شب وروز میں ہے ثبات کب

ڈاکٹر جاوید جمیل

شب وروز میں ہے ثبات کب
ہے مری حیات حیات کب

نہ پتہ چلا تری یاد میں
ہوئی صبح کب گئی رات کب

نہ میں خوب ہوں نہ میں خاص ہوں
جو ہے تجھ میں مجھ میں وہ بات کب

مرے دن پہ چھائی ہیں دوریاں
مری رات وصل کی رات کب

بھلا آتا کیا ترے خواب میں
ترا آئنہ مری ذات کب

مرے دوست دیکھیں گے رشک سے
مرے ہاتھ میں ترا ہاتھ کب

کوئی بات اور کہاں ہوئی
ہوئی منقطع تری بات کب

تھا ادب، حیا تھی، لحاظ تھا
نئے خوں میں ہیں یہ صفات کب

نہ ہی مشغلے نہ ہی ولولے
غم_ زندگی سے نجات کب

جو نکالتیں نئے زاویے
مری فکر میں وہ جہات کب

میں اگا رہا ہوں محبتیں
ملیں دیکھیے ثمرات کب

دم_ زندگی کو ہے فکر یہ
کہ قفس سے ہوگی نجات کب

اپنا تبصرہ لکھیں