شاطر مکیاویلی کے روپ میں زرداری

شاطر مکیاویلی کے روپ میں زرداری

 

آصف جیلانی
– سولہویں صدی عیسوی میں اٹلی میں نکولو مکیاویلی کے نام سے ایک مشہور تاریخ دان فلسفی ادیب  ڈرامہ نویس اور شاطر سفارت کار گزرا ہے جو جدید سیاسی سائنس کا بانی مانا جاتا ہے ۔ یہ وہ دور تھا جب شہروں کی الگ الگ مملکتیں تھیں۔ مکیاویلی فلورنس کی جمہوریہ میں 1498سے 1512تک اہم عہدہ پر فائز رہا۔ اس عہدہ سے سبک دوشی کے بعد اس نے ایک شہرہ آفاق کتاب لکھی ۔ نام اس کا  پرنس ،، ہے جس میںپہلی بار اقتدار کی سیاست کے اصول پیش کیے گئے ۔6 سو سال قبل مکیاویلی نے اس کتاب میں حقیقت پسندی کے نام سے سیاست کاجو فلسفہ پیش کیا اس نے نہ صرف اس زمانہ میں یورپ میں ایک تہلکہ مچا دیا تھا بلکہ آج بھی دنیا بھر کی سیاست پر اس کی گہری چھاپ ہے ۔ مکیاویلی نے بنیادی طور پر سیاست کو دین اور اخلاقی فلسفہ سے یکسر جدا کر کے ایسی سیاسی ساینس کے طور پر پیش کیا جس میں خیر اور شر کو خیرباد کہہ دیا گیا ہواور اقتدار کے حصول اور اس کی بقا کے لیے ہر جایز و ناجائز حربے کو حق بجانب قرار دیا گیا ہو۔ مکیاویلی کا عقیدہ تھا کہ نیک صالح انداز زندگی خوشحالی کی راہ نہیں دکھا سکتی اور دراصل مصائب کے بل ہی پر  پرنس،، حکمرانی کا اہل ثابت ہو سکتا ہے ۔  پرنس ،، میں پیش کردہ اسی فلسفہ کی بنیاد پر سیاست میں دھوکا فریب مطلق العنانی اور سیاسی ساز باز اورجوڑ توڑکومکیاویلین ،، سیاست قرار دی جاتی ہے ۔مکیاویلی کی اخلاقی قیود سے آزاد سیاست کی بنا پر انگریزی زبان میں شیطان کے لیے  Old Nick،، کی اصطلاح عام ہوئی ہے اور ذاتی مفادات کی خاطر فریب اور ساز باز اور جوڑ توڑ کے عمل کو مکیا ویلین عمل کہا جاتا ہے ۔ مکیا ویلی نے کتاب پرنس،، 1513 میں لکھی تھی لیکن یہ اس کے انتقال کے 5 سال بعد شائع ہوئی اور 1559 میں جب پاپائے روم نے اس کی اشاعت پر پابندی عائد کی تو اس وقت تک اس کے 15ایڈیشن شایع ہو چکے تھے اور یہ کتاب یورپ کے حکمرانوں میں نہایت مقبول تھی جن میں انگلستان کے اولیور کرامویل  ہنری ہشتم اور شاہ چارلس پنجم نمایاں تھے۔ آج کل کے دور میںپاکستان کے صدر آصف علی زرداری مکیاویلی کے روپ میں نظر آتے ہیں اور ان کی سیاست پر پرنس،، کے سیاسی اصولوں کی چھاپ نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ نظریات کی ہم آہنگی سے یکسر مبراصرف مفاہمت کے نام پر بھان متی کا کنبہ جوڑ کر مخلوط حکومت کو برقرار کھنا اور حکومت کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لیے ق لیگ کا سہارا لینا جسے زرداری قاتل لیگ کہتے تھے اور پرویز الہی کو نائب وزیر اعظم کے عہدہ کا تحفہ پیش کرنا جن کے بارے میں بے نظیر بھٹو نے کھلم کھلا یہ خطرہ ظاہر کیا تھا کہ وہ ان کو قتل کرانا چاہتے ہیں یہ سب خالصتا مکیاویلی سیاست نہیں تو اور کیا ہے؟ بار بار حکومت سے علیحدگی کے باوجود ایم کیو ایم کو مخلوط حکومت کا ساجھی بنائے رکھنا بھی بہت سے لوگوں کے نزدیک مکیاویلی سیاست کی کامیابی تصور کی جاتی ہے ۔ زبردست مقبولیت کے باوجود بھٹو صاحب ملک کی سیاست پربڑے صوبہ پنجاب کا اثر توڑنے میں کامیاب نہ ہو سکے تھے لیکن ان کے داماد نہایت چابک دستی سے پنجاب کو جنوبی پنجاب اور بہاول پور کے مجوزہ صوبوں میں تقسیم کرنے کی چال میں کامیاب ثابت ہوتے نظر آتے ہیں۔لوگ اسے بھی زرداری کی مکیاویلی چال قرار دیتے ہیں کہ جس طرح انہو ں نے اپنے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمہ کو سوئس عدالت میں دوبارہ کھولنے سے روکنے کے لیے اپنے وزیر اعظم گیلانی کو بھینٹ چڑھایا ہے ۔ سوئیس عدالت کو خط لکھنے یا نہ لکھنے کے ہنگامہ میں شاید لوگ یہ بھول گئے ہیں کہ جس سوئیس عدالت کو مقدمہ دوبارہ کھولنے کے لیے خط لکھنے کے لیے کہا جارہا ہے اس عدالت نے زرداری اور بے نظیر بھٹو کو منی لانڈرنگ کا مجرم قرار دیا تھا اور ان پر86 لاکھ ڈالر کا جرمانہ عاید کیا تھااور دونوں کو 5 سال قید کی سزا سنائی تھی جس کے خلاف اس وقت اپیل زیر سماعت تھی جبNRO کے تحت یہ مقدمہ واپس لے لیا گیا۔ یہ زرداری کا کیسا جادو ہے کہ اب بھی گیلانی اس پر مصر ہیں کہ انہوں نے آئین کے تحفظ کی خاطر وزارت اعظمی کی قربانی دی ہے اور 5 سال کی نااہلی قبول کی ہے ۔ بلا شبہ زرداری کی اس چال کو پاکستان کی تاریخ میں مکیاویلی کی چا ل کے نام سے یاد رکھا جائے گا۔ پھر اپنے نئے وزیر اعظم پرویز اشرف راجا کو نا اہلی سے بچانے کے لیے بلا کی سرعت کے ساتھ توہین عدالت کا نیا قانون نافذ کیا ہے اور مخلوط حکومت میں اپنے ساجھے داروں کو خوش کر نے کے لیے دوہری شہریت کا موجودہ قانون بدلنے کی خاطر آئین میں ترمیم کافیصلہ کیا ہے۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد ان کی  ان دیکھی،، وصیت کے بل پر پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد آصف علی زرداری نے پرویز مشرف کو صدارت سے ہٹانے اور خود یہ عہدہ حاصل کرنے کے لیے پنجاب میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت مسلم لیگ ن کو مفاہمت کے نام پر مخلوط حکومت میں شامل کرنے چال چلی تھی وہ بلا شبہ مکیاویلی چال تھی جسے نواز شریف نہ سمجھ سکے۔ اس سیاسی اتحاد کی بنیاد پر زرداری نے پرویز مشرف کو مواخذہ سے ایسا خوف زدہ کر دیا تھا کہ آخر کار مشرف نے ہتھیار ڈال دئے اور استعفی دینے میںاپنی نجات دیکھی۔ پھر زرداری نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دوسرے برطرف ججوں کی بحالی کے بارے میں اعلان مر ی پر یہ کہہ کر عمل کرنے سے صاف انکار کر دیا کہ یہ معاہدہ کوئی قرانی آیت نہیں اور نہ حدیث ہے ۔یہ خالص مکیاویلی انداز تھا جو عوام کی رائیوکلا اور دوسری جماعتوں کی تحریک اور لانگ مارچ کے ڈر کی بنا پر کامیاب ثابت نہ ہو سکا اور برطرف عدلیہ کو بحال کرنا پڑا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زرداری نے عوام کے مصائب کے بل پر حکمرانی کے بارہ میں مکیاویلی کا اصول اپنایا ہوا ہے ۔ بجلی کی قلت گیس سے لے کر سبزی ترکاری اور دالوں تک مہنگائی نے عوام کو سخت مصائب میں جکڑا ہوا ہے ۔ملک کی معیشت کی ابتری نے عوام کو شدید عذاب میں مبتلا کردیا ہے اور عالم یہ ہے کہ ناٹو کی رس کی بحالی کے عوض امریکا نے ایک ارب 30کروڑ ڈالر دینے کا جو وعدہ کیا ہے وہ ملک کی معیشت بچانے کے لیے صرف 3مہینوں کے لیے کافی ہوں گے ۔ اس وقت سب سے بڑا سوال یہ کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پچھلے چار سال میں حکومت کا مالی خسارہ دو گنا ہو گیا ہے جو 1623ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جس کی وجہ سے حکومت نے 6 سو ارب روپے کے نوٹ چھاپے ہیں۔ پھر معیشت کی نمو کی شرح صرف 3فی صد ہے جو پچھلے پچاس سال کے مقابلہ میں سب سے کم ہے ۔ آئندہ چند سال میں بے روزگاری کا مسئلہ بے حد سنگین ہوتا نظر آتا ہے جب کہ اندازہ ہے کہ کام کرنے کے قابل 2 کروڑ نوجوان روزگار کے لیے بازار میں آئیں گے۔ معیشت کا جو حال ہے اس کے پیش نظر بڑا مشکل نظر آتا ہے کہ ان میں سے ایک چوتھائی نوجوانوں کو روزگار فراہم نہیں کیاجاسکے گا۔نتیجہ یہ ہوگا کہ عوام کے مصائب میں شدید اضافہ ہوگا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زرداری عمدا عوام کے مصائب میں اضافہ کر کے حکمرانی کے بارے میں مکیاویلی کے اصول پر عمل کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں