحلہ تذلیل کے بغیر نرمی سے سمجھانے کا ہے۔ تاہم اگر اس طرح کے سمجھانے سے باز نہ آئیں تو دوسرے مرحلے میں ان کا بستر اپنے سے علیحدہ کرنے کا تذکرہ ہے۔ لیکن مکان نہیں ، جس سے عورت کو رنج زیادہ ہوگا اور فساد بڑھنے کا بھی اندیشہ ہو سکتا ہے۔ ان دو شریفانہ انداز کی سزا و تنبیہ سے بھی بیوی متاثر نہ ہوئی ، تو پھر تیسرے مرحلے میں مارنے کی اجازت دی گئی ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مارنا کیسا ہے ؟ علماء کرام کے نزدیک مارنے کی اجازت معمولی سی مار ہے، جس سے نہ اْس کے کمزور بدن پر کوئی اثر پڑے نہ ہڈی ٹوٹنے یا زخم لگنے کی نوبت آ جائے۔ مزید چہرے پر مارنے کو مطلقاً منع فرما دیا گیا ہے۔ ابتدائی دو سزائوں پر انبیاء و صلحا سے عمل ثابت ہے مگر تیسری سزا (یعنی مارنے کی اجازت) انتہائی مجبوری کے عالم میں ایک خاص انداز میں تجویز کی گئی ہے۔ بنت ِ حوا موتیوں سے بڑھ کر قیمتی ہے اس کی قدر کرنا سیکھیں۔ اس کے ساتھ خوشگوار تعلقات بنائے رکھنا سیکھیں۔بے شک آج کسی کی لخت جگر آپ کی شریکِ حیات ہے لیکن کل آپ کی لخت جگر کسی کی شریک ِ حیات ہوگی۔ خدارا آپ خود سوچیں کہ کیا آپ یہ برداشت کریں گے کہ کوئی مرد آپ کی اس معصوم ننھی منھی پیاری سی بیٹی کی مار پیٹ کرے، اس سے درد ناک عذاب میں مبتلا کرے، اس سے تیل چھڑک کر یا گیس کے ذریعے جلائے۔ کوئی بھی باپ یہ گوارا نہیں کرے گا بلکہ اس سے پہلے وہ اپنی جان دے دے۔

حدیث نبوی ؐمیں بھی ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ’’اچھے مرد، مارنے کی سزا عورتوں کو نہ دیں گے‘‘۔ چنانچہ انبیاء علیہم السلام سے کہیں ایسا عمل منقول نہیں۔ پھر آیت کے آخری حصے میں فرمایا گیا ہے کہ اگر نافرمان بیوی اطاعت گزار ہوجائے تو اس کی معذرت قبول کرلو۔ اس کے بعد اس کو تنگ نہ کرو، اس سے کوئی تکلیف نہ پہنچائو۔

حضورؐکی حیات مبارکہ میں ایسا کوئی واقعہ ثابت نہیں جس میں آپؐ نے کسی پر ہاتھ اٹھایا ہو۔ نیز حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں ’’ سرکار دوعالمؐ نے کبھی کسی عورت کو مارا نہ کسی خادمہ کو، نہ کسی اور کو، مگر یہ کہ آپؐ اللہ کے راستے میں جہاد کررہے ہوں‘‘

ایک روایت میں ہے کہ جب ایک عورت نے نبی کریم ؐ سے اپنے شوہر کے مارنے کی شکایت کی تو آپؐ نے اس عورت کے شوہر سے فرمایا: ” تم میں سے ایک شخص بیوی کو غلام کی طرح مارتا ہے اور پھر اس سے بغل گیر ہوتا ہے اور شرم بھی نہیں آتی “۔

عورتوں کے ساتھ زیادتی قانونی ، اخلاقی اور اسلامی لحاظ سے قطعاًجائز نہیں۔ جہاں تک دین ِ اسلام کا تعلق ہے، تو اس نے تمام ادیان سے بڑھ کر عورت کو بہترین مقام و مرتبہ دیا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ کچھ لوگ دین ِ اسلام کو اپنے مفاد کیلئے غلط انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ایسی آیات اور احادیث کا حوالہ دیا جاتا ہے جن میں مرد کی حاکمیت اور برتری کا ذکر کیا گیا ہو۔ پھر ایسا طبقہ ان کا حوالہ دے کر اپنی بدخلقی اور زیادتی کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

الغرض جب تک گھریلو تشدد سے متعلق قوانین کا اطلاق سختی سے نہیں کیا جائے گا، صورت حال کچھ زیادہ بہتر نہیں ہو پائے گی۔ گھریلو تشدد میں ملوث اشخاص کو قانون کی گرفت میں لائیں اور انہیں قرار واقعی سزا دیں۔ اس ضمن میں علمائے دین کو بھی ایسے مظالم کے خلاف اسلام کا مؤقف واضح کرنے میں اور عوام کی آگاہی کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تا کہ بنت ِ حوا جیسی لاچار، بے بس و بے سہارا ذات کو مزید تشدد ، ظلم و جبر کا شکار نہ بنایا جائے ۔

پتہ۔ہاری پاری گام، ترال کشمیر

رابطہ نمبر۔9858109109

اپنا تبصرہ لکھیں