شہرت

شہرت


…شاہنواز فاروقی…
شہرت ہمیشہ سے انسان کا مسئلہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان گمنامی سے گھبراتا ہے اور شہرت کی تمنا کرتا ہے۔ لیکن انسان گمنامی سے کیوں گھبراتا ہے اور شہرت کی تمنا کیوں کرتا ہے…؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ گمنامی انسان کو موت کی طرح محسوس ہوتی ہے، اور شہرت زندگی کی طرح۔ چنانچہ وہ شہرت کے ذریعے موت سے زندگی کی طرف جانا چاہتا ہے۔ تاہم اپنی ابتدائی صورت میں شہرت اپنے ہونے کے اظہار کے سوا کچھ نہیں۔ اس سطح پر شہرت کی کوئی نفسیات، سماجیات یا معاشیات نہیں ہوتی۔ اپنی ابتدائی صورت میں شہرت کی تمنا موسم گُل میں شاخ پر کھلنے والے اُس پھول کی طرح سادہ، خوبصورت اور معصوم ہوتی ہے جو شاخ پر کھلتے ہوئے ہوائوں، فضائوں اور ہر دیکھنے والی آنکھ سے کہتا ہے ’’یہ میں ہوں‘‘۔ لیکن شہرت کا معاملہ ہمیشہ اتنا سادہ اور معصومانہ نہیں رہتا۔ انسان بہت جلد اپنی ایک مخصوص نفسیات، سماجیات اور معاشیات پیدا کرلیتا ہے۔ چنانچہ شہرت دیکھتے ہی دیکھتے ’’خواہشِ نمود‘‘ سے انسان کی ’’انفرادیت‘‘ کا اظہار بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو منفرد بنایا ہے، چنانچہ ایک مخصوص دائرے میں انفرادیت کے اظہار میں کوئی برائی نہیں۔ گلاب، چنبیلی اور موتیے کے پھولوں کو اپنی انفرادیت کے اظہار کا حق ہے، اس لیے کہ انفرادیت کا اظہار زندگی کے امکانات اور اس کے تنوع کا اظہار ہے۔ لیکن انسان گلاب اور چنبیلی کا پھول نہیں ہوتا۔ اس کی ایک نفسیات، سماجیات اور معاشیات ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کی انفرادیت کا اظہاراکثر صورتوں میں دوسروں کی انفرادیت سے مقابلے اور موازنے کا کھیل بن جاتا ہے، یہاں تک کہ نوبت یہ آجاتی ہے کہ انسان اپنی انفرادیت کو دوسرے کی انفرادیت پر غالب دیکھنا چاہتا ہے، یعنی خواہشِ نمود اور لذتِ نمود سے انا کی فرعونیت برآمد ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ لیکن شہرت کا معاملہ اس سے زیادہ گہرا ہے۔
انسان ایک عارضی وجود ہے مگر وہ دائمیت کا تمنائی ہے۔ شہرت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اُسے یقین دلاتی ہے کہ میں تجھے ’’مقامی‘‘ سے ’’آفاقی‘‘ اور ’’عارضی‘‘ سے ’’دائمی‘‘ میں تبدیل کردوں گی۔ شیطان نے جب حضرت آدم اور اماں حوا کو بہکایا تو کہا کہ تمہیں ممنوعہ پھل کھانے سے اس لیے منع کیا گیا ہے کہ کہیں تم ہمیشہ رہنے والی زندگی کے حامل نہ ہوجائو۔ عصرِ حاضر میں شہرت کی آفاقیت اور دائمیت کو سمجھنا آسان ہوگیا ہے۔ ایک فرد کا نام اور کام اخبار میں شائع ہوتا ہے اور وہ ایک لمحے میں مقامی سے قومی یا عالمگیر ہوجاتا ہے، اور اس کا نام لاکھوں حافظوں کا حصہ بن کر ایک خاص سطح کی دائمیت حاصل کرلیتا ہے۔ اگر کسی شخص کا نام اور کام ٹیلی وژن پر آجائے تو اس کی آفاقیت اور دائمیت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے زمانے تک آتے آتے شہرت کی تمنا ایک جنون اور ایک نفسیاتی وذہنی مرض بن گئی ہے اور کروڑوں لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں۔ اس مرض کی سنگینی کا اندازہ اس شعر سے کیا جاسکتا ہے:

ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا عار
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا

یہ شہرت کی طلب کی وہ سطح ہے جہاں شہرت اور بدنامی کا فرق مٹ جاتا ہے اور انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ جس چیز کو بدنامی کہا جارہا ہے وہ اوّل تو بدنامی نہیں ہے، اور اگر ہے بھی تو کیا ہوا، اس میں بھی شہرت کا لطف اور معنی موجود ہیں۔ لیکن شہرت اور بدنامی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ شہرت کی منفی ترین صورت بھی بدنامی سے بہتر ہے، اس لیے کہ اس میں بھی خیر کا کوئی نہ کوئی عنصر موجود ہوتا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ شہرت کن لوگوں کو ملی ہے؟
اس سوال کا جواب بہت عجیب ہے، اور وہ یہ کہ انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ شہرت اُن لوگوں کو ملی ہے جنہیں شہرت کی رتی برابر خواہش نہیں تھی اور نہ انہوں نے شہرت کے حصول کے لیے ذرا سی بھی کوشش کی۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے ہمارا اشارہ انبیاء و مرسلین کی جانب ہے۔ انبیاء و مرسلین کی عظیم اکثریت سماجی اور معاشی اعتبار سے عام لوگوں پر مشتمل ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یتیم تھے، اُمیّ تھے، غریب تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں گوشۂ گمنامی سے نکال کر انسانی تہذیب کے مرکز میں کھڑا کردیا۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ ہم نے آپؐ کے ذکر کو بلند کردیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سب سے اچھی شہرت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا ہو، اور خود انسان اس کی نہ خواہش کرے نہ اس کے لیے رتی برابر کوشاں ہو۔ اس صورت میں شہرت ’’مغلوب‘‘ رہتی ہے اور انسان ’’غالب‘‘… لیکن اگر انسان شہرت کی تمنا میں مرا جارہا ہو اور اس کے حصول کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہو تو پھر شہرت ’’غالب‘‘ ہوجاتی ہے اور انسان ’’مغلوب‘‘۔ درجہ بندی کے تناظر میں دیکھا جائے تو شہرت کے تین درجے یا اس کی تین سطحیں ہیں:
(1) شہرت، (2) مقبولیت، (3) محبوبیت
ان تینوں درجوں میں بہت فرق ہے۔ شہرت یہ ہے کہ مشہور ہونے والے کا نام ہزاروں، لاکھوں یا کروڑوں زبانوں پر آگیا ہے۔ مقبولیت یہ ہے کہ مشہور ہونے والا ہزاروں، لاکھوں یا کروڑوں افراد کے اذہان پر چھا گیا ہے۔ محبوبیت یہ ہے کہ مشہور ہونے والا ہزاروں، لاکھوں یا کروڑوں افراد کے دل میں اترگیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا میں مشہور لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے بعد مقبول لوگوں کا نمبر آتا ہے۔ البتہ دنیا میں محبوب لوگ کم ہوتے ہیں، مگر محبوب بن جانے والوں کے اثرات کئی نسلوں اور بسا اوقات صدیوں کو پھلانگ جاتے ہیں۔ چنانچہ انسانی تاریخ پر سب سے زیادہ اثر محبوب بن جانے والے لوگوں ہی کا ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا شہرت ہمیشہ عطا اور بخشش ہوتی ہے، اور کیا اس کے حصول کے سلسلے میں انسان کا اپنا کوئی کردار نہیں ہوتا؟
اس سلسلے میں اسلام کی تعلیم واضح ہے، اور وہ یہ کہ اچھا کام کرنے والے کو دو چیزیں خودبخود مل جاتی ہیں: (1) شہرت اور (2) دولت۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اصل چیز شہرت اور دولت نہیں ہیں۔ اصل چیز اچھا کام ہے، نیکی ہے، کمال ہے۔ جو اچھا کام کرے گا، نیکی کے راستے پر چلے گا اور صاحبِ کمال بنے گا اسے کسی نہ کسی درجے کی شہرت انعام کے طورپر مل جائے گی۔ لیکن ہماری دنیا میں یہ تجربہ کچھ سے کچھ ہوگیا ہے۔ اب لوگ اچھا کام کرنے اور صاحبِ کمال بننے کے بجائے شہرت کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ وہ کوئی اچھا کام کرپاتے ہیں اور نہ ہی انہیں شہرت ملتی ہے، اور اگر شہرت مل بھی جاتی ہے تو وہ شہرت ان کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیتی ہے۔
اگر شہرت کی کوئی روحانی اور اخلاقی بنیاد نہ ہو تو شہرت انسان کو تکبر میں مبتلا کردیتی ہے۔ انسان خود کو برتر اور دوسروں کو کمتر سمجھنے لگتا ہے۔ لیکن تکبر کی سب سے بڑی ہولناکی یہ ہے کہ تکبر صرف اللہ تعالیٰ کے لیے زیبا ہے۔ چنانچہ ہماری مذہبی روایت ہمیں بتاتی ہے کہ تکبر اللہ تعالیٰ کی چادر ہے، اور جو شخص اس چادر کو گھسیٹتا ہے خدا اُسے حقیر بنادیتا ہے۔ شہرت کی ایک منفیت یہ ہے کہ شہرت انسان کو خودپسند بنادیتی ہے۔ شہرت بڑھتی ہے تو خودپسندی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ انسان خود کو دیوتا سمجھنے لگتا ہے۔ شہرت سے پیدا ہونے والی خود پسندی کا ایک پہلو یہ ہے کہ مشہور لوگ شہرت کے ذریعہ ہی اپنے ہونے کو محسوس کرتے ہیں۔ مشہور لوگوں میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں کہ اگر عام لوگ انہیں غور اور اشتیاق سے نہ دیکھیں اور ان کے پاس سے سرسری انداز میں گزر جائیں تو وہ اس کا برا مانتے ہیں۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ کتنا احمق ہے جو ہمیں نہیں پہچان رہا۔ پرانے زمانے کی کہانیوں میں جس طرح شہزادے کی جان طوطے میں ہوتی تھی اسی طرح اب اکثر بڑا کہلانے والوں کی جان شہرت میں ہوتی ہے۔ اس کا مفہوم اِس کے سوا کیا ہے کہ شہرت اکثر لوگوں کا قید خانہ بن جاتی ہے، اور شہرت کا قید خانہ بن جانا انسان کی تعریف نہیں اس کی مذمت ہے۔ شہرت اگر اللہ کی عطا نہ ہو تو اس سے انسان خودفریبی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یعنی انسان کا حقیقی وزن اگر دس گرام ہوتا ہے تو شہرت اسے باور کراتی ہے کہ آپ کا وزن ایک کلو بلکہ ایک من ہوگیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جب اقتدار میں تھے تو کہا کرتے تھے کہ میری کرسی بہت مضبوط ہے۔ اُن کا یہ بیان ان کی شہرت کے اثر کا حاصل تھا۔ مگر بالآخر معلوم ہوا کہ ان کی کرسی مضبوط نہ تھی۔ وہ جیل میں تھے تو کہا کرتے تھے کہ مجھے کچھ ہوا تو سندھ میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی۔ ان کا یہ بیان بھی شہرت کے نشے کا نتیجہ تھا۔ بھٹو صاحب کو پھانسی ہوئی تو سندھ میں خون کی ندیاں تو کیا خون کی نالی بھی نہ بہی۔ ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ شہرت کی روحانی اور اخلاقی بنیادیں نہ ہوں تو شہرت انسان کے خلاف ایک بڑی سازش بن جاتی ہے۔

 



اپنا تبصرہ لکھیں