شِیر خرما  ، ہماری تہذیب  اور تاریخ ہند

زبیرحسن شیخ

عید پر شیفتہ کا برقی دعوت نامہ موصول ہوا کہ ” حضور عید ہے چائے پر نہیں شیر خرما پر آئیے گا۔۔ آتے آتے ہمارا موبائیل ری چارج کروا لیجیے گا” ۔۔۔۔۔ ہم نے سوچا چلیے جب سے ‘برقاصد میاں ‘ ‘پاپولر’ کیا ہوئے ہیں ‘کامن سینس’ کا استعمال عام ہوگیا ہے۔۔۔ اور اب تو پپو بھی بالغ اور عاقل ہو گیا ہے اور انگلش بولنے لگا ہے ۔۔۔۔۔ لفظ پا پولر سے یاد آیا کہ شہرت یافتہ کا متبادل یہ انگریزی لفظ، ماہرعلم و فن کے لئے کسی نشہ سے کم نہیں ہوتا۔۔۔۔۔ اور یہ بھی یاد آیا کہ اسکول میں پاپولر اسٹوری کے نام سے مختلف انگریزی کہانیاں سنی اور سنا ئی جاتی تھیں۔۔۔۔۔ انگریز جاتے جاتے تعلیمی نصاب میں اپنی بنیادیں گاڑ گئے تھے ، اور پھر تہذیب جدیدہ میں داخل ہوتے ہی انکی ہر ایک پاپولر چیز ‘پاپ’ بنتی چلی گئی۔۔۔ انکی کہانیاں ہماری زندگی کی تلخ حقیقتیں بنتی چلی گئی۔۔۔۔۔جس نے دادا دادی اور نانا نانی کی کہانیوں کو پھر کہیں کا نہ رکھا۔۔۔جسے رات کے پہلے پہر بزرگوں کے سینوں پر لوٹ پوٹ کر نو نہال سنا کرتے، اور ونہیں سے انکی شخصیت سازی اور کردار سازی کا دور شروع ہوا کرتا۔۔۔۔ اب وہ فراخ اور گداز سینے بھی نہیں رہے جو تربیت میں لطافت اور کردار میں پختگی کا موجب بنتے۔۔۔۔ اب تو سینوں میں مختلف اقسام کی آگ جلتی ہے ۔۔۔۔۔ بے روزگاری کی آگ، جنگوں اور فسادات کی آگ، تعصب پرستی کی آگ، مادیت پرستی کی آگ، معاشی اور معاشرتی مسابقت کی آگ ۔۔۔ سینوں میں اسقدر آگ ہوگی تو یہ معصوم نسلیں کب اس پر لوٹ پوٹ ہونا چاہے گی ۔۔۔۔ اب وہ کہانیاں بھی نہیں رہی ۔۔۔۔ ان کہانیوں کو رومیو جولیٹ اور رابن هوڈ لے اڑے۔۔۔۔ یہ وہ کہانیاں تھیں جنکے کردار غیر فانی ہوا کرتے اور جو بھلے ہی اپنی زندگی میں قتل کردئے گئے ہوتے لیکن تاریخ میں انکا قتل ممکن نہیں ہوتا۔۔۔۔۔سینہ بہ سینہ چلنے والی یہ کہانیاں انہیں زندہ رکھتیں۔۔ ان کہانیوں میں تاریخ بھی ہوا کرتی اور جغرافیہ بھی، تہذیب بھی اور سچی رواداری بھی۔۔۔۔ اور ان سب سے بڑھکر ان کہانیوں میں دین وعقائد ، انسانیت، دردمندی، بہادری، سخاوت، اقربا پروری کے ایمان افروز واقعات ہوتے۔۔۔ یہ سب لوازمات ملکر بچوں کے قلب و ذہن میں مادیت اور روحانیت سے ملے جلے پودوں کے بیج بوتے۔۔۔ جو کچی عمر کو پہنچتے ہی ایک نخل تمنّا کی صورت لہلاتے۔۔۔۔۔ پھر رفتہ رفتہ پختہ عمر تک والدین اور اساتذہ اس نخل تمنا کی آبیاری کرتے اور معاشرہ گلزار ہوجاتا۔۔۔۔۔ انہیں کہانیوں میں کہیں عید اور اسکے پکوان کی کہانیاں بھی پوشیدہ ہوتی۔۔۔ جو تہذیب و ثقافت کی آئینہ داری کرتی۔۔۔ جسکے نشان انمٹ ہوتے۔۔۔۔انہیں پکوانوں میں بریانی کا ذکر بھی ہوتا اور شیر خرما کا بھی۔۔۔۔۔۔۔انکی مختلف اقسام کا۔۔ انکی اہمیت کا۔۔ انکی انفرادیت کا۔۔۔۔ دادی کے ہاتھ کی بریانی۔۔۔ ماں کے ہاتھ کا شیر خرما۔۔۔مختلف تراکیب مختلف مواد، مختلف ذائقے۔۔۔۔۔۔

اپنے پرائے، پڑوسی، نوکر چاکر، فقیر، مسکین، مہمان، انجان دوست، احباب ، دوستوں کے دوست اور پڑوسیوں کے پڑوسی الغرض سب عید کے دن شیر خرما کے دیوانے ہوتے ہیں۔۔۔۔عید کے شیر خرما کی انفرادیت آج بھی قائم ہے کہ یہ صرف عید کو ہی پکایا جاتا ہے اورعام دنوں میں وہ ذائقہ اور وہ رنگ کہاں سے آئے گا کہ۔۔۔۔۔ جس کے لئے مائیں ہفتہ بھر پہلے مختلف میواجات کا انتظام کر کے رکھتی ہو۔۔۔۔ ان میواجات کی پور پور میں ماں کے پلو کی خوشبو ہوتی ہو۔۔۔۔ رمضان کی عبادتوں کا نور جو اسکی آنکھوں میں اتر آیا ہوتا ہے وہ شیر خرما کے رنگ میں جھلکنے لگتا ہو۔۔۔ مامتا کی شیرینی شیر خرما میں شیر و شکر ہو جاتی ہو ۔۔۔۔ وہ شیر خرما جس نے عید کے پر مسرت دن پیالی میں سماتے سماتے ماں کی چوڑیوں کی کھنک چرا لی ہو۔۔۔ وہ شیر خرما خاص ہی ہوتا ہوگا۔۔۔۔ بس یہی سب سوچتے ہوئے ہم شیفتہ کے گھر جا پہنچے –

ہمارے پہنچتے ہی شیفتہ گویا ہوئے۔۔ فرمایا ، شیر خرما اپنے ذائقہ اور مزاج میں منفرد مقوی غذا ہے۔۔۔۔۔اس کی کنہ کے متعلق کچھ نہ پوچھیے گا کہ یہ کہاں سے آیا اور کس نے متعارف کرایا ۔۔۔ ہم نے پوچھا وہ کیوں؟۔۔۔ فرمایا اسکا وجود میں آنا بھی اردو ادب کی طرح واقع ہوا ہے اور اسے بھی مغلوں نے متعارف کرایا ہے ۔۔جسطرح اپنی ہمعصر بولیوں میں اردو زبان شیریں واقع ہوئی ، کچھ اسی طرح یہ گوشت کے تیز اور تیکھے خرما کی ضد واقع ہوا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ بھی اردو ادب کی طرح مبسوط مرکبات اور ذائقوں پر مشمتل رہا ہے ، غزل کی طرح کثیرالمواد اور جمالیات و تشبیہات سے بھر پور واقع ہوا ہے ۔۔۔۔ اسے آپ کسی شاہی خانساماں کی غلطی کا نتیجہ خیال نہ کر لیجیے گا ۔۔۔ جیسے نان بنوانے میں جب خطا ہوئی ہوگی اور جو شکل اور ذائقہ سامنے آیا ہوگا تو وہ نان خطائی کہلا ئی۔۔۔ اور نوابوں کے پکوانوں کی طرح اسکی کہا نی بھی نہ بنا لیجیے گا ۔۔۔۔جیسے کہ بابر افغانستان سے اسے ایک پیالہ میں لے کر نکلا تھا اور جو سفر میں کہیں بھی نہیں چھلکا۔۔۔۔ یا جب محمود غزنوی اسے پہلی بار لے کر شہر غزنی سے نکلا تو سومناتھ پہنچنے تک بھی یہ گرم اور ترو تازہ تھا۔۔۔۔ بلکہ سترہ اٹھارہ حملوں میں ہمیشہ یہ پیالہ اس کے ساتھ تھا اور اس نے سومناتھ کے پچاریوں کو پیش بھی کیا تھا ۔۔۔۔ فرمایا۔۔ توبہ ہے ۔۔۔ ہندوستا نی تاریخ ہے یا مودی راجہ کا ‘الکشن کیمپین’ ۔۔۔۔۔وہ بھی اسقدر غلو سے کام نہیں لیتے ۔۔۔۔ کچھ خیال رکھتے ہیں ۔۔۔۔ مورخ تو بلکل بھی نہیں رکھتے ۔۔۔۔۔فرمایا، تعصب پسندوں نے تاریخ کا وہ حال کیا کہ اگر آج محمود غزنوی اور اورنگ زیب ہوتے تو اپنی فوج میں شامل سینکڑوں ہندو اور دیگر غیر مسلم سپہ سالاروں اور لاکھوں غیر مسلم سپاہیوں کو لے کر خوب ہنستے اورسر زمین ہندوستان کو زعفران زار کردیتے۔۔۔۔۔ تعصب پسندوں نے انہیں اپنے تعصب کا خوب شکار بنا کر رکھا ہوا ہے۔۔۔۔۔ ان بادشاہوں کو متعصب، دہشت گرد، ہندو دشمن اور نہ جانے کیا کیا قرار دے دیا گیا ۔۔۔ جبکہ چند غیر متعصب محققوں نے ایسے تاریخی جھوٹ کو دلائل کے ساتھ جھٹلایا ہے۔۔۔انکے مطابق محمود غزنوی ہندو دشمنی میں یا اسلام پھیلانے ہندوستان نہیں آیا تھا بلکہ سومناتھ کی دولت لوٹنے آیا تھا۔۔۔ ورنہ کیا وجہ تھی کہ غزنی سے ہندوستان کے ہزاروں میل کے سفر میں ہزاروں مندر موجود تھے اور گوتم بدھ کے مندر اور مجسمے تو افغانستان میں بھی موجود تھے۔۔ خود محمود کی فوج میں لاکھوں مختلف النسل غیر مسلم سپاہی ہوا کرتے تھے جن میں ہندو بھی تھے ۔۔۔۔ اسی طرح اورنگ زیب کی فوج میں لاکھوں غیر مسلم سپاہی بلکہ دو سو ہندو راجاؤں کی فوج شامل تھی جب وہ کلکتہ کی طرف روانہ ہوا تھے ۔۔۔ اور راستہ میں ہندووں کے مقدس مقام کاشی میں انہوں راجاؤں کی درخواست پر پڑاو بھی ڈالا تھا ۔۔۔ اور تب ہی وہ تاریخی واقعہ پیش آیا کہ کاشی مندر کے پچاری نے ایک رانی کی عصمت دری کی تھی ۔۔۔ جس کے سبب عالمگیر بادشاہ نے راجاؤں کی درخواست پر اس مندر کو زمین بوس کر نیا مندر حکومت کے خزانوں سے بنا کر دیا تھا ۔۔۔۔۔

فرمایا، مغلوں نے بلا تعصب حکومت کی تھی اس لئے ہندوستان کی دولت لوٹ کر وہ اپنے ملک نہیں لے گئے اور نہ ہی یہاں بیٹھکر اپنے ملک روانہ کرتے رہے۔۔۔ جیسے انگریزوں نے کیا تھا۔۔۔ وہ سب یہیں کے ہورہے اور ہزار سالہ تہذیب و تمدن کی سوغات دی ہے انہوں نے ہندوستان کو ۔۔ جن میں بے شمار نظامات اور طریقہ کار ، رفاہ عام ، فنون لطیفہ ، تعمیر و تحقیق اور ہزارہا اقسام کے پکوان ہیں ۔۔۔۔ بریانی اور شیر خرما جیسی مقوی اور ذائقہ دار غذائیں بھی ہیں جن سے دنیا آج لطف اندوز ہوتی ہے ۔۔۔

شیفتہ کے مہمانوں میں چند حضرات جنوبی ہند سے بھی تھے ۔۔۔۔۔۔شیر خرما پر شیفتہ کا بلیغ تبصرہ سن کر، شیر خرما کے شیر کو زبر کے ساتھ ادا کر کے پوچھنے لگے کہ ۔۔۔۔” اس کورمہ میں شیر کی چربی کا بھی استعمال کرتا ہونگے؟”۔۔۔ اس لئے تو یہ اتنا اچھا بنتا ہے ” ۔۔۔ جنوبی ہند کے خاصکر کیرالہ اور مدراس کے حضرات جو بھلے اردو سے نابلد ہوتے ہوں لیکن اسکی محبت میں سرشار ہوتے ہیں، انکے منہ سے اردو سن کر جو مزہ آتا ہے وہ اور کسی سے نہیں آتا۔۔۔۔۔انہیں اردو شاعری کا شوق کسی انگریز محب اردو سے کم نہیں ہوتا ۔۔۔ انکی محبت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ یہ بلا تردد گھنٹوں مہدی حسن کی آواز میں فراز اور قتیل بلکہ میر و مرزا کو بھی سنتے ہیں اور خوب سر دھنتے ہیں۔۔۔ پھر کبھی کو ئی اہل زبان مل جاتا ہے تو ایک آدھ مصرع پڑھکر اردو سے اپنی محبت کا اظہار کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے۔۔۔۔

ایک صاحب شیفتہ سے پوچھ بیٹھے کہ جناب چشمے کا تل کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔ اور یہ دشمن کیوں ہوتی ہے۔۔۔ بلکہ دشمن ہوتا ہے ہونا چا ہیے ۔۔۔ شیفتہ نے فرمایا جناب وہ چشم قاتل مری دشمن تھی۔۔۔۔۔۔۔کہا ہے شاعر نے ۔۔۔۔۔ اس محب اردو نے کہا ۔۔ قاتل بھی ہے اور دشمن بھی ہے پھر بھی تم لوگ اسکو اتنا عزت دیتا ہے کہ اسکا شاعری کردیتا ہے ۔۔۔ تم لوگ بہت اچھا ہے ۔۔۔ “ویسے جناب یہ شیر تم لوگوں نے ضرور بش کے لئے بولا ہوگا ۔۔۔۔ شیفتہ نے کہا جناب یہ شاعر نے اپنے محبوب کے لئے کہا ہے ۔۔۔ اب آپ شیر خرما نوش فرمائیے اور اسکی شیرینی کو زیر و زبر نہ کیجیے۔۔اور عید کا مزہ لیجیے ۔۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں